Inquilab Logo

خطبہ ٔحجۃ الوداع کے مخاطب صرف مسلمان نہیں بلکہ تاقیامت پوری انسانیت ہے

Updated: March 29, 2024, 3:01 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں رسول ؐپاک کے حجۃ الوداع کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں آپؐ کے خطبۂ حجۃ الوداع کی خصوصیات، مزدلفہ میں آپؐ کی شب گزاری اور جمرۂ عقبہ پر تشریف آوری کی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔

Spending the night under the open sky in Muzdalifah and collecting pebbles from there is an important part of Hajj. Photo: INN
مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے شب گزارنا اور یہیں سے کنکریاں چننا، حج کا اہم رکن ہے۔ تصویر : آئی این این

تکمیل دین کی خوش خبری
(گزشتہ سے پیوستہ) یہ آیت کریمہ (المائدۃ: ۳) نازل ہوئی اور یہود کو پتہ چلا تو وہ رشک کرنے لگے۔ روایات میں ہے کہ ایک یہودی نے حضرت عمر بن الخطابؓ سے کہا کہ تمہاری کتاب کی ایک آیت اگر ہم یہودیوں کی کتاب میں نازل ہوجاتی تو ہم اس دن کو عید کا دن بنالیتے، حضرت عمرؓ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے، یہودی نے یہ آیت پڑھی اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں اس دن سے واقف ہوں جس دن یہ آیت نازل ہوئی اور وہ جگہ بھی جانتا ہوں جہاں یہ آیت نازل ہوئی، وہ جمعہ اور عرفہ کا دن تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں تشریف فرماتھے۔ (صحیح البخاری: ۱/۱۸، رقم الحدیث: ۴۵، صحیح مسلم: ۴/۲۳۱۳، رقم الحدیث: ۳۰۱۷)
حضرت عمر فاروقؓ کے اس جواب کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مفتی شفیع عثمانی ؒ تحریر فرماتے ہیں : ’’فاروق اعظم کے اس جواب میں ایک اسلامی اصول کی طرف بھی اشارہ ہے جو تمام دنیا کے اقوام ومذاہب میں صرف اسلام ہی کا طرۂ امتیاز ہے۔ وہ یہ کہ دنیا میں ہر قوم اور ہر مذہب وملت کے لوگ اپنے اپنے حالات وخصوصیات کے ماتحت اپنے خاص خاص تاریخی واقعات کے دنوں کی یادگاریں مناتے ہیں، اور ان ایام کو اُن کے یہاں ایک عید یا تہوار کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، کہیں قوم کے بڑے آدمی کی پیدائش یا موت کا یا تخت نشینی کا دن منایا جاتا ہے اور کہیں کسی خاص ملک یا شہر کی فتح یا اور کسی عظیم تاریخی واقعہ کا جس کا حاصل اشخصِ خاص کی عزت افزائی کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام اشخاص پرستی کا قائل نہیں ہے، اس نے اِن تمام رسومِ جاہلیت اور شخصی یادگاروں کو چھوڑ کر اصول اور مقاصد کی یادگاریں قائم کرنے کا اصول بنادیا۔ ‘‘ (معارف القرآن: ۳/۳۳-۳۴)

یہ بھی پڑھئے: نبی کریم ﷺ کی منیٰ کیلئے روانگی، خطبہ ٔحجۃ الوداع اور تکمیل دین کی خوشخبری

خطبۂ حجۃ الوداع کی خصوصیات
جس طرح تکمیل دین کی آیت کانزول ایک عظیم الشان واقعہ ہے، اسی طرح خطبۂ حجۃ الوداع بھی اس دن کا ایک عظیم اور یادگار خطبہ ہے جو قیامت کے دن تک انسانیت کے نبویؐ منشور کی حیثیت سے تاریخ انسانیت کی پیشانی پر جگمگاتا رہے گا۔ 
اس خطبے میں رسولؐ اکرم نے دنیائے انسانیت کو زندگی گزارنے کے بہترین اصول مرحمت فرمائے ہیں، اس سے پہلے دنیا ان اصول سے قطعاً ناآشنا تھی۔ جس معاشرے میں لوگ زندگی گزار رہے تھے وہ کسی اصول اور ضابطے کا پابند نہ تھا۔ لوگ طاقت کی زبان سمجھتے تھے اور ہر طاقتور ان کا خدا تھا۔ اس خطبے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں رسولؐ اکرم نے صرف مسلمانوں ہی کو مخاطب نہیں فرمایا بلکہ پوری انسانیت کو مخاطب کیا اور فرمایا: اے لوگو! پھر فرمایا: سن لو، تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے یعنی آدم، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، اگر کوئی برتری یا فضیلت ہے تو وہ تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ عالمگیر مساوات کا یہ اصول اسی خطبے میں دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی آپؐ نے کچھ اصول دنیائے انسانیت اور بہ طور خاص مسلمانوں کو مرحمت فرمائے ہیں، جن کا خلاصہ اس طرح کیا جاسکتا ہے: 
پہلا اصول: PeacefulCo-Existance کا ہے یعنی بقائے باہمی یا جیو اور جینے دو۔ یہی وہ بنیادی اور اساسی حق ہے جس کیلئےآج تیسری دنیا جدوجہد کر رہی ہے اور عالمی طاقتیں اسے یہ حق دینے پر تیار نہیں ہیں۔ 
دوسرا اصول: آپ نے انتقام کے سلسلے کو ختم کرنے کا اعلان کیا جو افراد اور قوموں کی زندگی میں سب سے بڑی فساد کی جڑ ہے۔ آج کی اصطلاح میں یہ جذبۂ انتقام، توازنِ طاقت Balance Of Powerکے خوبصورت نام کی آڑ میں پرورش پاتا ہے۔ اور اسے ’’نزع سلاح‘‘ یعنی Disarmamentکی تحریک سے دبانے کی ساری کوششیں ناکام ہورہی ہیں۔ 
تیسرا اصول: آپ نے عورتوں کے حقوق کی تاکید فرمائی، آج کی دنیا میں Women`s Libertyکی تحریک کا خلاصہ بھی یہی ہے، مگر اس نے عورتوں کے فرائض پر دھیان نہیں دیا، اسی لئے مغرب کی میکانکی زندگی میں ازدواجی رشتے اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔ آخطبہ حجۃ الوداع کے دوران رسولؐ پاک نے مرد اور عورت دونوں کے حقوق کی وضاحت کردی ہے اور بتا دیا ہے کہ عورت سے عفت و عصمت اور وفاداری کا مطالبہ کرنا مرد کا حق ہے۔ 
چوتھا اُصول: اس خطبہ میں تصور آخرت کو یاد دلایا، جو اسلامی عقیدہ کی اساس ہے، اگر کوئی فرد یا معاشرہ خود کو Accountability سے آزاد سمجھنے لگے تو ظاہر ہے کہ اس سے ظلم وشر کے سواء کچھ سرزد نہیں ہوگا اور اسے کسی چیز کی دہائی نہیں دی جاسکتی، دورِ حاضر کی اصطلاح میں اسی کو Authoritarianism اور Chauvinism کہا جاتا ہے۔ ایک خدا ترس سوسائٹی میں ظلم وجبر کے پنپنے کیلئے مشکل ہی سے سازگار ماحول مل سکتا ہے۔ 
پانچواں اصول: آپؐ نے اتفاق واتحاد کی تلقین فرمائی کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن نہ مارنے لگنا۔ 
چھٹا اصول: اس میں فرسودہ روایات کی بیخ کنی کرکے ایک صحت مند سماجی انقلاب کی دعوت دی گئی ہے اور صاف اعلان فرمایا کہ جاہلی رسمیں سند نہ سمجھی جائیں۔ 
ساتواں اصول: سود کی مخالفت کرکے آپؐ نے اقتصادی زندگی سے استحصال کا خاتمہ کردیا۔ 
آٹھواں اصول: تمام مسلمانوں کو کتاب اللہ کی طرف بلایا، جو اسلامی معاشرہ کا بنیادی دستور ہے، ختم نبوت کا عقیدہ بھی واضح کردیا، گویا اس دستور میں ترمیم کی گنجائش نہیں ہے، یہ حتمی اور فائنل منشور ہے۔ 
نواں اصول: ارکان اسلام ادا کرنے کی تاکید فرمادی۔ 
دسواں اصول: حاکمانِ وقت کی اطاعت کی تلقین سے یہ مراد ہے کہ لااینڈآرڈر کے مسائل اور سیاسی خلفشار پیدا نہ ہو، اولوالامر کا انتخاب چونکہ جمہوری طریقہ پر ہوتا تھا، اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر اس کی حکومت کو بدنظمی اور انتشار کا شکار نہ بنایا جائے۔ 
آخر میں یہ بھی فرمادیا کہ اس Charter Of Human Rights کو دنیا کے کونے کونے میں عام اور شائع کردیا جائے تاکہ ساری انسانیت اپنے حقوق پہچان لے اور ان کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہو اور اس کے حصول کے بعد اس کا تحفظ کرے۔ اس کے بعد قرآن کریم کی وہ آیت نازل ہوئی: ’’آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتوں کو تمہارے لئے تمام کردیا۔ ‘‘
 (ماہ نامہ نقوش لاہور، رسول نمبر: ۴/۷۴۲، ۷۴۳) 
مزدلفہ میں شب گزاری
وقوف عرفہ کے بعد سرور کائنات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامتوں سے پڑھی جاتی ہیں، اس سفر میں آپؐ نے اپنی اونٹنی کی لگام اس طرح اپنی طرف کھینچ رکھی تھی کہ اس کا سر کجاوے سے لگ رہا تھا، لوگ تیز رفتاری کا مظاہرہ کررہے تھے اور جلد از جلد مزدلفہ پہنچنا چاہتے تھے۔ آپؐ اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کرکے فرمارہے تھے: لوگو پُرسکون رہو، سکون و اطمینان سے چلو۔ مزدلفہ پہنچ کر آپؐ نے مغرب اور عشاء کی نماز یں ایک ساتھ پڑھیں۔ دونوں کے درمیان کوئی تسبیح وغیرہ نہیں پڑھی۔ نماز یں ادا کرنے کے بعد آپ لیٹ گئے اور وہیں مزدلفہ میں پوری رات گزاری۔ 
ابھی صبح ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ آپؐ نے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو اجازت دی کہ وہ منیٰ چلے جائیں لیکن ابھی وہاں جاکر کنکریاں نہ ماریں بلکہ سورج نکلنے کا انتظار کریں۔ اسی اثناء میں فجر کا وقت ہوگیا، آپؐ نے فجر کی نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد آپؐ قصوا اونٹنی پر سوار ہوکر مشعر حرام پر تشریف لائے، قبلے کی طرف رخ کیا اور دعا میں مشغول ہوگئے۔ جب خوب اُجالا ہوگیا تب آپؐ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ اللہ کے رسولؐ کے پیچھے فضل بن عباسؓ بیٹھے ہوئے تھے، اُسامہ بن زیدؓ پیدل روانہ ہوئے۔ آپؐ کی زبان مبارک پر تلبیہ جاری تھا، راستے میں آپؐ نے فضل بن عباسؓ کو حکم دیا کہ وہ آپ کے لئے کنکریاں چن لیں۔ وادئ محسر سے گزرتے ہوئے آپؐ نے اپنی اونٹنی کو تیزی کے ساتھ ہنکایا، کیوں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں اصحاب فیل پر عذاب نازل ہوا تھا۔ (صحیح مسلم: ۲/۸۸۶، رقم الحدیث: ۱۲۱۸)۔ 
جمرۂ عقبہ پر تشریف آوری
سورج نکل چکا تھا، آپؐ جمرۂ عقبہ پر تشریف لائے، منیٰ کو دائیں طرف کیا اور کعبۃ اللہ کو بائیں طرف رکھا، سواری پر بیٹھے ہوئے آپؐ نے بڑے شیطان کو سات کنکریاں ماریں، کنکری مارنے کا عمل شروع کرتے ہی آپؐ نے تلبیہ پڑھنا بند کردیا۔ آپ ہر کنکری پر تکبیر پڑھتے، اس وقت حضرت بلالؓ اور حضرت اسامہؓ آپ کے قریب تھے، ایک نے اونٹنی کی مہار پکڑ رکھی تھی اور دوسرے نے آپؐ کے سر پر سایہ کر رکھاتھا، کنکریاں مار کر آپؐ منیٰ میں اپنے خیمے میں تشریف لائے، لوگ آپؐ کے قریب ہی تھے، منی پہنچنے کے بعد آپؐ نے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK