Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہندی تنازع پر ٹھاکرے برادران کی ہنگامہ آرائی نے مہایوتی کو بے چین کردیا

Updated: July 06, 2025, 12:25 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

قومی یکجہتی کے پیش نظر یہاں تمام تعلیمی پالیسیوں میں سہ لسانی نظام رائج ہے تاہم مہاراشٹر میں پرائمری اسکولوں میں ہندی کو بطور تیسری زبان لازمی قرار دینے کیخلاف اپوزیشن بالخصوص ٹھاکرے برادران نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔

The government`s announcement to withdraw the GR comes after the Thackeray brothers decided to hold a joint rally. Photo: INN.
حکومت کی جانب سے جی آر واپس لینے کا اعلان ٹھاکرے برادران کی مشترکہ ریلی نکالنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

کثیر لسانی کا فارمولا ہندوستان کو دوسرے ممالک سے ممتاز کرتا ہے۔ بہت سے ممالک میں لوگ صرف ایک زبان جانتے ہیں یا اپنی مادری زبان کے علاوہ انگریزی سے واقف ہیں تاہم ہمارے ملک میں قدیم زمانے سے لوگوں کا کثیر لسانی ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ یہاں مادری زبان، علاقائی زبان، علمی زبان اور اطراف کے علاقوں کی بولیاں شامل ہیں۔ قومی یکجہتی کے پیش نظر یہاں تمام تعلیمی پالیسیوں میں سہ لسانی نظام رائج ہے تاہم مہاراشٹر میں پرائمری اسکولوں میں ہندی کو بطور تیسری زبان لازمی قرار دینے کیخلاف اپوزیشن بالخصوص ٹھاکرے برادران نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ اس طرح ہندی اب مہایوتی کیلئے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ اپوزیشن کے اس رخ سے وزیر اعلیٰ فرنویس کو جھکنا پڑا اور جی آر واپس لینا پڑا۔ 
حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے
پربھات( مراٹھی، یکم جولائی )
’’پچھلے کئی دنوں سے ہندی کی تعلیم کو لازمی کرنے پر ریاست کا سیاسی ماحول گرمایا ہوا تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ یہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں تھا بلکہ مراٹھی زبان کے وجود اور مجموعی طور پر مراٹھی کی عظمت کا سوال تھا۔ جیسے ہی یہ دیکھا گیا کہ اپوزیشن پارٹیاں متحد ہورہی ہیں اور دونوں ٹھاکرے بھائی اکٹھے ہوکر مشترکہ احتجاج کرنے جارہے ہیں، حکومت نے جی آر واپس لے لیا۔ یہ واپسی تاخیر سے کی گئی حکمت تھی۔ حکومت نے۱۶؍ اپریل اور ۱۷؍ جون کو ہندی زبان لازمی کرنے کے حوالے سے دو فیصلے کئے تھے، ان دونوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ اگرچہ فیصلہ کرنے کو ایک ماسٹر اسٹروک کہا جارہا ہے لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ یہ ایک عام سی کارروائی ہے۔ حکومت نے ہندی کو لازمی کرنے کا فیصلہ یقیناً واپس لیا ہے لیکن وزیر اعلیٰ فرنویس نے ڈاکٹر نریندر جادھو کی قیادت میں ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مختصر یہ کہ سرکار اس معاملے کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ اس کے خلاف بھی احتجاج کیا جانا چاہئے۔ اس بات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت نے ریاست میں ہندی کو لازمی کرنے کی کوشش کیوں کی؟اگرچہ حکومت دلیل دے رہی ہے کہ یہ قومی تعلیمی پالیسی کا حصہ ہے، لیکن حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریاست میں سہ لسانی فارمولے کو نافذ کرے یا نہ کرے۔ جنوبی ریاستوں نے اسی حق کا استعمال کرتے ہوئے ہندی کو مسترد کردیالیکن مہاراشٹر میں فرنویس سرکار نے اپوزیشن کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندی کو لازمی قرار دینے کا حکم نامہ جاری کردیا۔ اپوزیشن کے سخت اور جارحانہ رخ نے حکومت کو خوفزدہ کردیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے، اس نے بی ایم سی انتخابات کے پیش نظر اپنے قدم واپس لئے ہیں لیکن یہ کوئی انتخابی موضوع نہیں ہے۔ ‘‘
راج ٹھاکرےکیلئے سیاسی روٹی سینکنے کا ایک موقع
نوبھارت ٹائمز(، ہندی، یکم جولائی )
’’ایک طویل جدوجہد کے بعد آخر کار مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ فرنویس اسکولوں میں ہندی پڑھانے کے فیصلہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ ریاست کی سیاست میں جس طرح سے یہ معاملہ گرم ہورہا تھا، اسے دیکھ کر حکومت کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ فرنویس حکومت کے تازہ اعلان کو اس حقیقت سے الگ کرنا مشکل ہے کہ ہندی کا مسئلہ ریاست میں اپوزیشن پارٹیوں کےہاتھ میں ایک طاقتور ہتھیار بنتا جارہا رہا تھا۔ اس معاملے پر نہ صرف اپوزیشن پارٹیاں متحد تھیں اور اسمبلی کے اجلاس کو ہنگامہ خیز بنانے پر آمادہ تھیں بلکہ ٹھاکرے برادران کو بھی ہندی مخالف سیاست کے ذریعہ اپنی جانی پہچانی زمین دوبارہ ملتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ عیاں رہے کہ شیوسینا سربراہ بالا صاحب ٹھاکرے کے ابتدائی دنوں میں پارٹی خاص طور پر ہندی بولنے والوں کی مخالفت کیلئے مشہور تھی۔ ممبئی اور مہاراشٹر میں ہندی بولنے والوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو مراٹھی شناخت کیلئے خطرہ کے طور پر دیکھتی تھی۔ ۹۰ء کی دہائی سے بی جے پی کے ساتھ اتحاد ہونے کی وجہ سے شیوسینا کی سیاست ہندی سے ہندو بن گئی۔ ممبئی اور مہاراشٹر کی بدلتی آبادی نے شیوسینا کو ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں لچکدار موقف اپنانے کی ترغیب دی۔ اس کے ساتھ ہی راج ٹھاکرے کی پارٹی پرانی جارحیت کو جاری رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ کمزور ہوتی گئی مگراچانک ہندی کو نافذ کرنے کے فیصلہ نے راج ٹھاکرے کو سیاسی روٹی سینکنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ ‘‘
ماہرین کی کمیٹی تشکیل دینے کا کیا مطلب؟
مہاراشٹر ٹائمز(مراٹھی، یکم جولائی )
قومی زبان ہندی کی مخالفت یعنی وطن سے غداری کے بلند بانگ نعروں سے شروع ہوا سفر کئی موڑ لینے کے بعد بالآخر حکومت کے جی آر واپس لینے سے ختم ہوگیا۔ پچھلے دو مہینوں سے سرکار نے ہندی کے معاملے میں کئی یو ٹرن لیے، لفظوں کا کھیل کھیلا اور اس سلسلے میں قانونی دلائل بھی پیش کئے، مگر مراٹھیوں کی غیر سیاسی تنظیموں کی مخالفت، ٹھاکرے برادران کی حکمت عملی اور سب سے اہم بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر حکومت نے قانون ساز اسمبلی میں پہلے ہی دن اپنےتلوار میان میں رکھ لئے۔ وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس کو سہ لسانی فارمولہ یعنی ہندی کو لازمی کرنے سے متعلق جاری کئے گئے دونوں سرکاری حکم ناموں کو منسوخ کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ اب حکومت ماہرین کی کمیٹی تشکیل دے کر رپورٹ آنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے گی۔ ہندی کے نفاذ کو وقار کا مسئلہ بنانے کے بجائے مخالفت شروع ہوتے ہی اسے ماہرین کے سپرد کردیا جاتا تو حکومت کو یوں منہ کی کھانی نہیں پڑتی۔ اسے ہندی کی سختی سے متعلق مراٹھی لوگوں کے اتحاد کی فتح کہا جاسکتا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے ہندی کو لازمی کرنے کے فیصلے پر شروع سے ہی شکوک کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اگرچہ این ای پی میں تین زبانوں کے فارمولے میں پہلی جماعت سے ہندی کا لازمی کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا، لیکن آہستہ آہستہ ہندی کو نصاب میں متعارف کروایا گیا۔ ‘‘
یہ ہندی کو مسلط کرنے کی ایک چال ہے
لوک مت ٹائمز(یکم جولائی )
’’ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے تین زبانوں کی پالیسی سے متعلق جی آر کو منسوخ کرکے ہندی تنازع کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب منصوبہ بندی کمیشن کے سابق رکن ڈاکٹر نریندر جادھو کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو اس معاملے کا جائزہ لے گی اور مراٹھی طلبہ کے مفاد کو مرکز میں رکھتے ہوئے سہ لسانی فارمولہ پر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ حکومت کی جانب سے یہ اعلان ۵؍ جولائی کو ٹھاکرے برادران کی مشترکہ ریلی نکالنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے۔ مہاراشٹر اسمبلی اجلاس سے قبل حکومت کے اس اقدام کا مقصد۲۰؍ سال کے طویل وقفے کے بعد ایک عوامی سیاسی پلیٹ فارم پر ساتھ آنے والے ٹھاکرے برادران کی مشترکہ ریلی کو ناکام بنانا تھا۔ سہ لسانی فارمولہ کوئی نیا تصور نہیں ہے ماضی میں بھی اس پر اختلاف رہا ہے۔ جنوب کی ریاستوں نے ہندی مسلط کرنے کی ہمیشہ پر زور مخالفت کی ہے۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق صرف ۷؍ فیصد ہندوستانیوں نے ہی۳؍ زبانیں جاننے میں دلچسپی دکھائی تھی۔ نئی تعلیمی پالیسی نے ملک بھر کے اسکولوں میں تیسری زبان کو لازمی قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی اسے قومی یکجہتی اور اتحاد کے طور پر دیکھتی ہے۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ یہ ملک کے تمام لوگوں پر ہندی کو مسلط کرنے کی ایک چال ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK