ہرگزرتے دن کے ساتھ انڈیا اتحاد مزید نکھرتا اور مستحکم ہوتا جارہا ہے۔ پہلے اجلاس میں پندرہ پارٹیاں تھیں، دوسرے میں ان کی تعداد بڑھ کر چھبیس ہوگئی اور حالیہ ممبئی اجلاس میں اٹھائیس پارٹیوں کے ساٹھ سے زیادہ نمائندوں نے حصہ لیا۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر یہ تعداد یوں ہی بڑھتی رہی تو پانچویں یا چھٹے اجلاس میں جب فوٹوگرافر گروپ فوٹو کیلئے کیمرہ آن کرے گا تو تمام چہرے ایک فریم میں سما نہیں سکیں گے۔
انڈیا کا ممبئی میں اجلاس۔تصویر:آئی این این
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے دیش واسیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ لفظ ’’انڈیا‘‘کا استعمال ترک کردیں اور ’’بھارت‘‘ کہنے کی عادت ڈال لیں ۔ بھاگوت صاحب نے جو سناتن دھرم کے پراچین اتیہاس اوردیش کی سبھیتا اور سنسکرتی پر متواتر اُپدیش دیتے رہتے ہیں ، آسام کے اپنے حالیہ دورہ کے موقع پر فرمایا کہ ہمیں اپنے دیش کو بھارت کہنا چاہئے انڈیا نہیں کیونکہ یہ صدیوں پرانا نام ہے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے ابھی حال تک بھاگوت جی کو انڈیا سے کوئی قباحت نہیں تھی۔ دس سال قبل جب نریندر مودی راج سنگھاسن پر بیٹھنے کی تیاریاں کررہے تھے تو انہوں نے ایک’’نیابھارت‘‘ نہیں بلکہ’’ نیو انڈیا‘‘ بنانے کا مژدہ دیش واسیوں کو سنایا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی سرکار جو سڑکوں کے نام بدلنے میں ید طولیٰ رکھتی ہے،بھاگوت کے اپدیش پر عمل کرتے ہوئے کب میک ان انڈیا، اسکل انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا اور ڈیجیٹل انڈیا کابھارتیہ کرن کرتی ہے۔ ویسے بی جے پی سے کچھ بھی بعید نہیں ہے، مجھے تو لگتا ہے کہ اب انڈیا کا بھی بھارتیہ کرن ہونے والا ہے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں کے ردعمل سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ حزب اختلاف کا تیر نشانے پر لگا ہے۔ جولائی میں بنگلور میں منعقدہ دوسرے اجلاس میں اپوزیشن اتحاد کا نام ’’اِنڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوزیو الائنس‘‘ ( مخفف ’’انڈیا ‘‘) رکھنے کا فیصلہ ملک کی موجودہ سیاست میں گیم چینجر بنتا جارہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انڈیا نے مایوسی اور پژمردگی کی شکار اپوزیشن پارٹیوں میں ایک نئی جان ڈال دی ہے اور دوسری جانب اس نے زعفرانی خیمے کو پریشان اور برہم کردیا ہے۔خود وزیر اعظم نے اپنے مخصوص انداز میں اس پر طنز کرتے ہوئے انڈیا کو ’’گھمنڈیا‘‘ گٹھ بندھن قرار دیا ہے۔ حزب اختلاف کو لفظ انڈیا کو اپنے اتحاد کیلئے استعمال کرنے سے روکنے کیلئے دہلی ہائی کورٹ میں پچھلے ماہ ایک مقدمہ بھی دائر کیا گیا ہے۔
ممبئی میں پچھلے ہفتے انڈیا اتحاد کے تیسرے اجلاس کے کامیابی کے ساتھ اختتام پزیر ہونے کے بعد سیاسی پنڈتوں کو یہ محسوس ہونے لگاہے کہ ڈھائی ماہ کے قلیل عرصے میں یہ نوزائیدہ بچہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ یہ اتحاد مزید نکھرتا اور مستحکم ہوتا جارہا ہے۔ ۲۳؍جون کو جب بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے کال پر اپوزیشن کے لیڈران، بی جے پی کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنانے کی تجویز پر تبادلہ خیال کیلئے پٹنہ میں اکٹھا ہوئے تھے اس وقت کسی نے سوچا نہیں تھا کہ یہ خواب اتنی جلدی شرمندہ ٔ تعبیر ہو سکے گا۔ پہلے اجلاس میں ۱۵؍ پارٹیاں تھیں ، دوسرے میں ان کی تعداد بڑھ کر ۲۶؍ اور حالیہ ممبئی اجلاس میں ۲۸؍ پارٹیوں کے ساٹھ سے زیادہ نمائندوں نے حصہ لیا۔ اگر یہ تعداد یوں ہی بڑھتی رہی تو پانچویں یا چھٹے اجلاس میں گروپ فوٹو کیلئے کیمرہ آن کرے والا فوٹوگرافر ایک فریم میں سب کو سما نہیں سکے گا۔
انڈیا کا تیسرا اجلاس اب تک کا سب سے زیادہ بار آور اور نتیجہ خیزاجلاس کہا جاسکتا ہے۔ اس اجلاس میں پارٹی لیڈروں نے ملک کے آئین اور جمہوریت کو بچانے کے دعوے دہرانے کے بجائے اگلے لوگ سبھا الیکشن کی حکمت عملی طے کرنے پر زور دیا۔ تمام پارٹیوں میں اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ وہ حتی المقدور کوشش کریں گی کہ متحد ہوکر الیکشن میں حصہ لیں ۔ بہت جلد سیٹوں کی تقسیم کے سمجھوتے کو حتمی شکل دینے کا عہد بھی کیا گیا۔ ممبئی اجلاس میں دو اہم کام نہیں ہوسکے: انڈیا اتحاد کا کنوینر کا انتخاب اور اتحاد کیلئےایک نشان (Logo) کا اجرا۔ جتنی جلدی یہ دونوں ادھورے کام مکمل ہوجائیں اتنا ہی اچھا ہے۔ ممبئی اجلاس میں متعارف کرایا گیا اتحاد کا نعرہ ’’ جڑے گا بھارت جیتے گا انڈیا‘‘ پر کشش ہے جو لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نعرے میں راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاتر ا کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اگلے انتخابات میں بمشکل سات آٹھ ماہ رہ گئے ہیں اور اب ممتا بنرجی اور نتیش کمار جیسے لیڈروں کو یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ مودی جی الیکشن قبل از وقت کرواسکتے ہیں ۔اس لئے وقت ضائع کئے بغیر تمام پارٹیوں کو پوری سنجیدگی اور ایمانداری سے ملک کے کونے کونے میں جاکر رائے دہندگان کو نہ صرف بی جے پی کو تیسری بار اقتدار میں لانے کے خوفناک نتائج سے آگاہ کرنا ہوگابلکہ ان کے سامنے ایک متبادل، مثبت اور مساوات اور انصاف پر مبنی گورنینس کا خاکہ بھی پیش کرنا ہوگا۔
بی جے پی اس بار مکمل طور پر مودی جی کے چہرے پر الیکشن لڑے گی اور پارلیمانی انتخابات کو صدارتی انتخاب میں بدلنے کی کوشش کرے گی۔ اپوزیشن کے خیمے میں مودی کے مقابل رکھنے کے لئے کوئی چہرہ نہیں ہے۔اس لئے اسے اگلے لوک سبھا الیکشن کو چہروں کا مقابلہ میں تبدیل کرنے کے بی جے پی کے گیم پلان کو ناکام بناناہوگا۔انڈیا اتحاد کو الیکشن کا فوکس ایشوز پر رکھنا ہوگا۔ آخری چند کوکی خاندانوں کے جبری انخلاء کے بعد منی پور کی راجدھانی امپھال اب ان قبائلی باشندوں سے بالکل خالی ہوچکی ہے جسے ان قبائلیوں کے نسلی صفائے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ انڈیا منی پور میں پھیلی اس طوائف الملوکی کو مودی حکومت کی ایک بڑی ناکامی کے طور پر پیش کرسکتا ہے۔ اسی طرح اڈانی کے بے حساب دولت اور عوام کی بے پناہ غریبی اور بے روزگاری پر بھی مودی جی سے حساب مانگ سکتا ہے۔ لداخ میں بھارت کی سرزمین پر چین کے غاصبانہ قبضہ روکنے میں مودی حکومت کی ناکامی بھی ایک بڑا انتخابی ایشو بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ الیکشن کے قبل عوام کی توجہ حقیقی ایشوز سے ہٹانے کیلئے بی جے پی پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس جیسے دیگر حربے بھی اپنائے گی اور مذہب کا کارڈ بھی کھیلے گی۔انڈیا میں شامل تمام پارٹیوں کو بی جے پی کے بچھائے بساط پر اور بی جے پی کے بنائے گیم کے اصولوں پر کھیلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔انڈیااپنا انتخابی بیانیہ خود ترتیب دے اور گیم کے اصول بھی خود طے کرے۔
ایک ضروری انتباہ: غیر ضروری بیانات سے ہر قیمت پر انڈیا میں شامل پارٹیوں کو اپنا دامن بچانا ہوگاتاکہ بی جے پی کو لوگوں کو بھڑکانے کا موقع نہ مل سکے۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ کے بیٹے نے اسی طرح کا ایک غیر ضروری بیان دے کر امیت شاہ کو ایسا ہی موقع فراہم کیاہے۔انڈیا ہوشیار رہے کیونکہ بی جے پی اپنی پوری توانائی اس اتحاد کو ہندودشمن اور بھارت ورودھی ثابت کرنے پر صرف کرسکتی ہے۔