Inquilab Logo

گاؤں کی باتیں: ’انارے‘ پر بال بنانے کا منظر، سوشل میڈیا کا ڈسا ہوا حجام اور’ کھٹکا‘ مارنے کاقصہ

Updated: March 10, 2024, 2:18 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

۱۰؍ فروری کی دوپہر تھی۔ یہ کالم نگار گاؤں کی سیرمکمل کرچکا تھا۔ اپنی منزل سے چند قدم کے فاصلے پر تھا، ایک پرانے انارے (کنوئیں) پر تھوڑی چہل پہل تھی، قدم رک گئے، قریب گیا تو دیکھا کہ اس انارے پر ایک بچے کا بال بن رہا ہے۔

This tradition of the village is also ending now, the children have grown up, now everyone has started turning to the saloon. Photo: INN
گاؤں کی یہ روایت بھی اب ختم ہوتی جارہی ہے، بچے کیا بڑے ، اب سبھی سیلون کا رخ کرنے لگے ہیں۔ تصویر : آئی این این

۱۰؍ فروری کی دوپہر تھی۔ یہ کالم نگار گاؤں کی سیرمکمل کرچکا تھا۔ اپنی منزل سے چند قدم کے فاصلے پر تھا، ایک پرانے انارے (کنوئیں) پر تھوڑی چہل پہل تھی، قدم رک گئے، قریب گیا تو دیکھا کہ اس انارے پر ایک بچے کا بال بن رہا ہے۔ نوجوان حجام سے بہت اصرار کیا کہ آپ بال بنائیے، میں ایک تصویر لے لیتا ہوں۔ لاکھ سمجھا یا، وہ کسی طرح راضی ہی نہیں ہوئے، بہت ضد کی تو بتانے لگے کہ وہ سوشل میڈیا کے ڈسے ہوئے ہیں، اسلئے ویڈیو گرافی اور تصویر کشی سے بچ رہے ہیں۔ انہوں نے پورا قصہ سنایا، ’’گزشتہ سال میں نے باغ کے مالک سے اجازت لے کر درخت سے ایک آم توڑ لیا تھا۔ کسی نے اس کا ویڈیو بنالیا اور یہ ویڈیو وائرل ہوگیا، پھر جو ہوا، ویسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ‘‘
وہ بتانے لگے، ’’کیا بتاؤں حمزہ؟ وہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جو بھی ملتا تھا، سب سے پہلے مجھ پر چوری کا الزام لگا دیتا تھا اور کچھ یہ بھی کہتے تھے کہ چوری کرنی تھی تو اچھے سے کئے ہوتے، ایک دو آم توڑ کر کیا ملا ؟ گنا ہ بے لذت کئے ... یا ر جہاں جاتا تھا، لو گ مجھے آم توڑنے کا وہ ویڈیو دکھا تے تھے اور بہت سی بتاتیں بناتے تھے، دس بیس لوگ کچھ کہتے تو برداشت کر لیتا، مذاق سمجھ کر نظر کردیتا مگر یہاں تو دو چار گاؤں والے پیچھے پڑگئے تھے، بڑے تو بڑے بچے بھی چڑانے کا مو قع نہیں چھوڑتے تھے، راستہ روک روک کر تنگ کرتے تھے، اس کے بعد سے میں کیمرے سے بچتا ہوں، خود بھی سیلفی ویلفی نہیں  لیتا، ا تنا ڈر گیا ہوں ... ۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے:گاؤں کی باتیں:آنگن میں دوڑتی پھرتی وہ مرغیاں، نفاست پسند ماں اور تنہائی کا سہارا چوزے

جب اس کالم نگار نے انہیں  یقین دلایا کہ ’’ میرا مقصد صرف ایک پرا نی روایت کو یاد دلانا ہے، آپ کے فوٹو کا غلط استعمال نہیں ہو گا تو وہ اپنا چہرہ ہٹاکر تصویر کھنچوانے پر راضی ہوگئے۔ ‘‘کیمرہ ہٹانے کے بعد نوجوان حجام نے بہت موڈ سے بال تراشا۔ انارے پر بچے کے سامنے پلاسٹک کاپاٹ (مگ) رکھا ہوا تھا، وہ اس میں ہاتھ ڈالتاتھا اور پانی نکال کر بال کو تر کر تا تھا،  حسب ضرورت ایک ہاتھ کےا شارے سے بچے کی گردن دباتا اور اٹھاتا تھا۔ کنگھی سے اس کے بال درست کرتا تھا اور پھر قینچی چلاتا تھا۔ استرا چلاتے وقت حجام کی آنکھیں بال پر جمی رہتی تھیں۔ 
  ’انارا‘ نیم کے پرانے درخت کے نیچے ہے، اس لئے نیم کی زرد پتیاں ٹو ٹ ٹوٹ کر گررہی تھیں۔ نیم کی’ سیک‘ بھی جابجا بکھری تھی۔ بال بنانے کا تما شا دیکھنے والے بھی دو چار تھے جو حجام کو مفت کے مشورے بھی دے رہے تھے۔ اس کے قریب گائیں اور بھینسیں بند ھی ہوئی تھیں جو دھوپ سینک رہی تھیں، کبھی کھڑی ہوجاتی تھیں  تو کبھی بیٹھ جاتی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ایک جگہ کھڑے کھڑے اور بیٹھے بیٹھے بو رہورہی ہیں۔ 
ایک زمانے تک سردیوں میں اسی طرح انارے پر چھوٹے بڑے سب کے بال بنتے تھے۔ حجام صبح صبح سائیکل سے یا پیدل اپنا جھولا لئے آتا تھا اور دوپہر تک بال بناتا رہتا تھا، پورے محلے کے بچوں کے بال تراشتا تھا، سب سےزیا دہ شرمندگی وہ بچے محسوس کرتے تھے جن کے گھر والے ایک طرف سے ہر بچے کا ’ ٹکلا‘ بنانے یعنی سر منڈانے کا فرمان جاری کردیتے تھے۔ اس وقت کے بڑے بوڑھوں کے سامنے کسی نہیں چلتی تھی، امی اور دادی کی سفارش بھی کام نہیں  آتی تھی۔ وہ کہہ دیتے تھے کہ سب کو سر منڈانا ہے تو پھرکسی کی مجال نہیں تھی کہ اُس کی مخالفت کرے۔ ہوتا یہ تھا کہ کچھ بچے خوشی خوشی سر منڈاتے تھے، کچھ کسی طرح تیار ہی نہیں  ہوتے تھے۔ گھروالے کہتے تھے کہ ٹکلا بنوانے سے گردن موٹی ہوجاتی ہے اور اس کے بہت سے فائدے بتاتے تھے مگر اس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا، ایسے بچوں کیلئے سر منڈوانا کوئی بڑی بات نہیں  تھی لیکن سرمنڈوانے کے بعد اپنے دوستوں یاروں کا سامناکرنا ان کیلئے مشکل ہوتا تھا، کیونکہ سر منڈوانے کے بعد’کھٹکا ‘مارنا عام تھا، کھٹکا کو ٹپو بھی کہتے ہیں۔ یہ انگلیوں  کی مدد سے سر پرمارا جاتا ہے، کبھی سیدھی انگلی سے تو کبھی انگلیاں دہری کرکے۔ سردیوں میں  ٹوپی سے سر چھپالیا جاتا ہے لیکن گرمیوں  میں سر بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ سرمنڈاتے ہی اولے تو نہیں لیکن کھٹکے خوب برستے تھے، سر منڈانے والا تنگ آجاتا تھا، سرمنڈانے سے پہلے بال خوب تر کیا جاتا ہے، تاکہ پانی جڑ تک چلا جائے، اس کے بعد اُستر ا چلتا ہے تو رکتا ہی نہیں   ہے۔ اس کالم نگار کے پڑوسی گاؤں کے ایک حجام دو چار استرے چلا کر تبصرے بھی کرتے تھے، ’’ بہت اچھا ٹکلا اترا ہے، ما شاء اللہ کتنا بہترین ٹکلا ہے ؟ تورا بابو، پو ڈر لگائے کے نکلبے تو چمکی ... چار لوگ دیکھہین۔ ‘‘ (تمہارا بہت اچھا ٹکلا بن رہا ہے۔ ماشاء اللہ کتنا بہترین ٹکلا ہے آپ کا بابو، پاؤ ڈر لگا کر نکلیں گے تو چمکے گا، چار لوگ دیکھیں گے۔ ) اس طرح بہلا پھسلا کر خالی سر گھربھیج دیتے تھے یہ ان کی مہارت تھی۔ وہ یہ بھی سکھاتے تھے کہ کوئی کھٹکا مارے تو ایک دو دن کچھ مت کہنا، جب بال سخت ہوجائے گا تو اپنا سر اس کےمنہ پر رگڑ دینا، کوئی ہمت نہیں کرے گا۔ اس انارے پر بال ہی نہیں  بنتا تھا، برادران وطن کی شادیاں بھی ہوتی تھیں۔ پوجا پاٹ کی رسم ہوتی تھی، ناچ گانا ہوتاتھا، ڈھول تاشے بجتے تھے۔ بند ر اور بھالو نچانے والا بھی اسی انارے ہی پر رکتاتھا۔ گڑ کی پٹی بیچنے والے کا ٹھکا نہ بھی یہی تھا۔ سچ پوچھئے تو یہ انارا گاؤں کی بہت سی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK