Inquilab Logo

لوک سبھا میں تحریکِ عدم اعتماد ناکام لیکن اپوزیشن اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب

Updated: August 13, 2023, 11:54 AM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

اس کامیابی کے باوجود حزب اختلاف اس پلیٹ فارم کا استعمال مزید بہتر انداز میں کرسکتا تھا۔ حکومت کے دعوؤں کی پول کھولنے اور ملک کے سامنے اسے بے نقاب کرنے کا اس کے پاس بہترین موقع تھا لیکن وہ اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکا۔

Rahul Gandhi expressing his views during the no-confidence motion against the government. Photo :INN
حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے راہل گاندھی۔ تصویر:آئی این این

مودی حکومت کے خلا ف عدم اعتماد کی تحریک سے حزب اختلاف یا پھرحزب اقتدار کو کیا ملا؟ اور کتنا ملا؟اس کا جواب ’دو اور دو چار‘ کی طرح آسان نہیں ہے۔ اسے جاننے، سمجھنے اور کسی نتیجے پرپہنچنے کیلئے ایک چھوٹی سی مثال کو ہم پیمانہ بناتے ہیں ۔
 ایک محلے میں ۲؍ بچوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔ دونوں لڑتے، جھگڑتے اور روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس پہنچے اور ایک دوسرے کی شکایت کی۔ اتفاق کی بات تھی کہ دونوں کی والدہ ایک ساتھ ہی تھیں اوران کے ساتھ محلے کی ایک اور خاتون بھی تھیں ۔ان دونوں میں سےغلطی کسی کی بھی رہی ہو،جھگڑے کی پہل کسی نے بھی کی ہو لیکن اُن ماؤں کو اپنے بچوں کی غلطی نظر نہیں آئے گی۔ ایسے میں دونوں بچوں کی نظر وہاں موجود تیسری خاتون کی طرف جائے گی، اسلئے وہ اسے متاثر کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ فیصلہ ان کے حق میں ہو۔
 لوک سبھا میں عدم اعتماد کی تحریک کو بھی کچھ اسی طرح دیکھا جاسکتا ہےجہاں دونوں بچے (حزب اقتدار اور حزب اختلاف) تیسری خاتون (غیر جانب دار عوام) کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آئے تاکہ فیصلہ ان کے حق میں ہو۔ دراصل یہی غیر جانب دارعوام/ ووٹر جن کی تعداد ۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد کے درمیان بتائی جاتی ہے، ہر الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں ۔ موجودہ صورتحال میں ملک کے ۸۰؍ فیصد سے زائد رائے دہندگان آنکھ بند کرکے کسی ایک کی حمایت کرتے ہیں ، وہ اچھا اور برا نہیں دیکھتے۔ ان کا رویہ اُن ماؤں کی طرح ہوتا ہے جنہیں اپنے بچے کی غلطی نظر نہیں آتی۔ اگر وہ بی جےپی کے حامی ہیں تو ان کی نظر میں بی جے پی کے سات خون معاف ہوتے ہیں ، اسلئے وہ اسی کے امیدوار کو ووٹ دیں گے، خواہ وہ کیسا بھی ہو؟ اسی طرح اگر وہ کانگریس یا کسی اور جماعت کے حامی ہیں تو ان کا بھی وہی رویہ ہوتا ہے۔ 
  یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ کانگریس کی تاریخ میں اس کیلئے ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کا الیکشن بہت خراب تھا۔ اس الیکشن میں اسے بالترتیب ۱۹ء۳۱؍فیصد اور ۱۹ء۴۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس کے پکے ووٹر ہیں جو کسی بھی صورت میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔اسی طرح ۲۰۰۹ء میں بی جے پی کو ۱۸ء۸؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔اُس دورکو بی جے پی کیلئے برا دور قرار دیا جاسکتا ہے۔مطلب یہ کہ وہ اس کے وفادار حامی ہیں جو ہر صورت میں اس کے ہی ساتھ رہیں گے، خواہ مہنگائی اور بے روزگاری آسمان ہی کیوں نہ چھونے لگے۔ مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد ملک کا ماحول قدرے تبدیل ہوا ہے، جس کی وجہ سے بی جے پی حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ اضافہ اتنا بھی نہیں ہے کہ۲۰۱۴ء یا ۲۰۱۹ء میں اسے جو ووٹ ملے تھے،ان تمام کو اس کا حامی تسلیم کر لیا جائے۔ ۲۰۱۴ء میں بی جے پی کو ۳۱؍ فیصد اور ۲۰۱۹ء میں ۳۷ء۳۰؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ ان میں ۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد وہ غیرجانب دار ووٹرس شامل ہیں جو ہر الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں ۔
  حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی اس تحریک کا نتیجہ واضح ہونے کے باوجود اگر اپوزیشن نے لوک سبھا میں یہ تحریک پیش کی تھی، تو اس کا مقصد وہی تھا۔ وہ ۱۰؍ سے۲۰؍ فیصد پر مشتمل اُن غیرجانب دار ووٹروں کے سامنے یہ حقیقت لانا چاہتے تھے کہ ملک کی سالمیت کیلئے بی جے پی کس حد تک نقصاندہ ہے؟ وہ ان کے سامنے حکومت کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے اور بتانا چاہتے تھے کہ ترقی کا دعویٰ صرف نعروں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، سچائی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو اپوزیشن کے لیڈران اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔ وہ عوام (وہی۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد عوام) کو یہ بتانے میں کامیاب رہے کہ تین ماہ سے زائد عرصے سے فساد کی آگ میں جھلس رہے منی پور کے تعلق سے مودی حکومت غیر سنجیدہ ہے اور وزیراعظم مودی اس کے تئیں بے حس ہیں ۔
 لیکن اپوزیشن اگرچاہتی تو اس پلیٹ فارم کو مزید بہتر انداز میں استعمال کرسکتی تھی۔ کانگریس لیڈر گورو گوگوئی اور راہل گاندھی نے یقیناً بہت اچھی تقریریں کیں لیکن انہوں نے صرف اپنی باتیں کیں ۔ کیا ہی مناسب ہوتا اگر یہ لوگ حکمراں محاذ کی جانب سے کی جانے والی تقریروں کا پوسٹ مارٹم وہیں ایوان میں کرتے ا ورحکومت کو آئینہ دکھاتے۔ منی پور کے تعلق سے وزیراعظم مودی کی بے حسی کے اظہار کیلئے اپوزیشن کا واک آؤٹ کرنا مناسب تھا لیکن اگر وہ کچھ دیر بعد واپس آجاتے اور وزیراعظم کی تقریر کے بعد وہیں ایوان میں اسے مسترد کرنے کی کوشش کرتے تو شاید زیادہ موثر ہوتا۔
  ویسے یہ بات بھی سچ ہے کہ اس کی وجہ سے ملک کے غیرجانب دار عوام اور رائے دہندگان تک حزب اختلاف اور حزب اقتدار کا وہ پیغام پہنچ ہی گیا ہے جو وہ پہنچانا چاہتے تھے۔ اب فیصلہ عوام کی عدالت میں ہوگا۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK