Inquilab Logo

احساس عمل کی چنگاری ’گر‘ دِل میں فروزاں ہوجائے

Updated: May 06, 2023, 10:16 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ لڑکے لڑکیاں چاہے غریب گھر کے ہوں یا خوشحال خاندانوں کے، اُنہیں تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔ اب یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ انہیں کریئر بنانا چاہئے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

یوپی پبلک سروس کمیشن کے امتحانات برائے ۲۰۲۲ء کے نتائج بتاتے ہیں کہ ڈپٹی کلکٹر کیلئے ۳۹؍ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کیلئے ۹۳؍ نوجوانوں کو منتخب کیا گیا ہے۔ ڈپٹی کلکٹر کیلئے منتخب ہونے والے ۳۹؍ نوجوانوں میں ۳؍ مسلم (تینوں لڑکیاں) جبکہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کیلئے منتخب ہونے والے ۹۳؍ نوجوانوں میں ۸؍ مسلم (۵؍ لڑکیاں اور تین لڑکے) ہیں۔ اگر دونوں مناصب کیلئے منتخب ہونے والے مسلم نوجوانوں کی فہرست پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ۸؍ میں ۵؍ لڑکیاں اور ۳؍ لڑکے ہیں۔ اگر آٹھ کی آٹھ  لڑکیاںہوتیں تب بھی یہ اَمر باعث حیرت نہ ہوتا کیونکہ لڑکیاں ہی پڑھ رہی ہیں، ہدف کو پارہی ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ اسکول کی سطح کے نتائج کا جائزہ لیجئے، کالج کے رزلٹ پر غور کیجئے یا اعلیٰ پیشہ جاتی اداروں کے کامیاب طلبہ کی فہرست کو سامنے رکھئے، لڑکیاں ہی سبقت لے جاتی ہوئی نظر آئینگی۔ 
 یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر سال دسویں کے بورڈ امتحانات، بارہویں کے بورڈ امتحانات اور کالج کے اکزامس کے نتائج سے یہی تصویر اُبھرتی ہے۔ یہ صورت حال صرف مسلمانوں میں نہیں ہے، دیگر اقوام میں بھی کم و بیش یہی کیفیت ہے مگر دیگر اقوام میں اور مسلمانوں میں فرق اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ 
 دیگر اقوام کی لڑکیاں جتنا چاہتی ہیں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور پھر تعلیم کے ذریعہ جو کچھ حاصل کیا اُسے بروئے کار لاتے ہوئے کسی عہدہ یا منصب تک پہنچتی ہیں۔ مسلم لڑکیاں عموماً گھر گرہستی میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی محاذ پر بھلے ہی دیگر اقوام کی لڑکیوں اور مسلم لڑکیوں میں زیادہ فرق نہ ہو، کریئر بنانے کے معاملے میں واضح فرق ہے۔ دیگر اقوام کی لڑکیاں کریئر بناتی ہیں، مسلم لڑکیوں کی اکثریت کریئر نہیں بناتی، خواہ ایسا قصداً ہوتا ہو یا مجبوراً ۔ تشویش یہاں پیدا ہوتی ہے۔ 
 کوئی قوم بااثر اُس وقت بنتی ہے جب اُس میں بااثر لوگ پیدا ہوتے ہیں اور اِکا دُکا نہ رہ کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ بااثری اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب قوم میں کلکٹر، جج، ماہر قانون، ماہر شماریات، ماہر اقتصادیات اور دیگر طرح کے افراد پیدا ہوتے ہیں اور مختلف اداروں سے وابستہ ہوکر اپنا نقش قائم کرتے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت پر بجا طور پر ناز کرتے ہیں۔ جب یہ تعداد بڑھتی ہے تو موجودگی جگہ جگہ دکھائی دیتی ہے ۔ تب یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ ہم ملک کا اثاثہ ہیں، ملک پر بوجھ نہیں ہیں۔ اگر ہمارے لڑکے پڑھیں گے نہیں اور لڑکیوں کو کریئر سازی کا موقع نہیں ملے گا تو کسی بھی بڑے ادارے اور محکمے میں آپ کو مسلمان خال خال ہی دکھائی دیں گے۔ آزادی کے بعد سے ہمارے یہاں یہی صورت حال ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے بھی یہی کہا تھا۔ 
 ہر جگہ ہماری نمائندگی اس لئے کم ہے کہ جو لڑکے کریئر بناسکتے ہیں، وہ پڑھائی لکھائی میں دلچسپی نہیں لیتے، درمیان ہی میں سلسلۂ تعلیم منقطع کردیتے ہیں، چھوٹا موٹا کاروبار اختیار کرلیتے ہیں اور اسی کو اپنی معراج سمجھتے ہیں۔ اس کے برخلاف لڑکیاں پڑھائی لکھائی میں ازحد سنجیدہ ہوتی ہیں مگر کریئر نہیں بناتیں۔ اس کی وجہ سے ماحول میں ایک طرح کا جمود پیدا ہوگیا ہے۔ ترقی کے راستے مسدود ہوگئے ہیں۔ الگ الگ اداروں میں ہماری نمائندگی یقینی نہیں ہوپارہی ہے۔ اس جمود کو توڑنے کے دو ہی راستے ہیں:
 (۱) لڑکوں کو پڑھائی لکھائی میں دلچسپی دلائی جائے، ترغیب دی جائے، بااثر بننے کی اہمیت اور ضرورت کا احساس دلایا جائے، سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے حوالے سے سمجھایا جائے، بے اثری کی زندگی اور بااثری کی زندگی کا فرق ذہن نشین کرایا جائے اور اچھے سے اچھا کریئر بنانے پر آمادہ کیا جائے۔ اُنہیں کریئر کے ایسے متبادلات کی طرف راغب کیا جائے جن کے ذریعہ قابل رشک منصب اور اختیار حاصل ہوتا ہے۔
 (۲) اگر یہ بہت مشکل ہے تو لڑکیوں کو کریئر سازی کا زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے۔ ہمارا معاشرہ لڑکیوں کو موقع دیتا بھی ہے تو صرف ڈاکٹر یا ٹیچر بننے کا۔ اس سے زیادہ نہیں۔ جو لڑکی ڈاکٹر بن کر اسپتال جاسکتی ہے وہ سائنٹسٹ بن کر کسی سائنسی تجربہ گاہ بھی تو جاسکتی ہے، دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ جو لڑکی ٹیچر بن کر اسکول جاسکتی ہے وہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں بیک آفس جاب کیلئے منتخب ہوکر آفس بھی جاسکتی ہے۔ اگر وہ اصرار کرے اور ٹیچر ہی رہنا چاہے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں، صرف اتنا کرلے کہ مقابلہ جاتی امتحان کے ذریعہ ڈیفنس میں بحیثیت معلم مامور ہوجائے۔ 
 یہ دو راستے ہیں۔ بہتر اور خوش آئند تو یہ ہوگا کہ لڑکے بھی پڑھیں، بااثر بننے کی کوشش کریں اور قابل رشک مناصب پر فائز ہوں۔ اس کے ساتھ ہی لڑکیاں، جو تعلیمی مسابقت میں آگے ہی نہیں بہت آگے ہیں، اُنہیں بھی کریئر بنانے کی اجازت ملے، کریئر کیلئے اُن کی حوصلہ افزائی ہو اور اُن کے ذریعہ منظرنامہ تبدیل ہو، مسلم نمائندگی میں اضافہ ہو اور قوم کی بے اثری بتدریج کم ہو۔ 
 آج اگر یوپی پبلک سروس کمیشن میں سلطنت پروین، محسنہ بانو، فرحین زاہد (ڈپٹی کلکٹر کیلئے منتخب) اور اسماء وقار اور ریشماء آرا ( ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کیلئے منتخب) پر ہر خاص و عام فخر کررہا ہے تو فخر کرنے کا موقع وہ بچیاں بھی فراہم کرسکتی ہیں جو ہمارے آس پاس ہیں، اپنے اسکول میں، اپنے کالج میں، اپنے خاندان میں، اپنے محلے میں، اپنے شہر میں اور جہاں جہاں تک ہماری رسائی ہے وہاں وہاں تک بچیوں کو ترغیب دی جائے کہ دیکھو تم بھی سلطنت پروین ہو، محسنہ بانو ہو اور فرحین زاہد ہو۔ یہ بہت ہائی فائی خاندانوں کی بچیاں نہیں ہیں۔ سلطنت پروین کے والد جنرل اسٹور چلاتے ہیں۔ محسنہ کے والد کی پان کی دُکان ہے۔ آج لوگ باگ جنرل اسٹور پر رُک کر شمیم خان کو سلطنت کی کامیابی پر اور پان کی دُکان پر ٹھہر کر اِکرام خان کو محسنہ کی کامیابی پر مبارکباد پیش کررہے ہیں، اُن کے گھروں پر میڈیا والے تسلسل کے ساتھ دستک دے رہے ہیں اور اُن کے انٹرویوز یوٹیوب پر لاکھوں صارفین دیکھ چکے ہیں۔وقت آگیا ہے کہ مزید وقت نہ گنوایا جائے، کچھ کیا جائے جو ٹھوس ہو اور نتیجہ خیز ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK