کرنل صوفیہ قریشی کے حوالے سے مدھیہ پردیش کے ایک بے لگام وزیر وجے شاہ نےانتہائی شرمناک تبصرہ کیا، جس سے پورے ملک میں غصہ کا ماحول ہے۔
EPAPER
Updated: May 18, 2025, 1:03 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
کرنل صوفیہ قریشی کے حوالے سے مدھیہ پردیش کے ایک بے لگام وزیر وجے شاہ نےانتہائی شرمناک تبصرہ کیا، جس سے پورے ملک میں غصہ کا ماحول ہے۔
پہلگام حملے کے جواب میں ہندوستان کی فوجی کارروائیوں کے دوران ملک میں غیر معمولی اتحاد و اتفاق دیکھنے کو ملا۔ بلا تفریق عقائد و نظریات عوام نےقومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ بالخصوص ملک کا نام اور وقار اونچا کرنے والی کرنل صوفیہ قریشی کو زبردست پذیرائی ملی اور ان کی بہادری کو لوگوں نے دل سے سلام کیا۔ لیکن اسی دوران کرنل صوفیہ قریشی کے حوالے سے مدھیہ پردیش کے ایک بے لگام وزیر وجے شاہ نےانتہائی شرمناک تبصرہ کیا، جس سے پورے ملک میں غصہ کا ماحول ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کرنل صوفیہ قریشی سےمتعلق دیئے گئے گھٹیا تبصرے پر غیر اردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے۔
مودی اور موہن یادو سرکار کی خاموشی افسوس ناک
مراٹھی اخبار’سامنا‘ نے ۱۶؍ مئی کے اپنے اداریہ میں لکھا کہ’’ پاکستان کے خلاف ہندوستانی فوج کی بہادری کا سیاسی فائدہ اٹھانے والی بی جے پی کا مکروہ چہرہ چار دن میں دو بار سامنے آیا۔ پہلے بی جے نے’ترنگا یاترا‘ نکال کر اسے سیاسی رنگ دیا۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش کے وزیر وجے شاہ نے’آپریشن سیندور‘ کی معلومات دینے والی کرنل صوفیہ قریشی کے بارے میں انتہائی گھٹیا زبان استعمال کی۔ کرنل قریشی نے `آپریشن سیندور ` کے ذریعے پورے ملک کا نام روشن کیا۔ ان کے تعلق سے ہم وطنوں کے دلوں میں احترام کا جذبہ پیدا ہوا، لیکن ایم پی کے وزیر وجے شاہ نے ایک تقریب میں کرنل صوفیہ قریشی کا ذکر’دہشت گردوں کی بہن‘ سے کرکے اپنے ذہنی دیوالیہ پن کاثبوت پیش کیا۔ جب شاہ کے خلاف ہنگامہ برپا ہوا تو انہوں نے ہمیشہ کی طرح معافی تلافی کا ڈرامہ رچایا وہ بھی ایسا کہ’ گرے بھی تو ٹانگ اوپر‘۔ انہوں نے کہا کہ’اگر میں نے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہو تو میں دس بار معافی مانگنے کو تیار ہوں ‘۔ اس وزیر نے جو گندگی کی تھی اسے ہی صاف کرنے کا ڈراما کیا۔ یعنی انہوں نے براہ راست معافی نہیں مانگی کیونکہ غلطی تسلیم کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اچھا ہوا کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس ذلیل شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے بھی سخت الفاظ میں کہا کہ ’آئینی عہدے پر فائر شخص کو ذمہ داری کے ساتھ بولنا اور کام کرنا چاہئے، آپ کس قسم کے بیانات دے رہے ہیں۔ ‘ افسوس کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی مدھیہ پردیش سرکار اور مودی سرکار نے وجے شاہ سے متعلق خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ ‘‘
بے لگام اور تضحیک آمیز تبصرہ ناقابل معافی ہے
ہندی اخبار’لوک مت سماچار‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’مدھیہ پردیش میں وزیر کے عہدے کے وقار کو ملیامیٹ کرنے والے وجے شاہ کو سیاست میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے کرنل صوفیہ قریشی سے متعلق جس قسم کے بے لگام اور تضحیک آمیز تبصرہ ناقابل معافی ہے۔ جس دن انہوں نے یہ تبصرہ کیا تھا، اسی دن نہ صرف وزیر کے عہدے سے برخاست کردینا چاہئے تھا بلکہ بی جے پی کو بھی انہیں پارٹی سے نکال دینا چاہئے تھا۔ اس قسم کی بات کسی فوجی افسر کے خلاف تو کیا کسی عام فوجی سپاہی کے خلاف بھی نہیں کی جانی چاہئے۔ ہماری فوج کے کسی بھی جوان کو مذہبی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ ایسے میں وجے شاہ کا تبصرہ ان کی ذہنی غلاظت کی علامت ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کیخلاف رپورٹ بھی اس وقت درج کی گئی جب مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دی۔ وجے شاہ نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن وہاں بھی انہیں وہی جواب ملا جو انہیں ملنا چاہئے تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ آئینی عہدے پر فائز شخص کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ بولتے وقت کیا کہہ رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وجے شاہ جو کہہ رہے ہیں اس پر دھیان بھی نہیں دیتے۔ قبائلی برادری سے تعلق رکھنے والے شاہ۸؍ مرتبہ وزیر رہ چکے ہیں۔ اوما بھارتی سے لے کر شیوراج سنگھ چوہان اور اب موہن یادو کی کابینہ میں بھی وہ وزیر رہ چکے ہیں۔ ‘‘
وجے شاہ نے بس اپنے سینئر لیڈران کی پیروی کی ہے
مراٹھی اخبار’لوک ستہ‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’ہندوتواکی تجربہ گاہ سمجھے جانے والے مدھیہ پردیش میں قبائلی بہبود کے وزیر کے روپ میں ایک نئےچرب زبان لیڈر کا’اوتار‘ ہوا ہے۔ مرکز میں ۱۰؍ سال سے زیادہ حکومت کرنے کے بعد بھی بی جے پی کے کسی لیڈر میں پختگی اور دانشمندی آئی ہوگی، ایسا خیال کرنا بھی بے وقوفی ہے۔ مدھیہ پردیش کا یہ فضول گو لیڈر وجے شاہ ہے۔ دراصل وجے شاہ نےکچھ غلط نہیں کہا۔ انہوں نے بس اپنے سینئر لیڈران کی پیروی کی ہے۔ مسلمانوں اور خواتین کے تعلق سے جو منہ میں آیا وہ بکنے کی بہت ساری مثالیں بی جے پی میں موجود ہیں۔ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے دوران’ `دیدی او دیدی‘ ` کہہ کر تضحیک آمیز ریمارکس کس نے پاس کیا تھا، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ دوران انتخابات ’بٹیں گے، تو کٹیں گے‘ کا نعرہ لگانے والے کون تھے؟ یہ سب کو معلوم ہے۔ کپڑوں سے پہچاننے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ مسلمانوں کے تعلق سے کچھ بھی بولا جائے، کچھ نہیں بگڑے گا، یہ سوچ بی جے پی کے بڑے لیڈروں نےبنائی ہے۔ وجے شاہ تو صرف اس پر عمل کررہے تھے۔ تو وہ کیسے گناہ گار ہوئے؟کسی بھی معاشرے میں ایک قبیلہ ایسا ہوتا ہے جو بادشاہ سے زیادہ بادشاہ کا وفادار ہوتا ہے۔
اس کے ذہن میں یہ سوال ہمیشہ گردش کرتا ہے کہ ہم بادشاہ سے کم تو نہیں پڑ رہے ہیں۔ اسلئے جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی وفا داری ثابت کرتا ہے۔ وجے شاہ نے کچھ الگ نہیں کیا۔ ڈیفنس فورس کے ایک افسر اور ایک خاتون کے بارے میں وجے شاہ کی بے ہودگی عدالت کو قطعی اچھی نہیں لگی۔ وجے شاہ کی جارحانہ سوچ ایک طرف خواتین کی تذلیل کرتی ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کے تئیں حد درجہ نفرت کا اظہار بھی کرتی ہے۔ ‘‘
یہ تبصرہ محض زبان کا پھسلنا نہیں ہے
انگریزی اخبار ’دی فری پریس جنرل‘ نے لکھا ہے کہ’’ وجے شاہ نے عہدے پر رہنے کا آئینی اور اخلاقی حق کو کھو دیا ہے۔ فوج کی ایک اعلیٰ افسر کرنل صوفیہ قریشی کو دہشت گردوں کی بہن کہنے کا تضحیک آمیز تبصرہ محض زبان کا پھسلنا نہیں ہے بلکہ یہ ایک خاتون افسر سے متعلق گھٹیا قسم کی توہین ہےجس کی پُر زور مذمت کی جانی چاہئے۔ کرنل صوفیہ قریشی اور فضائیہ کی افسر یومیکا سنگھ کو’آپریشن سیندور‘کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس کارروائی کو’آپریشن سیندور‘ جو شادی شدہ خواتین کی علامت سمجھا جاتا ہے، سے منسوب کیا گیا تھا۔ پہلگام حملے میں صرف خواتین بچ پائی تھیں۔ حملہ آوروں نے مذہب کی تصدیق کرنے کے بعد مردوں کو نشانہ بنایاتھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں ایک کشمیری مسلمان اور ایک عیسائی سیاح بھی مارا گیا تھا۔ اس تناظر میں کرنل قریشی اور یومیکا سنگھ عوامی چہرے بن گئے۔ ان کی وضاحت اور شائستگی نے عوام کو ہماری مسلح افواج کی کارروائی کو سمجھنے میں مدد کی۔ ایسے میں وجے شاہ کا کرنل قریشی سے متعلق گھٹیا تبصرہ کرنا، کافی تکلیف دہ ہے۔ عدالت نے وجے شاہ کی بد گوئی کو’گٹر کی زبان‘ کہا ہے۔ ہائی کورٹ کی ایما پر اُن کے خلاف معاملہ درج کیا گیا لیکن کافی نرمی برتی گئی جس پر ہائی کورٹ نے پولیس کی بھی کافی سرزنش کی ہے۔ ‘‘