انسانی تاریخ میں ایسے بے شمار نام ملتے ہیں جو خطابت، فلسفہ اور حکمت کے میدانوں میں بلند آوازیں چھوڑ گئے۔ کبھی کوئی اپنے الفاظ کی جولانی سے متاثر کرتا ہے، کبھی کوئی اپنے افکار کی باریکیوں سے۔ لیکن اگر دنیا کے بڑے سے بڑے خطیب اور فلسفی کو دیکھا جائے تو ان سب کی عظمت ایک حد پر آکر رک جاتی ہے: وہ محض گفتار کے غازی ہیں۔
فتح مکہ کا دن آیا تو دشمنوں کے سامنے آپ ؐ کا اعلان تھا:’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔‘‘ یہ معافی کی وہ شان ہے جو انسانی تاریخ میں بے نظیر ہے۔ تصویر: آئی این این
انسانی تاریخ میں ایسے بے شمار نام ملتے ہیں جو خطابت، فلسفہ اور حکمت کے میدانوں میں بلند آوازیں چھوڑ گئے۔ کبھی کوئی اپنے الفاظ کی جولانی سے متاثر کرتا ہے، کبھی کوئی اپنے افکار کی باریکیوں سے۔ لیکن اگر دنیا کے بڑے سے بڑے خطیب اور فلسفی کو دیکھا جائے تو ان سب کی عظمت ایک حد پر آکر رک جاتی ہے: وہ محض گفتار کے غازی ہیں۔ یہاں ایک اصولی سوال اٹھتا ہے: کیا ایسے رہنما جو خود اپنی تعلیمات کو اپنی زندگی میں برپا نہ کرسکے، انسانیت کیلئے حتمی آئیڈیل قرار دیئے جاسکتے ہیں ؟ تاریخ ایک ہی آواز میں کہتی ہے: نہیں۔
یہاں وہ مقام آتا ہے جہاں تمام انسانی شخصیتیں جھک جاتی ہیں اور ایک ہستی سراپا قامت ِبلند بن کر سامنے آتی ہے: محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔
فلسفے کی تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ افلاطون نے مثالی ریاست کا خواب دیکھا، لیکن وہ خود اس خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ کرسکا۔ ارسطو نے منطق کی باریکیاں کھولیں، مگر اس کی عملی زندگی انہی اصولوں کی مکمل جھلک پیش نہ کرسکی۔ کنفیوشس نے اخلاقیات کی بات کی، مگر خود اس کی ذاتی زندگی میں کئی تضادات موجود رہے۔ اس کے برعکس محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہا، اُسے عمل کے قالب میں ڈھال کر مثال پیش کی، جو تعلیم دی اس پر سب سے پہلے عمل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کی ذات ’’نظریہ‘‘ اور ’’عمل‘‘ کا ایسا امتزاج ہے، جس کی مثال تاریخ کے صفحات میں کہیں نہیں ملتی۔
منطق کہتی ہے کہ ہر دعوے کو دلیل چاہئے۔ فلسفہ کہتا ہے کہ دلیل اگر محض زبانی ہو تو اس کی طاقت محدود ہے۔ لیکن جب دلیل انسانی زندگی کے پیکر میں ڈھل جائے تو وہ ناقابلِ انکار حقیقت بن جاتی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اسی ناقابلِ تردید دلیل کا نام ہے۔ آپ نے فرمایا:’’تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہوں۔ ‘‘ یہ جملہ محض نصیحت نہیں، بلکہ عملی شہادت ہے۔ آپؐ کی ازواج مطہرات نے زندگی بھر اس حقیقت کی گواہی دی۔ صحیح مسلم میں ایک حدیث ہے، حضرت سعد بن ہشام نے حضرت عائشہؓ سے عرض کیا: اے اُم المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتلائیے، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیاتم نے قرآن نہیں پڑھا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ ؓنے فرمایا: بلاشبہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تھا۔ ‘‘
گواہی دشمن کی زبان سے: ایک اور اصولی سوال۔ اگر کوئی ہستی واقعی اخلاقیات کا اعلیٰ نمونہ ہو، تو کیا صرف اس کے ماننے والے ہی اس کی گواہی دیں گے؟ محمد ﷺکی سچائی اور امانتداری کی شہادت تو وہ بھی دیتے ہیں جو آپؐ کے مخالف تھے۔ دشمن جب بھی آپؐ کی ذات پر اعتراض اٹھاتے، تو خود ان کی زبان سے یہ نکلتا کہ ’’محمد صادق اور امین ہیں۔ ‘‘ یہی وہ مقام ہے جہاں انسانی تاریخ کا پیمانہ بدل جاتا ہے: یہاں صداقت دشمن کی زبان سے تصدیق پاتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:طائف کا مشکل ترین لمحہ، نبی کریمؐ کا عفو و درگزر اور دعا
انسان کے اخلاق کا سب سے بڑا امتحان گھر اور قریبی تعلقات میں ہوتا ہے۔ باہر کی دنیا میں تو انسان محض ظاہری بناوٹ سے متاثر کرسکتا ہے، مگر گھر والوں کے سامنے پردہ ہٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے سچے کردار پر ایمان لاتی ہیں۔ ایک بیوی سے بڑھ کر کسی مرد کی شخصیت کو کون پرکھ سکتا ہے؟ اسی طرح ایک خادم، جو صبح و شام خدمت میں رہتا ہے، اگر مالک کی زندگی میں کوئی تضاد دیکھے تو سب سے پہلے وہ بھاگے گا۔ لیکن حضرت زید رضی اللہ عنہ نے والدین کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کو ترجیح دی۔ اسی طرح قریبی دوست، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، بغیر تردد کے آپؐ پر ایمان لے آئے۔ یہ محض دوستی نہیں تھی، بلکہ ایک ایسی شخصیت پر اعتماد تھا جسے وہ دل کی گہرائیوں سے جانتے تھے۔
کچھ کرنے کے کام: ربیع الاول، یہ وہ مہینہ ہے جس کی آمد کے ساتھ دنیا کو اس ہستی کا تحفہ ملا جسے رحمۃ للعالمین کہا گیا۔ رحمت صرف جذبات کا نام نہیں، بلکہ عملی اقدام کا تقاضا کرتی ہے۔ اس ماہِ مبارک میں ہم اپنے قول و عمل سے کیا پیش کریں ؟ چند مثالیں حاضر ہیں :
بھوک اور دوسروں کی سیرابی: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ خود پیٹ پر پتھر باندھ کر فاقہ برداشت کیا، مگر کبھی کسی ضرورت مند کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا۔ یہ محض واقعہ نہیں، بلکہ ایک اصول ہے: انسان کا شرف دوسروں کو سیراب کرنے میں ہے، نہ کہ خود لذتوں میں ڈوبنے میں۔ ہم آپؐ کے امتی ہیں ، ہمیں چاہئے کہ اپنے دسترخوان سے پہلے دوسروں کے پیٹ کا خیال رکھیں۔ اگر استطاعت ہو تو جن کے سر پر چھت نہیں ہے اُن کیلئے مکان کا انتظام کریں۔ یہ عمل دور حاضر کے لالچ اور خودغرضی کے اندھیروں میں چراغ جلا سکتا ہے۔
قرض اور ذمہ داری:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا تھا:’’جس پر قرض ہو اور وہ مر جائے تو اس کا قرض میری ذمہ داری ہے۔ ‘‘یہ اعلان صرف الفاظ نہ تھے بلکہ پورے سماج کے بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لینے کی عملی گواہی تھی۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے: کیا ہمارے سماج میں قرض کی زنجیروں میں جکڑے انسان نہیں ہیں ؟ وہ کسان، وہ مزدور، وہ غریب جو سودی نظام کے شکنجے میں پس رہا ہے، کیا وہ اس امت کی ذمہ داری نہیں ؟ ہم کم از کم اس مہینے میں قرض معاف کرنے کی سنت زندہ کریں۔
دشمن کے لئے دعا اور معافی: طائف کی وادی میں لہولہان جسم، پتھروں کی بارش، اور زخموں سے چور ہوچکا وجودِ مبارک۔ کوئی دوسرا ہوتا تو بددعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا۔ لیکن آپؐ نے یہی کہا: ’’اے اللہ! انہیں ہدایت دے، کیونکہ یہ جانتے نہیں۔ ‘‘
فتح مکہ کا دن آیا تو دشمنوں کے سامنے آپؐ کا اعلان تھا:’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ ‘‘ یہ معافی کی وہ شان ہے جو انسانی تاریخ میں بے نظیر ہے۔ آج ہمارا حال کیا ہے؟ ہم معمولی جھگڑوں پر بھائی کو معاف نہیں کرتے، چھوٹی بات پر برسوں کا تعلق توڑ دیتے ہیں۔ اگر ہمیں واقعی رحمۃ للعالمینؐ کی سیرت سے کچھ لینا ہے تو معافی کو اپنا شیوہ اور عفو و درگزر کو اپنا ہتھیار بنانا ہوگا۔
سچائی، امانت اور تحفظِ زبان: سچائی صرف ذاتی صفت نہیں بلکہ پورے معاشرے کی بقا کی ضمانت ہے۔ جھوٹ، غیبت اور چغل خوری وہ زہر ہیں جو دلوں کو توڑتے اور قوموں کو کھوکھلا کرتے ہیں۔ نبی اکرمؐ نے اپنی حیات کے ہر لمحے میں یہ دکھایا کہ زبان کی حفاظت، کردار کی پختگی اور قول کی صداقت انسان کو کس بلندی پر پہنچاتی ہے۔ آج ہم اپنی محفلوں، اپنے گھروں اور اپنے تعلقات کو اسی زہر سے بچا لیں تو یہ امت پھر سے طاقتور ہو سکتی ہے۔
سیرت کا عملی مطالعہ: یہ مہینہ ایک موقع ہے کہ ہم اپنے گھروں میں سیرت کے چراغ روشن کریں۔ روزانہ کچھ وقت نکال کر خاندان کے تمام افراد کو سیرت کی تعلیم سے روشناس کرائیں۔ اگر ممکن ہو تو اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کو سیرت کی کتابیں تحفے میں دیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود کو اس تعلیم کا عملی نمونہ بنیں کیونکہ محض تلقین یا نصیحت سے اتنا اثر نہیں ہوسکتا جتنا کہ خود کرکے دکھانے اور نمونہ بننے سے ہوتا ہے۔
آج کی دنیا اندھیروں میں بھٹک رہی ہے، ظلم بڑھ رہا ہے، جھوٹ عام ہے، امتیاز کی دیواریں اونچی ہو رہی ہیں۔ اس اندھیرے میں روشنی صرف وہی ہے جو محمدؐ کے چراغوں سے ملتی ہے۔ اگر ہم بھوکوں کو کھلائیں، مقروض افراد کے قرض کے بوجھ ہلکے کریں، دشمن کو معاف کریں، سچائی اور عدل کو عام کریں، اور سیرت کو گھر گھر پہنچائیں تو یہی ہماری اصل کامیابی ہے۔ یہی اس مہینے کا سب سے بڑا تحفہ ہے اور یہ آپؐ کے ہر نام لیوا پر لازم ہے۔