Inquilab Logo

یہ دل کا معاملہ ہے کوئی دل لگی نہیں

Updated: December 15, 2022, 11:24 AM IST | Khalid Sheikh | Mumbai

فی زمانہ یہ دیکھا گیا ہے کہ نوجوان طبقہ اور ۵۰؍ سال سے کم عمر کے لوگ باڈی بلڈنگ کے جنون میں جلداز جلد مضبوط اور گٹھیلا جسم بنانےکیلئے تمام احتیاط کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور سخت قسم کی ورزش سے اپنے جسم پر اتنا دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

آپ  ہم سبھی جانتے ہیں کہ صحتمندرہنے کیلئے ورزش بے حد ضروری ہوتی ہے جو ایک طرف ہمیں بیماریوں سے بچانے ، وزن گھٹانے ، بے چینی اور افسردگی سے نمٹنے اور دل کی بہتر کارکردگی میں معاون ثابت ہوتی ہے تو دوسری طرف انسان میں خوداعتمادی پیدا کرتی ہے۔ وہ خود کو پرسکون ، مطمئن اور فِٹ محسوس کرتا ہے۔ ماہرین صحت کی رائے ہے کہ ورزش کی ابتدا ہلکی پھلکی ورزش سے کرنا چاہئے اور پھر سخت قسم کی ورزشوں سے اس کی رفتار بتدریج اس حد تک بڑھانی چاہئے کہ دل اور سانس کی رفتار تیز ہوجائے لیکن  بے دم ہونے کی نوبت نہ آئے ورنہ اُس سے دل کی حرکت اور کارکردگی متاثر ہوگی اور ورزش سے فائدے کے بجائے نقصان ہوگا۔ ماہرین قلب اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جس طرح ہر شخص کے دل کی سائز اور ہئیت مختلف ہوتی ہے اسی طرح ایک جیسی محسوس ہونے والی دل کی دھڑکن یا حرکت بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ دل کی حرکت پر آپ کے جذبات کاگہرا اثر پڑتا ہے۔ گھبراہٹ یا خوف کے عالم میں یا ذہنی تناؤ یا دباؤ کی صورت میں دِل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے جبکہ سکون اور اطمینان کی حالت میں معمول پر ہوتی ہے ۔ مؤخر الذکر حالت میں دل کی دھڑکن  فی منٹ ۶۰؍ سے ۱۰۰؍ کے درمیان ہوتی ہے۔ ایک صحتمند اور محنتی انسان کے لئے ۶۰؍ کی رفتار نارمل سمجھی جاتی ہے لیکن اگراس سےکم ہوتو اسے دھیمی رفتار والا دل قراردیاجاتا ہے۔ طبی اصطلاح میں اسے Bradycardiaکہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آکسیجن سے بھرپور خون  کی جو  مقدار آپ کے دماغ اور جسم کو  پہنچنی چاہئے، نہیں پہنچ رہی ہے جس سے آپ تکان ، دوران سر (چکر) یادداشت کی کمزو ری ، سینے میں درد اور سانس کی تکلیف کا شکار ہوسکتے ہیں۔ دل کی دھیمی رفتار کا دوسرا سبب بڑھتی عمر، دل کے خلیوں کی کمزوری ، ٹمپریچر، موٹاپا اور سگریٹ نوشی بھی ہوسکتا ہے۔
  دل کی دھیمی رفتار کے برعکس اگر فی منٹ رفتار ۱۰۰؍ سے زائد ہوتو طبی اصطلاح میں اسے Tachy  Cardia کہتے ہیں۔ اس کا انحصار فرد کی عمر اور صحت پر ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں میں اس کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی  لیکن معلوم ہونے پر اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا گیا تو آگے چل کر  ہارٹ فیل ، فالج  اور ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہےیااچانک موت ہوسکتی ہے۔ ۱۰۰؍ سے  زیادہ  کی دھڑکن اس بات کا اشاریہ ے کہ آپ کا دل پمپنگ کے ذریعے آپ کے جسم کو آکسیجن بھرا خون نہیںپہنچا پارہا ہے۔ اس سے آپ پر غشی طاری ہوسکتی ہے ، نبض کی رفتار تیز ہوسکتی ہے، آپ بہکی بہکی باتیں کرسکتے ہیں،سینے میں درد ہوسکتا ہے اور سانس لینے میں تکلیف ہوسکتی ہے۔ سینے میں درد کے ذکر پر ہمیں ایک واقعہ یاد آگیا۔ ہمارے  ایک دوست کھانے پینے کے بے حد شوقین تھے۔ ایک شادی کے موقع پر انہوںنے خوب دَبا کر کھایا ۔ سینے میں تکلیف محسوس ہوئی تو ڈاکٹر سے رجوع ہوئے۔ جانچ کے بعد ڈاکٹر نے اس کی وجہ ایسیڈٹی بتائی اور دوائیں دیں جن سے ہمارے دوست کو آرام ملا۔ اس کے بعد جب بھی انہیں سینے میں درد اٹھتا وہ ایسیڈٹی کی گولی کھالیتے جس سے وقتی طورپر انہیں راحت مل جاتی لیکن ایک بار اتنا شدیددرد اٹھا کہ اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ٹیکسی میں ان کی موت ہوگئی۔ اس واقعہ کو دہرانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ امراض قلب کے ڈر سے ڈاکٹروں کےپاس جانے سے گھبراتے ہیں، اس لئے سینے میں درد کی شکایت کو سرسری سے نہیں لینا چاہئے اور خود علاجی سے گریز کرنا چاہئے۔
 معاملہ قلب کی دھیمی رفتار کا ہویا تیز رفتاری کا، دونوں صورتیں آپ کی بگڑتی صحت کی غماز ہیں ۔ اس لئے فوری طورپر ڈاکٹر سے رجوع کریں کیونکہ تاخیر نئی مشکلات کھڑی کرسکتی ہے اور خون کے گاڑھے پن اور ہارٹ فیل جیسی پیچیدگیاں پیدا کرسکتی ہے۔
 ہم نے مضمون کا آغاز ورزش کے فائدوں سے کیا تھا جو جسمانی اعضاء کو قوت پہنچاتی ہے، صحت پر اچھا اثر ڈالتی ہے  اور قلب کی برقی قوتِ محرکہ کو بڑھاتی ہے بشرطیکہ اسے اعتدال میں رہ کر کیاجائے۔ فی زمانہ یہ دیکھا گیا ہے کہ نوجوان طبقہ اور ۵۰؍ سال سے کم عمر کے لوگ باڈی بلڈنگ کے جنون میں جلداز جلد مضبوط اور گٹھیلا جسم بنانے کیلئے تمام احتیاط کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور سخت قسم کی ورزش سے اپنے جسم پر اتنا دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ  فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کا اثر جسم کے تمام اعضا سمیت قلب پربھی پڑتا ہے۔ چنانچہ ان میں سے کئی امراض قلب اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اورکچھ ہارٹ اٹیک کی بنا پر ایں جہانی سے آنجہانی ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دوسال میں ایسی کئی مشہور ومعروف شخصیتیں  دنیا سے اٹھ گئیں۔ یہاں ایک  غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ امراض قلب کے ماہرین بتاتےہیں کہ ہرتگڑے اور مضبوط بدن کے اندردھڑکنے والادِل اتنا ہی مضبوط ہو، یہ ضروری نہیں۔  ان کی  رائے ہے کہ باڈی بلڈنگ کے جنونیوں اور بالخصوص ۴۰؍ سال سے زائد عمر والوںکوجمنا شیم میں قدم رکھنے سے پہلے اپنے قلب اور صحت کا مکمل چیک اپ کرانا چاہئے تاکہ بعد میں لینے کے دینے نہ پڑجائیں۔ ڈاکٹر حضرات ان معروف ہستیوں کی موت کی بنیاد ی وجہ ذہنی تناؤ، دباؤ اور ذہنی صحت سے متعلق دوسرے ایشوزکے سا تھ ’’ٹریڈ مل ‘‘پر چلنے اور بہت زیادہ وزن اٹھانے کو بتاتے ہیں  جن کا قلب پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ تمام مرنے والوں کی عمریں ۶۰؍ اور ۵۰؍ سال سے کم تھیں۔ امسال ۱۰؍ اگست کو مشہور کامیڈین راجو سریواستو جمناشیم میں ورزش کرتے ہوئے گر پڑے۔انہیں دہلی کے ایمس اسپتال میں داخل کیا گیا۔ ۴۳؍ روزہ کشمکش کے بعد ان کی موت ہوگئی۔ ان کی عمر ۵۸؍ سال تھی۔ مرنے والوں میں سب سے کم عمر سدھارتھ شکلا تھے جن کی عمر صرف ۴۰؍ سال تھی۔ ۱۱؍ نومبر کو ٹی وی ایکٹر سدھانت ویر سوریہ ونشی کی  جِم میں ورزش کرتے ہوئے موت ہوگئی۔ اِن سے قطع نظریہ بھی دیکھا گیا ہے کہ امراض قلب اور ہارٹ اٹیک کا شکار وہ نوجوان طبقہ بھی نظر آتا ہےجس نے جمناشیم کا منہ تک نہیں دیکھا۔ کارڈیولوجسٹ اسے لائف اسٹائل سے تعبیر کرتے ہیں اوراس کی وجہ کھانے پینے میں بداحتیاطی ، سگریٹ وشراب نوشی ، نیند کی کمی وغیرہ بتاتے ہیں جن سے ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں اورانجام ہارٹ اٹیک پرہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK