• Tue, 28 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہارمیں تبدیلی کا فیصلہ عوام کو نہیں، سیاسی جماعتوں کو کرنا ہے

Updated: October 05, 2025, 2:28 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

ریلیوں اور چوپالوں سے ملنے والی رپورٹوں اور مختلف رجحانوں سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ بہار میں عوام نے تبدیلی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے کا اپوزیشن کی جماعتیں کتنا پاس رکھتی ہیں ؟ وہ عوام کی خواہشات کااحترام کرتے ہوئے متحد ہوکر اقتدار سے ٹکراتی ہیں یا پھر اَنا میں چور ہوکر خود اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارتی ہیں ؟

The opportunity is favorable for Rahul Gandhi and Tejashwi Yadav in Bihar, but the responsibility of converting this opportunity into results now lies on their shoulders. Photo: INN
بہار میں راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کیلئے موقع تو سازگار ہے لیکن اس موقع کو نتیجے میں تبدیل کرنے کی ذمہ اب انہیں کے کندھوں پر ہے۔ تصویر: آئی این این

کچھ دنوں قبل ایک چھوٹا سا ویڈیو دیکھاجس میں وزیر اعظم مودی چھوٹے چھوٹے بچوں سے ملاقات کررہے تھے۔ حسب معمول انداز ’بے تکلفانہ‘ تھا۔ انہوں نے بچوں سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے مجھے کہیں دیکھا ہے۔ ایک ساتھ کئی بچوں نے ہنستے کھلکھلاتے ہوئے ’ہاں ‘ میں جواب دیا۔ وزیراعظم نے پھر پوچھا کہ ’کہاں ‘؟ بچوں نے کہا، ٹی وی پر۔ وزیراعظم کا اگلا سوال تھا کہ میں کون ہوں ؟ بچے تو معصوم ہوتے ہیں، انہوں نے اسی معصومیت سے جواب دیا کہ ’’ووٹ چور‘‘۔ 
ویڈیو کی سچائی پر مجھے اعتبار نہیں ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہو لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ’ووٹ چوری‘ کے خلاف راہل گاندھی کی مہم کے بعد بی جے پی کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کی شبیہ متاثر ہوئی ہے اور اسی مناسبت سے کانگریس اور راہل گاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا واضح ثبوت جہاں حالیہ کچھ ہفتوں میں بہار میں ہونےوالی راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کی ریلیوں سے ملتا ہے، وہیں اس کی توثیق ’سی ووٹر ٹریکر‘ سے بھی ہوتی ہے۔ ’سی ووٹر ٹریکر‘ کی جانب سے وقفے وقفے سے رپورٹیں ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ اس کی تازہ رپورٹ کے مطابق راہل گاندھی کی ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ کے بعد وزیراعظم کی مقبولیت کا گراف ۵۷؍ فیصد سے کم ہوکر ۵۱؍ فیصد رہ گیا ہے جبکہ اس دوران راہل گاندھی کی مقبولیت کی شرح ۳۵؍ فیصد سے بڑھ کر۴۱؍ فیصد ہوگئی ہے۔ مطلب یہ کہ اب دونوں کے درمیان عوامی مقبولیت میں صرف ۱۰؍ فیصد کا فرق رہ گیا ہے۔ ’سی ووٹر‘ کی رپورٹوں میں یہ اب تک کا سب سے قریبی فرق ہے۔ اس ۱۰؍ فیصد کے فرق کی اہمیت یوں بھی کچھ نہیں ہے کہ عام طور پر جو عہدے پر ہوتا ہے، اس کی ’مقبولیت‘ دوسروں سے زیادہ ہی رہتی ہے۔ اس فرق نے بی جے پی کو حواس باختہ کردیا ہے۔ وہ یہ بات سمجھ رہی ہے کہ اس کے اثرات واضح طور پر بہار کے انتخابات میں نظر آسکتے ہیں۔ 
اب دیکھتے ہیں بہار کے اصل کھلاڑی یعنی نتیش کمار اور تیجسوی یادو کے تعلق سے عوامی رجحانات کیا ہیں ؟ ’سی ووٹر ٹریکر‘ کی ایک اور رپورٹ کے مطابق بہار میں نتیش کمار کی مقبولیت کا گراف نیچے گرتے ہوئے ۱۶؍ فیصد پر پہنچ گیا ہے جبکہ تیجسوی کی مقبولیت کی شرح ۳۵؍ فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ کسی ریاست کے انتخابی سروے میں وزیراعلیٰ کے مقابلے اپوزیشن لیڈر کی مقبولیت کا بڑھ جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ عوام نے تبدیلی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس ’ٹریکر‘ میں نتیش سے کہیں آگے پرشانت کشور پہنچ چکے ہیں جن کی مقبولیت کی شرح ۲۳؍ فیصد ہے جبکہ بی جے پی کے سمراٹ چودھری کی مقبولیت ۶؍ فیصد ہے۔ 
’سی ووٹر‘ کا یہ ’ٹریکر‘کسی لیڈر کی ذاتی مقبولیت کو اُجاگر کرتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ بہار کی سیاسی جماعتوں کا کیا حال ہے۔ ابھی حال ہی میں ’لوک پول‘ کاایک سروے ہوا تھا۔ اس سروے کے مطابق اگرآج کی تاریخ میں انتخابات ہوجائیں تو بہار کی ۲۴۳؍ نشستوں میں سے آر جے ڈی کی قیادت والے عظیم اتحاد کو ۱۲۶؍ سیٹیں مل سکتی ہیں جبکہ بی جے پی کی قیادت والی ’این ڈی اے‘ کو ۱۱۴؍ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑسکتا ہے۔ ووٹ شیئر کے تعلق سے ’لوک پول‘ کا سروے کہتا ہے کہ عظیم اتحاد کو ۳۹؍ سے ۴۲؍ فیصد تک ووٹ ملیں گے جبکہ این ڈی اے کے حق میں ۳۸؍ سے ۴۱؍ فیصد تک ووٹنگ ہوسکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک فیصد ووٹ کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔ ۲۰۲۰ء میں ہونےوالے بہار کے اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کو ۳۷ء۲۶؍ فیصد ووٹوں کی بدولت ۱۲۵؍سیٹیں ملی تھیں جبکہ عظیم اتحاد ۳۷ء۲۳؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ محض ۱۱۰؍ سیٹوں پر سمٹ گیا تھا۔ 
’سی ووٹر‘ اور ’لوک پول‘کی طرح دوسری سروے رپورٹوں میں بھی عظیم اتحاد کو این ڈی اے پر برتری دکھائی گئی ہے۔ اس کا مشاہدہ حالیہ دنوں میں بہار کے ساتھ ہی بہار سے باہر کے لوگوں نےبھی کیا ہے۔ راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کی ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ میں عوام کااژدہام انہیں صرف دیکھنے کیلئے نہیں آتا تھا بلکہ وہ انہیں بتانے آتا تھا کہ ’’ہم نے بہار میں تبدیلی کا فیصلہ کرلیا ہے، اب اس فیصلے کو نتیجے میں تبدیل کرنے کی ذمہ داری آپ کی ہے۔ ‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کے اس فیصلے کا اپوزیشن کی جماعتیں کتنا پاس رکھتی ہیں ؟ وہ عوام کی خواہشات کااحترام کرتے ہوئے متحد ہوکر اقتدار سے ٹکراتی ہیں یا پھر انا میں چور ہوکر خود اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارتی ہیں ؟
بہار کا عوامی رجحان بتاتا ہے کہ اس مرتبہ جے ڈی یو اور بی جے پی کو شکست دیناکچھ مشکل نہیں ہے لیکن اس کیلئے شرط یہ ہے کہ اپوزیشن کو متحد ہو کر سامنے آنا ہوگا۔ یہ ذمہ داری اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو نبھانی پڑے گی۔ سیٹوں کی تقسیم پرایک ایک سیٹ کیلئے لڑنا، ضرورت سے زیادہ سیٹوں کا مطالبہ کرنا، مطالبہ منظور نہ ہونے پر ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینا اور تنہا انتخابی میدان میں اُترنے کی دھمکی دینا، جیسی باتوں کو ترک کرنا ہوگا۔ 
بہار کے حوالے سے بات کریں تو سب سے بڑی ذمہ داری آر جے ڈی پر عائد ہوتی ہے، اسلئے بڑی قربانی بھی اسے ہی دینی ہوگی کیونکہ کامیابی کی صورت میں سب سے زیادہ فائدہ بھی اسی کے حصے میں آئے گا۔ اگر گزشتہ انتخابات میں عظیم اتحاد کے حصے میں مزید ۱۰؍ سیٹیں آگئی ہوتیں، خواہ وہ سیٹیں کانگریس کی ہوتیں، سی پی آئی، سی پی ایم یا سی پی آئی ایم ایل کی ہوتیں تو اب تک تیجسوی وزیراعلیٰ ہوتے۔ اس بار بھی یہی ہوگا۔ کانگریس بھلے ہی تیجسوی کو بطور وزیراعلیٰ چہرے کے طور پر پیش کرنے میں تذبذب کی شکار ہو، لیکن اس کے لیڈران بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کامیابی کی صورت میں تیجسوی ہی وزیراعلیٰ ہوں گے۔ انتخابی داؤ پیچ سے قطع نظر کانگریس کو بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ورنہ مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، ہریانہ اور مہاراشٹرکی طرح ایک اور صوبہ جو ہاتھ میں آتا ہوا نظر آرہا ہے، ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس کیلئے کانگریس کو اپنے مقامی لیڈران کو قابو میں رکھنا ہوگااور انہیں اشوک گہلوت، کمل ناتھ، بھوپیش بھگیل اور بھوپیندر سنگھ ہڈا کی مثال دے کر سمجھانا ہوگا کہ اگر ان لیڈروں نے لالچ کا دامن بہت زیادہ نہیں پھیلایا ہوتاتو ان کی ریاستوں میں آج کانگریس اقتدار میں ہوتی، جس کا فائدہ کسی نہ کسی صورت میں انہیں بھی ہوتا۔ قارئین کو یہ بات یاد ہوگی کہ انتخابی دنوں میں سماجوادی پارٹی سے اتحاد کی باتوں کے درمیان کمل ناتھ نے نخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کون اکھلیش؟‘ اسی طرح اشوک گہلوت نے سچن پائلٹ کیلئے وزارت اعلیٰ کا عہدہ چھوڑنے اور اپنے لئے کانگریس کے قومی صدر بننے کی پیشکش پر کہا تھا کہ ’’میں توکرسی چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن کرسی مجھے نہیں چھوڑ رہی ہے۔ ‘‘ 
مجموعی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ عظیم اتحاد میں شامل تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو زیادہ سیٹوں پر لڑنے کی ضد کے بجائے تھوڑی قربانی دے کر کم سیٹوں پر بھی لڑ کر اقتدار میں آنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہیں تویقین جانئے! پولرائزیشن کی کوشش، ریوڑیوں کی تقسیم اور ووٹ چوری جیسے حربے بھی انہیں اقتدار تک پہنچنے سے روک نہیں سکیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK