• Wed, 03 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ کے انتظامات کیلئے عرب اور عالمی شراکت منظور ہے : محمود عباس

Updated: September 03, 2025, 3:27 PM IST | Agency | Gaza

فلسطین اتھاریٹی کے صدر نے کہا ’’ اسرائیل ۲؍ لاکھ افراد کو ہلاک اور زخمی کر چکا ہے مگر دنیا صرف مذمت کر رہی ہے۔‘‘

Palestinian Authority President Mahmoud Abbas. Photo: INN
فلسطین اتھاریٹی کے صدر محمود عباس۔ تصویر: آئی این این

فلسطینی صدر محمود عباس نے ایک انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ فلسطینی اتھاریٹی غزہ کے انتظام میں عرب یا عالمی طاقتوں کی شراکت کو قبول کرے گی ۔محمود عباس نے بتایا کہ اسرائیل فلسطین کو تباہ کرنا چاہتا ہے ۔ غزہ میں کم از کم دو لاکھ افراد ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں لیکن اسرائیل کی کاروائیاں اب بھی جاری ہیں جبکہ دنیا صرف مذمت تک محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی عالمی فیصلوں  پر عمل  درآمد ہوتا نہ دیکھنےکے عادی ہو چکے ہیں۔ہمارے پاس اقوام متحدہ کے فلسطین سے متعلق ایک ہزار فیصلے ہیں، جن میں سے کوئی بھی نافذ نہیں ہوا۔صدر عباس نے بتایا کہ غزہ واقعی بھوک کا شکار ہے، جو جنگ میں نہیں مرا وہ بھوک سے مر رہا ہے، بھوک سے مرنے والوں کی تعداد جنگ میں ہلاک ہونے والوں سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو فلسطینی عوام کے صفایا پر مصر ہیں۔ وہ چاہتے ہیں وزیر اعظم رہے تاکہ اسرائیل میں ان کے خلاف مقدمہ نہ ہو سکے۔اس کے علاوہ محمود عباس نے کہا کہ اردن اور مصر نے شاندار موقف اختیار کیا ہے تاکہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو بے دخلی سے بچایا جا سکے۔ ہم فلسطینی عوام کی بے دخلی روکنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی سفارتی طور پر غزہ پر جنگ روکنے میں سرگرم ہے۔ "ہم غزہ کے انتظام کیلئے تیار ہیں اور اس کیلئے تمام وسائل موجود ہیں۔ عرب یا عالمی شراکت کے بارے میں کوئی اعتراض نہیں۔صدر عباس نے واضح کیا کہ نیتن یاہو ایک مکمل فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف ہیں۔ہم  نے ۱۹۸۸ءءمیں اسرائیل کو تسلیم کیا، پھر بھی وہ فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دیتے۔انہوں نے کہاکہ ۱۴۹؍ ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے اور کئی سربراہان نے مجھے فلسطین کو تسلیم کرنے کی خواہش سے آگاہ کیا ہے۔ ہم اقوام متحدہ جائیں گے تاکہ فلسطین کو مکمل رکنیت ملے۔
 محمود عباس نے اس بات پر زور دیا کہ ’’اوسلو معاہدے میں کوئی فلسطینی رعایت نہیں دی گئی۔ یہ معاہدہ ۱۸؍ لاکھ فلسطینیوں کو وطن واپس آنے کا موقع فراہم کرتا ہے لیکن نیتن یاہو نے اوسلو معاہدہ ختم یا معطل کرنے کی کوشش کی مگر یہ معاہدہ دو طرفہ ہے اور کسی ایک طرف سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اوسلو میں ہم نے اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان باہمی طور پرتسلیم پر اتفاق کیا۔ اسرائیلی اب اس پر پچھتاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ’’ہم اسرائیل کے خلاف جنگ نہیں چاہتے۔ ہمارا قانون پر امن عوامی مزاحمت پر مبنی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK