۱۲؍ دنوں کی جنگ کے بعد امریکہ اور اسرائیل لاکھ دعوے کریں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے لیکن سچائی یہ ہے کہ ایران نے اپنے عزم اور حوصلے سے دنیا کے طاقتور ملکوں کو دھول چٹادی ہے۔
EPAPER
Updated: June 29, 2025, 12:56 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
۱۲؍ دنوں کی جنگ کے بعد امریکہ اور اسرائیل لاکھ دعوے کریں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے لیکن سچائی یہ ہے کہ ایران نے اپنے عزم اور حوصلے سے دنیا کے طاقتور ملکوں کو دھول چٹادی ہے۔
۱۲؍ دنوں کی جنگ کے بعد امریکہ اور اسرائیل لاکھ دعوے کریں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے لیکن سچائی یہ ہے کہ ایران نے اپنے عزم اور حوصلے سے دنیا کے طاقتور ملکوں کو دھول چٹادی ہے۔ ایران مشرقی وسطیٰ میں ایک طاقتور ملک بن کر ابھرا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کے مختلف ٹھکانوں پر بم برسانے کے بعد ایران کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کیلئے کہا تھا لیکن ایران نے اس دھمکی کو خاطر میں نہ لا کر بتا دیا کہ وہ باطل کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرے گا۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل اور امریکہ دونوں کمزور اور بے بس نظر آئے۔ ایران نے اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو جنگ بندی پر مجبور کیا۔ غیر اردو اخبارات نے بھی اسرائیل اور امریکہ کی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے ایران کے ہمت اور حوصلے کی تعریف کی ہے۔
یاہو کو اقتدار میں رہنے کیلئے دشمن کی ضرورت ہے
لوک ستہ( مراٹھی:۲۵؍جون)
’’ایران کی جانب سے امریکی فوجی اڈے کو براہ راست نشانہ بنانے کی جسارت کرنے کے ۱۲؍ گھنٹوں کے اندر ہی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو جنگ بندی کا اعلان کرنا پڑا۔ یہ ایران کیلئے بہت فخر کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ، ایران کے سامنے جھک گیا۔ لیکن امریکی فوجی اڈے پر ایرانی حملے نے ٹرمپ کو اس حقیقت سے آگاہ ضرور کردیا کہ اس کے پاگل پن کا جواب دینے والا کوئی تو موجود ہے۔ جنگ چاہے قومی ہو یا ذاتی۔ جس ملک کے پاس سب کچھ کھونے کا جذبہ ہو وہ اپنی پوری طاقت جھونک دیتا ہے۔ اسرائیل۔ ایران جنگ میں ٹرمپ نے اسرائیل کا ساتھ دیتے ہوئے ایران پر حملہ کیا۔ ٹرمپ اپنی حماقت کو ثابت کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے۔ ایران نے قطر میں امریکی فوجی اڈوں پر بمباری کر کے امریکہ کی چولیں ہلا دیں۔ مزید نقصان سے بچنے کیلئے امریکہ نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔ ٹرمپ کے اس اعلان کے باوجود ایران نے اسرائیل پر بمباری کی۔ اس جنگ کی وجہ سے اسرائیل کو شکست خوردگی کا احساس پیدا ہوا ہوگا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سیاسی چیلنجوں اور بدعنوانی کے مقدمات سے بچنے کیلئے جنگ کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس دوسرا کوئی چارا بھی نہیں ہے۔ انہیں اقتدار میں رہنے کیلئے دشمن کی ضرورت ہے، لیکن ایران نے جس طرح کا اسرائیل کو جواب دیا ہے اس نے نیتن یاہو کو امریکہ سے مدد مانگنے پر مجبور کردیا ہے۔ ‘‘
اسرائیل کی حرکتیں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں
جن ستہ(ہندی، ۲۵؍جون)
’’اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی یقیناً ایک اچھی خبر ہے۔ جنگ کو کسی بھی شکل میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ان کےسمجھانے کی وجہ سےدونوں ممالک جنگ کا راستہ ترک کیلئے راضی ہوگئے۔ حالانکہ امریکہ شروع سے یہی کہہ رہا ہے کہ اس جنگ کو روکا جائے، لیکن اس کا موقف یک طرفہ تھا۔ وہ واضح طور پر اسرائیل کے ساتھ کھڑا نظر آرہا تھا۔ اسرائیل کیلئے اس کی حمایت پچھلے اتوار کو مکمل طور پر واضح ہوگئی جب اس نے ایران کے تین جوہری مقامات پر بم برسائے۔ اس وقت یہ خیال کیا جارہا تھا کہ یہ جنگ طویل عرصہ تک جاری رہے گی لیکن اچانک جنگ بندی کی خبر نے پوری دنیا کو خوشگوار حیرت سے ڈال دیا۔ اگرچہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ اسرائیل اب تھک چکا ہےاور ایران کے حملوں کو روکنے میں ناکام ہورہا ہے۔ اسلئے وہ قدم پیچھے کھینچنا چاہتا ہے۔ پھر امریکہ کو بھی لگ رہا تھا کہ اگر وہ عراق کی طرح ایران میں بھی پھنس گیا تو مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ برسوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ جنگی اصولوں اور قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ اسرائیل جس طرح سے فلسطین پر بمباری کررہا ہےاور بچوں ، زخمیوں اور عورتوں کی پروا کئے بغیر بم برسا رہا ہے، وہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ ‘‘
مشرق وسطیٰ میں صورتحال بدستور غیر مستحکم ہے
دی فری پریس جنرل( انگریزی، ۲۵؍جون)
’’امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کی بدولت ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ تھم گئی، لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ خطے میں امن لوٹ آیا ہے۔ صورتحال بدستور غیر مستحکم بنی ہوئی ہے۔ اسرائیل نے ایران پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔ جس کی تہران نے سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔ اسرائیل، ایران اور امریکہ کی جانب سے مشرقی وسطیٰ میں تنازع کو ختم کرنا ایک اچھی پہل ہے۔ اس جنگ میں پورے خطے کو اپنی زد میں لینے کی پوری صلاحیت تھی تاہم امریکہ نے اس تنازع کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حالانکہ ایران نے بھی غیر متوقع طور پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ بندی پر رضا مندی ظاہر کی۔ ٹرمپ نے ایران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے’انسان دوست قدم‘ بتایا۔ ایران نے دوسرے عرب ممالک کو نشانہ بنانے سے گریز کیا جو امریکی فوجیوں کی جائے پناہ تھے۔ ایران نے اسرائیل کو جارحانہ رخ اپنانے سے روکنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اسرائیل دعویٰ کررہا ہے کہ اس نے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے ایران کے سینئر سائنس دانوں اور فوجی افسروں کو ہلاک کردیا ہے اور مستقبل قریب میں ایران کے جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت کو کمزور کردیا ہے، لیکن یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ ایران نے بھی اپنے نقصانات اور حماس اور حزب اللہ جیسے علاقائی اتحادیوں کی مدد کے بغیر جوابی کارروائی کی۔ ‘‘
اسرائیل پر ایران بھاری پڑ گیا
سکال(مراٹھی، ۲۶؍جون)
’’مشرقی وسطیٰ سمیت دنیا بھر کی سانسیں روکنے والی ۱۲؍ روزہ جنگ نے نہ صرف ایران۔ اسرائیل بلکہ امریکہ کو بھی زبردست جھٹکا دیا ہے۔ اس تنازع کا بے قابو ہونا کسی کے بھی حق میں نہیں تھا، لیکن بڑے پیمانے پر تباہی اور قتل و غارت گری کے بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو امن کی سوجھی۔ ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کرکے اسرائیل اور ایران کو مزید خون خرابے سے بچا لیا۔ لیکن سب کچھ ہونے کے بعد یہ جنگ بندی کتنی پائیدار ہوگی اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ایران جس نے اسرائیلی فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عہدیداروں کے قتل اور جان ومال کے لحاظ سے کافی نقصان اٹھایا ہے۔ اس سے باہر نکلنے میں ایران کو کافی وقت لگے گا۔ اسرائیل کا بھی یہی حال ہے۔ اسرائیلی فوج غزہ پٹی میں حماس اور حزب اللہ کے خلاف لڑائی میں مصروف ہے۔ گزشتہ ۶۲۸؍ دنوں سےجنگ لڑنے کے باوجود اسرائیل غزہ کو فتح کرنے میں ناکام ہے۔ کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی غزہ کے محاذ پر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام اسرائیل نے۲؍ ہزار کلومیٹر دور ایران جیسے مسلح ملک پر فضائی حملے شروع کرکے بڑی غلطی کی کیونکہ اس جنگ میں ایران اس کو بھاری پڑ گیا۔ ‘‘