• Sat, 14 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کانگریس کو مالی وسائل سے محروم کرنے کی کوشش وزیراعظم مودی کے خوف کا مظہر ہے

Updated: April 07, 2024, 2:26 PM IST | Pankaj Srivastava | Mumbai

یہ صاف نظر آرہا ہے وزیراعظم نہیں چاہتے کہ کانگریس ان مسائل پر کوئی جارحانہ مہم چلائے جنہیں اس نے اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنایا ہے۔ بادی النظر میں وہ کانگریس کے منشور سے خوفزدہ ہیں جس کی وسیع تشہیر اُن کے ’’چار سو پار‘‘ کے نعرہ کو کمزور کر سکتی ہے۔

Congress has held several press conferences against the action of the Income Tax Department. Photo: Agency
کانگریس انکم ٹیکس محکمہ کی کارروائی کے خلاف متعدد پریس کانفرنس کرچکی ہے۔ تصویر: ایجنسی

ہندوستانی سیاست آج جس موڑ پر کھڑی ہے اس کا تصور بھی آئین سازوں  نے نہیں کیا ہوگا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر کبھی کوئی ایسا لیڈر بھی فائز ہوگا جو ہندوستان کی جمہوریت کو اپوزیشن سے عاری کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن آزادی کےامرتکال کا یہی سچ ہے۔ انتخابات سے قبل کانگریس کے بینک کھاتوں کو جس طرح سیل کیاگیاہے، تاریخ میں  اس کی مثال نہیں  ملتی۔ یہ اپوزیشن کی مہم شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کردینے کی کوشش ہے۔ بندوق محکمہ انکم ٹیکس کے کندھے پررکھ کر چلائی گئی جس نے کانگریس کو زخمی ضرور کیا مگر وزیراعظم مودی کے خوف کوبھی بے نقاب کردیاہے۔ 
  وزیراعظم مودی نے الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے بہت پہلے ’’چار سو پار‘‘کا نعرہ دے دیا تھا۔ پورا میڈیا دن رات یہی بتانے میں مصروف ہے کہ ملک کے پاس مودی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ بی جے پی کا آئی ٹی سیل دن رات وزیراعظم کے عظیم اور دیومالائی شخصیت ہونے کا پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ و ہ عوام کو یہ باور کرانے میں  مصروف ہے کہ ان کی قیادت میں ہندوستان عالمی قائد (وِشو گرو) بن گیاہے۔ پروپیگنڈہ کی اس لڑائی میں اتنا پیسہ لگایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر صرف مودی کا چہرہ ہی نظر آتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جن ویب سائٹس یا یوٹیوب چینلز کو مودی کے ناقد کے طور پر دیکھا جاتاہے، ان پر بھی اشتہارات ( جو گوگل کے توسط سے آتے ہیں ) صرف مودی کے ہی چلتے نظرآتے ہیں۔ یعنی ہمارے سامنے ایک ایسا منظر نامہ ہے جس میں دور دورتک کسی مقابلے کی گنجائش ہی نظر نہیں آتی۔ ایسے میں اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کو وسائل سے محروم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر میڈیا میں دکھائی جانے والی شبیہ حقیقی ہےتو مودی آسانی سے الیکشن جیت رہے ہیں، ایسے میں   تھوڑا بہت مقابلہ انہیں اکھاڑے میں  مشق کا لطف ہی دےگا۔ کون سا پہلوان ایسا ہوگا جو چاہے گاکہ اس کا حریف کوئی داؤ آزمائے بغیر چِت ہوجائے۔ اس لئے یہ سوال اہم ہے کہ کانگریس کا کھاتہ کیوں  منجمد کروایاگیا؟

یہ بھی پڑھئے: اروند کیجریوال کی گرفتاری کا داؤ بی جے پی کیلئے کہیں اُلٹا نہ پڑجائے

اس کا مطلب تو یہی نظر آتا ہے کہ مودی جی کو نہ تو’’چار سو پار ‘‘کے نعرے پر بھروسہ ہے اور نہ ہی میڈیا میں ان کی جو شبیہ پیش کی جا رہی ہے وہ انہیں  ان کی جیت کا یقین دلا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کانگریس کی ’’نیائے یوجناؤں ‘‘ سے گھبرا گئے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہو۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاتراکو ملک کے نام نہاد مرکزی دھارے کے میڈیا نے نظرانداز کیا پھر بھی یاترا میں امڈنے والی بھیڑ  نے وزیراعظم کی راتوں کی نیند حرام کردی ہوگی۔ وزیراعظم جانتے ہیں کہ۱۰؍ سال کے اقتدار کےبعد انہیں اپنا رپورٹ کارڈ عوام کے سامنے پیش کرنا پڑے گا۔ ان کی حکومت مہنگائی اور بیروزگاری جیسے تمام مسائل پر قابو پانے میں   بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ایسے میں رام مندر سے لے کرجی- ۲۰؍ تک ڈھول پیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے، ڈھول کی یہ تھاپ لوگوں کو اسی وقت تک اپنی طرف متوجہ رکھ سکتی ہے جب تک کہ اپوزیشن کے پاس عوام کیلئے کوئی ایسا قابل اعتبار منشور نہ ہو جوبی جےپی کے خمار سے انہیں   باہر نکال سکے۔ 
 راہل گاندھی نے پہلے ۴؍ ہزار کلومیٹر پیدل چل کر اور پھر ۶؍ ہزار کلومیٹر پیدل اور بس میں چل کر عوام میں اپنی اور کانگریس کی ساکھ کو کئی گنا بڑھا لیا ہے۔ انہوں نے ’’ذات پر مبنی مردم شماری‘‘ اور ریزرویشن کی ۵۰؍ فیصد کی حد کو ختم کرنے کا وعدہ کرکے پسماندہ اور دلت سماج کے سامنے ایک سنجیدہ تجویز پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس نے ہر نوجوان کیلئے سالانہ ایک لاکھ روپے کی پہلی نوکری، ۳۰؍ لاکھ خالی سرکاری آسامیوں کیلئے بھرتی، ان بھرتیوں میں خواتین کیلئے۵۰؍فیصد ریزرویشن، گھر کی ایک خاتون کو سالانہ ایک لاکھ روپے کی مالی امداد، کسانوں کو سوامی ناتھن کمیٹی کی سفارشات کے مطابق ایم ایس پی کی گیارنٹی، آشا ورکرس کی تنخواہوں میں اضافہ، کم از کم اجرت بڑھا کر ۴۰۰؍  کرنے کا وعدہ، پرانی پنشن کی بحالی جیسے ٹھوس اعلانات کئے ہیں۔ یہ وعدے عوام کیلئے متاثر کن ہیں اورمعاشرے کے ایک بڑے طبقہ کو متاثر کررہے ہیں۔ 
 ظاہر ہے وزیراعظم مودی نہیں چاہتے کہ کانگریس ان مسائل پر کوئی جارحانہ مہم چلائے۔ واضح طور پر نظر آرہاہے کانگریس کے منشور سے خوفزدہ ہیں، جس کی وسیع تشہیر ان کے ’’چار سو پار‘‘ کے نعرے کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس لیے کانگریس کو ان مالی وسائل سے محروم کیاجارہاہے جو انتخابی مہم اس کے انتخابی وعدوں  کو عوام تک پہنچانے کیلئےضروری ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے اس بات کو بھی ذہن میں نہیں رکھا گیا کہ سیاسی جماعتیں انکم ٹیکس کے دائرہ سے باہر ہیں اور انکم ٹیکس محکمہ کو بروقت اطلاع نہ دینے پر جرمانہ صرف۱۰؍ ہزار روپے ہے جبکہ کانگریس پر۱۰۰؍ کروڑ روپے سے زیادہ کا جرمانہ عائد کردیاگیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس کو گھیرنے کیلئے قوانین کو بھی بالائے طاق رکھ دیاگیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ محکمہ انکم ٹیکس کی طرف سے بھیجا گیا ایک نوٹس۱۹۹۴ء سے متعلق ہے جب سیتارام کیسری کانگریس کے خزانچی تھے۔ 
  اس لئے کانگریس اپنی پریس کانفرنس میں  اگر ملک میں   جمہوریت کے وجود پر سوال اٹھارہی ہے تویہ عین فطری ہے۔ عدالتوں  سے میڈیا تک ان تمام اداروں کی خاموشی کا سوال بھی اہم ہے جن پر جمہوریت کے تحفظ کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے کی ایک پریس کانفرنس میں سونیا گاندھی کی شرکت اورخطاب میں مرکز کی مودی حکومت کو براہ راست نشانہ بنانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی اس معاملے پر کتنی سنجیدہ ہے اور سخت جواب دینے کیلئے بھی تیار ہے۔ 
 ویسے اگر مودی کو جمہوریت کو اپوزیشن سے عاری کرنے کےکھیل میں  لطف آرہاہے تو راہل گاندھی بھی عوام کے بیچ جا کر محبت اور حمایت حاصل کرنے میں  مزہ لینے لگے ہیں۔ ورنہ کون کنیا کماری سے ۴؍ ہزار کلومیٹر پیدل چل کر کشمیر اور پھر چند مہینوں   بعد منی پور کے درد کوممبئی تک لے جاتا ہے۔ وہ بھی صرف ’’نفرت کے بازار میں محبت کی دکان‘‘ کھولنے کے نعرہ کے ساتھ۔ کانگریس کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی کوشش میں مودی جی نے پوری پارٹی کو سڑکوں پر آکر لڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے کہ جب بھی ایسی جنگ ہوئی ہے، معاشی وسائل بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ عوام خود لڑائی میں کود پڑتے ہیں اور حاکم کا غرور چکنا چور ہو جاتا ہے۔ (بشکریہ: ستیہ ہندی ڈاٹ کام)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK