Inquilab Logo

تاریخ کے اور مشینوں کے پہیوں کی روانی ان سے ہے

Updated: May 02, 2020, 4:42 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

اِن دنوں مزدوروں کا حال بُرا ہے،مگرسوچئے ان کا حال کب اچھا رہا۔ اس بد حالی میں اگر حکومتوں کا قصور ہے تو سماج کا بھی ہے اور ہمارا بھی ہے۔ جیتا مڈکامی صرف ۱۲؍ سال کی تھی۔ لاک ڈاؤن کے نفاذ کی وجہ سے تلنگانہ کے مرچ کے کھیت میں جب اُس کا کام چھو‘ٹ گیا تو اپنے گاؤں کی کئی مزدور خواتین کے ساتھ وہ بھی پیدل چل پڑی۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

جیتا مڈکامی صرف ۱۲؍ سال کی تھی۔ لاک ڈاؤن کے نفاذ کی وجہ سے تلنگانہ کے مرچ کے کھیت میں جب اُس کا کام چھو‘ٹ گیا تو اپنے گاؤں کی کئی مزدور خواتین کے ساتھ وہ بھی پیدل چل پڑی چھتیس گڑھ میں واقع اپنے گاؤں جانے اور گھر پہنچنے کیلئے۔ گھر.... الامان و الحفیظ....ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ اُس کے ساتھ کام کرنے والی ۸؍ خواتین (اور ۳؍ بچوں ) پر مشتمل یہ قافلہ جب اپنے گاؤں سے صرف ۱۴؍ کلومیٹر کی دوری پر تھا تب جیتا مڈکامی کے پیٹ میں شدید درد اُٹھا۔ وہ اس درد کی تاب نہ لاسکی، نڈھال ہوکر راستے ہی میں گر پڑی اور اس سے قبل کہ گھر پہنچتی اور ماں گلے لگاتی، جیتا موت کو گلے لگا چکی تھی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ناقص غذائیت اور پانی کی کمی کی وجہ سے اُس کی موت واقع ہوئی۔وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ 
 ۳۹؍ سالہ رَنویر سنگھ دہلی میں ڈِلیوری وَین کے ڈرائیور کے طور پر ایک ریستوراں میں ملازم تھا۔ لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تو کام چھو‘ٹ گیا۔ ذرائع آمدو رفت دستیاب نہیں تھے۔ اُس نے ۳۰۸؍ کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرکے مورینہ ضلع میں واقع اپنے گاؤں پہنچنے کی جدوجہد شروع کی۔ ابھی وہ اپنے گاؤں اور گھر سے صرف ۸۰؍ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا کہ راستہ چلتے چلتے اچانک گر پڑا۔ ایک مقامی شخص نے اُسے اس حالت میں دیکھا تو اُس کی مدد کیلئے دوڑ پڑا، اُسے فوری راحت بہم پہنچانے کی کوشش کی مگر رَنویر پر قلب کا دورہ پڑا تھا جو اتنا شدید تھا کہ مقامی شخص کی راحت رسانی منہ دیکھتی رہ گئی اور وہ گھر کی آس چھوڑ کر پرلوک سدھار گیا۔ رَنویر کے بارے میں بتایا گیا کہ اپنے اہل خانہ کی کفالت کا تنہا ذمہ دار تھا۔
 اسی فہرست میں انصاف علی کو بھی شامل کرلیجئے جو ۱۴؍ دن تک مسلسل سفر کرکے ممبئی سے اپنے ضلع شراوستی پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا مگر پھر اچانک اس کا انتقال ہوگیا۔ 
 ایسی کتنی جیتا، رَنویر اور انصاف علی ہیں جو لاک ڈاؤن کے اچانک اور غیر منظم نفاذ کی نذر ہوگئے۔ لاک ڈاؤن، کورونا وائرس سے عوام کی حفاظت کیلئے نافذ کیا گیا تھا مگر یہ حفاظتی تدبیر بہتوں کیلئے پروانہ ٔ اجل بن گئی۔ خدا بھلا کرے اُن لوگوں (تھیجیش جی این، کنیکا شرما اور امن) کا جنہوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی خبروں کو چھاننے پھٹکنے کے بعد ایک فہرست مرتب کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور بقول شیوم وِج (دی پرنٹ) اُن کی فہرست میں اب تک ۱۹۵؍ نام درج ہوچکے ہیں ۔ یہ سارے لوگ کورونا سے نہیں مَرے، لاک ڈاؤن کی بھینٹ چڑھے ہیں ۔ 
 حقیقت یہ ہے کہ غریب کیلئے زندگی کے مرحلے مشکل اور موت کی راہ آسان ہوتی ہے۔ مشہور شاعر اور اس روزنامہ کے ادارتی عملہ سے وابستہ میرے سابق رفیق کار ارتضیٰ نشاط نے کتنی سچی بات کہی تھی: ’’سب سے دلچسپ یہی غم ہے مری بستی کا= موت پسماندہ علاقے میں دوا لگتی ہے۔‘‘ کاش لاک ڈاؤن سے پہلے ملک بھر کے غریب مزدوروں کے بارے میں سوچا گیا ہوتا، جن کی مجموعی تعداد ۴؍ کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ اپنے قصبوں اور دیہاتوں کو خیرباد کہہ کر بڑے شہروں کا رُخ اس لئے کرتے ہیں تاکہ یہاں کی آسائشوں کے بحر ذخار سے زندگی کی چند مٹھی سہولتیں اپنے نام کرسکیں ، مانگ کر نہیں ، اپنے خون پسینے کے عوض خریدکر۔ کتنے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ خودداری ان کا وصف ِ خاص ہوتی ہے۔ ان میں جو لوگ تعمیراتی سائٹس پر کام کرتے ہیں اُن کےساتھ یہ ستم ظریفی زندگی بھر قدم بہ قدم چلتی ہے کہ وہ مکان بنا کر آگے بڑھ جاتے ہیں کسی اور مکان کی تعمیر میں حصہ لینے کیلئے، مگر اُن کے اپنے مکان یا گھر کا کوئی اَتا پتا نہیں ہوتا۔ ٹوٹا پھوٹا کوئی گھر ہو تو وہاں چراغ بھی پوری قوت سے نہیں جلتا، ہمیشہ ٹمٹماتا رہتا ہے۔ ان میں جو لوگ کھیتوں میں پسینہ بہاتے ہیں وہ ہر سال فصلوں کو لہلہاتا دیکھتے ہیں مگر کبھی اپنی آرزوؤں کو لہلہاتا نہیں دیکھ پاتے۔ اہل اقتدار ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے، ان کی سننا اور قدر کرنا تو دور کی بات ہے۔اتفاق دیکھئے کہ جس دن یہ سطریں سپردِ قلم کی جارہی ہیں ، پوری دُنیا ’’یوم مزدور‘‘ منا رہی ہے جبکہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں ’’یوم غم مزدور‘‘ منانا چاہئے تھا۔ 
 برسوں پہلے علی سردار جعفری نے ان مزدوروں اور محنت کشوں کے بارے میں ’مہذب دُنیا‘ کو جو پیغام دیا، وہ یہ تھا:
 ان ہاتھوں کی تعظیم کرو/ ان ہاتھوں کی تکریم کرو
دُنیا کے چلانے والے ہیں / ان ہاتھوں کو تسلیم کرو
تاریخ کے اور مشینوں کے پہیوں کی روانی ان سے ہے
تہذیب کی اور تمدن کی بھرپور جوانی ان سے ہے
دُنیا کا فسانہ ان سے ہے انساں کی کہانی ان سے ہے
 ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
 مگر اہل اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ ۵۵؍ مصرعوں کی اس نظم ’’ہاتھوں کا ترانہ‘‘ کے کسی ایک مصرعہ کو بھی انہوں نے اتنی توجہ سے نہیں سنا کہ ان کا ضمیر جاگتا۔ چالیس پچاس برس پہلے کہی گئی یہ نظم فریاد کناں ہی رہی۔ اس فریاد کو سن لیا گیا ہوتا اور مزدروں کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی جامع اور ٹھوس پالیسی بنالی گئی ہوتی تو اپنے گاؤں اور گھر سے دور، عدیم المثال لاک ڈاؤن کے سائے میں سستاتی سڑکوں پر جیتا مرتی نہ رَنویر۔ نہ انصاف کے ساتھ ایسی ناانصافی ہوتی۔ واضح رہنا چاہئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوئی تنظیم نہیں ہے۔ اِن کا کوئی رجسٹر نہیں ہے۔ ان کی اُجرت بھی طے نہیں ہوتی، ان کے خون پسینے کے دام ٹھیکیدار طے کرتا ہے۔ انہی لوگوں کے مسائل و مصائب کو ذہن میں رکھ کر ہر دور میں باضمیر ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں ، صحافیوں اورسماجی خدمتگاروں نے انصاف کا مطالبہ کیا، اِس دُنیا کو بدلتا اور سنورتا دیکھنے کی تمنا کی مگر سیاست ’’جبل گردد، جبلت نہ گردد ‘‘ کے مصداق ہمیشہ پنا ایجنڈا سیٹ کرتی رہی۔ 
 مگر سیاست ہی کو کیوں ملزم ٹھہرائیں ، ہم بھی تو اہل اقتدار سے کچھ کم بے حس نہیں ہیں ۔ مانا کہ ہم جیتا، رنویر اور انصاف جیسے لوگوں کو بہ نگاہ تحقیر نہیں دیکھتے مگر ان کی جانب نظر التفات بھی تو نہیں کرتے۔ ان میں زیادہ نہیں تو چند لوگوں کی اُجرت کا ذریعہ ہم ہیں ۔ یہ باعث سعادت ہے مگر کیا ہم اُن کی اُجرت میں ہمیشہ کاٹ کسر نہیں کرتے؟ حق محنت ادا کرنے کے بجائے کم دینے کے درپے نہیں رہتے؟ کیا حالیہ دِنوں میں بہت سے کارخانوں میں مزدوروں سے یہ نہیں کہہ دیا گیا کہ لاک ڈاؤن میں بطور اعانت دی جانے والی رقم کام شروع ہونے کے بعد کی اُجرت سے منہا کرلی جائیگی؟ سرکار کو جو دینا ہوگا، کل دے گی، ہم جو دے سکتے ہیں آج دے دیں ، دل سے دیں ، واپسی کی شرط کے بغیر دیں ۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا ؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK