Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا نے سماجی زندگی تباہ کردی ہے

Updated: August 20, 2023, 5:03 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

اس پلیٹ فارم کے بے جا استعمال کی وجہ سے ہماری صحت متاثر ہوتی ہے، ہمارا وقت برباد ہوتا ہے اور سماج میں انتشار بھی پیدا ہوتا ہے،اسلئے اس کے خلاف ایک باقاعدہ مہم کی ضرورت ہے

Photo. INN
تصویر:آئی این این

گزشتہ دنوں ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ ان کے گردن میں کپڑے کاموٹا والا بیلٹ لگا ہو ا تھا تاکہ گردن سیدھی رہے۔ وجہ پوچھی تو انہوں نےبتایا کہ رات میں بستر پر لیٹ کر موبائل دیکھنے کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے، اسلئے ڈاکٹرنے انہیں یہ بیلٹ لگانے کا مشورہ دیا ہے۔ طبی اصطلاح میں اسے ’ٹیکسٹ نیک سنڈورم‘ کہا جاتا ہے۔
 کچھ دنوں قبل کی بات ہے،ایک ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ ان کے پاس ایک مریض آیا جس کا بایاں ہاتھ ٹھیک سے اوپر نہیں اُٹھ رہا تھا۔ ہاتھ میں تو درد تھا ہی، کندھا اور بائیں جانب کا سینہ بھی درد کررہا تھا۔ مریض یہ سوچ کر خوف زدہ تھا کہ کہیں ’فالج‘ اور ’ ہارٹ اٹیک‘ کا مسئلہ تو نہیں ہے۔ مختلف رپورٹیں دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب اس نتیجے پر پہنچے کہ موبائل فون کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
 آنکھوں کا خشک ہونا ایک ایسی بیماری ہے جس میں آنکھوں سے مناسب مقدار میں آنسو باہر نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے آنکھوں میں نمی کم ہو جاتی ہے۔ یہ مسئلہ کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے خواہ وہ بچہ ہو یا بوڑھا۔ آنکھوں میں خشکی کے اس مسئلے کو ’ڈرائی آئی سنڈورم‘ کہتے ہیں ۔ اس بیماری کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ موبائل کا بہت زیادہ استعمال ہے۔
 موبائل کے کثرت استعمال کی وجہ سے ہونے والی یہ چند ایسی بیماریاں ہیں جن کی نوعیت انفرادی ہے اورجن کا ازالہ کسی حد تک ممکن ہے لیکن اس کی وجہ سے جوسماجی بیماری پیدا ہورہی ہے، وہ بہت سنگین ہے۔ لوگ سماج میں رہتے ہوئے بھی سماج سے دور ہوجاتے ہیں بلکہ ان میں سے بیشتر کو اپنے گھر تک کی بھی خبر نہیں رہتی۔ ابھی حال ہی میں اس تعلق سے ایک چشم کشا رپورٹ آئی ہے جس سےظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا نے سماجی زندگی تباہ کردی ہے۔ ڈیجیٹل مشاورتی ادارے ’کے پیوس‘ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی ۶۴؍ فیصد سے زیادہ آبادی سوشل میڈیا پر فعال ہے اور اپنا بہت سار ا وقت وہاں پر’ضائع‘ کرتی ہے۔اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس شرح میں سالانہ طور پر ۳ء۷؍ فیصد کا اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کی ۷۹۰؍ کروڑ کی آبادی میں سے ۵۲۰؍ کروڑ افراد سوشل میڈیا کے چنگل میں پھنسے ہوئےہیں ۔ یہاں چنگل کا لفظ اسلئے استعمال کیا جارہا ہے کہ ان میں سے بیشتر ’کوشش کے باوجود‘ اس سے پیچھا نہیں چھڑا پارہے ہیں ۔ 
 دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنا وقت برباد کرنے والوں کی فہرست میں ہم ہندوستانیوں کا نمبر دوسرا ہے۔ پہلے نمبر پرچین اور تیسرے نمبر پرامریکہ ہے۔رپورٹ کے مطابق چین میں ۱۰۲؍ کروڑ، ہندوستان میں ۷۶؍ کروڑ اور امریکہ میں ۳۰؍ کروڑ سے زائد افراد سوشل میڈیا کااستعمال کرتے ہیں ۔ جہاں تک اس پلیٹ فارم پر وقت گزارنے کی بات ہے، ہماری پوزیشن اوسط سے زیادہ ہے۔ عالمی سطح پر سوشل میڈیا کے استعمال کا اوسط وقت ۱۵۱؍ منٹ یومیہ ہے جبکہ ہندوستان میں ۱۹۴؍ منٹ یعنی ۳؍ گھنٹے ۱۴؍ منٹ ہے۔ اسی طرح ہم ہندوستانیوں کے’ اسکرین ٹائم‘ کا اوسط یومیہ ۶؍ گھنٹے سے زائد کا ہے اوران میں اکثریت ۱۸؍ سے ۲۰؍ سال کے نوجوانوں کی ہے۔
 سوشل میڈیاجیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ایک اچھی چیز ہے۔ اگر اس کااستعمال مثبت ہو تو اس کی مدد سے ہم بہت سارا فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور اپنے سماجی رابطے میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں لیکن افسوس کہ سوشل میڈیا ہم میں سے بیشتر کیلئے ایک لت بن چکا ہے۔ صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ بچے اور بوڑھے حتیٰ کہ گھریلو خواتین بھی اس لت کی شکار ہیں ۔اس لت نے ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو کھا لیا ہے اور ہمیں خیالی دنیا کا مسافر بنا دیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے خود استعمال ہونے لگے ہیں ۔ اس کا تباہ کن نتیجہ ہم سماج میں اور اپنے آس پاس آسانی سے دیکھ سکتے ہیں ۔ پوسٹ پرلائک ، شیئر اور تبصرہ کی گنتی میں ہم کچھ اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ اپنا اصل مقصد اور اپنی ذمہ داریاں فراموش کر بیٹھتےہیں ۔اس کی وجہ سے ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی شکایت عام ہے۔ والدین اپنے بچوں سے ، بیویاں اپنے شوہروں سے، اساتذہ اپنے طلبہ سے اور مالکان اپنے ملازمین سے نالاں نظر آتے ہیں ۔
 ابھی حال ہی میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جب کوئی شخص سوشل میڈیا پر مصروف ہوتا ہےتو اس دوران اس کے دماغ کا ایک مخصوص حصہ بھی متحرک ہوجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ دماغ کا وہی حصہ ہے جو کسی فرد کے نشہ آور اشیاء کے استعمال کے وقت متحرک ہوتا ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک طرح کا نشہ ہے اورجب کوئی ’نشے‘ میں ہو تو اسے اچھے اور برے کی تمیز کیوں کر ہوسکتی ہے؟ یہی سبب ہے کہ اس نشے کا خمیازہ ہم روز بھگت رہے ہیں ۔ تین ماہ سے منی پور جل رہا ہے اور ہریانہ میں ہزاروں کی آبادی بے گھر اور بے روزگار ہوگئی ہے۔ حکومت کی نااہلی یا اس کی زیادتی اپنی جگہ، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں ہی جگہوں پر جو آگ لگی، اس کی چنگاری سوشل میڈیا ہی نے ڈالی تھی۔ کچھ تو سازش کے تحت ایساکرتے ہیں ، کچھ سادہ لوحی میں بھی اس سازش کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ ہم میں سے بیشتر یہ دیکھے بغیر کہ میسیج میں کیا ہے؟ اس کی سچائی کتنی ہے؟ اورسماج پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، اسے فارورڈ کردیتے ہیں ۔ یہ غیر ذمہ دارانہ کام ، ہم نہایت ذمہ داری سے کرتے ہیں ۔ 
    اس معاملےمیں سرسری جائزے سے بھی ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے کثرت استعمال سے:
  (۱)ہماری صحت متاثر ہوتی ہے، جس کے علاج پر پیسہ اور وقت دونوں برباد ہوتا ہے۔ 
 (۲) ہمارا وقت برباد ہوتا ہے، ہم امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں ، ہماری ملازمت چلی جاتی ہے، گھروالوں کی نظروں میں ہم گر جاتے ہیں اور ہمارا ’کانفیڈنس لیول‘ کم ہوجاتا ہے۔
  (۳) سماج میں انتشا ر کا سبب بنتا ہے کیونکہ ہم یہ جانے بغیر کہ سچ کیا ہے، ’فارورڈ فارورڈ‘ کھیلنے لگتے ہیں ۔
 سوشل میڈیا کا کم سے کم استعمال اور اس کے مثبت استعمال کیلئے باقاعدہ ایک مہم کی ضرورت ہے، جس میں ہر اُس فرد کو حصہ لینا چاہئے جو خود کو سماج کا ذمہ دار فرد سمجھتا ہو۔اس مہم کا آغاز انفرادی طورپر ہونا چاہئے کیونکہ انفرادی کامیابی ہی، اجتماعی کامیابی کی بنیاد بنتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK