Inquilab Logo

یہ جو ربط رو‘ بہ زوال ہے، یہ سوال ہے

Updated: March 18, 2023, 10:17 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

اکیسویں صدی میں بہت سے رجحانات ایسے ہیں جن کی ستائش کی جاسکتی ہے مگر کئی رجحانات تشویش میں مبتلا کرنے والے ہیں، مثلاً، افراد کا ایک دوسرے سے رابطہ۔ یہ روز بہ روز کم ہورہا ہے، بے اعتنائی بڑھ رہی ہے جو یقیناً بے دِلی اور بے حسی کو جنم دے رہی ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

دُنیا گلوبل ولیج ہے مگر سماجی اور سیاسی سطح پر یہ اتنے خانوں میں بٹی ہوئی ہے اور اس میں اتنی دیواریں ہیں کہ خدا کی پناہ۔ لوگ مل رہے ہیں، مصافحہ و معانقہ کررہے ہیں، مذاکرات کررہے ہیں اور خوش و خرم نظر آرہے ہیں مگر دلوں کے بیچ بڑی دوریاں ہیں۔ جو جس سے جتنا قریب ہے ممکن ہے وہ اُس سے اُتنا ہی دور ہو۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ جام ٹکراتے ہیں تو آواز پیدا ہوتی ہے، مفادات ٹکراتے ہیں تو آواز نہیںہوتی اس لئے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ کہاں کہاں مفادات ٹکرا رہے ہیں اور اس بے آواز ٹکراؤ کی وجہ سے دلوں اور ذہنوں میں کتنا ارتعاش ہے اور سنائی نہ دینے والا کتنا شور برپا ہے۔ 
 عجیب و غریب بات یہ ہے کہ جہاں مفادات نہیں ٹکرا رہے ہیں دوریاں وہاں بھی ہیں۔ یہ ذہنی دوریاں ہیں۔ اب سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر چند احباب کسی دیہات میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اُن کے سامنے دور دور تک چراگاہ پھیلی ہوئی ہے تو سب کے ذہنوں میں وہ چراگاہ ہوتی تھی۔ اب نہیں ہوتی کیونکہ اب چراگاہ حد نظر تک پھیلی ہوئی ہو تب بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کون چراگاہ کو دیکھ رہا ہے اور اس کے بارے میں سوچ رہا ہے اور کون نہیں۔ موجودہ دُنیا نے دور دور تک موضوعات پھیلا دیئے ہیں۔ کون کہاں سے کس موضوع کو منتخب کر رہا ہے اور کس دُنیا میں کھو جاتا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ ممکن ہے کہ جو شخص دیہات میں بیٹھا ہوا ہے وہ جسمانی طور پر ہی وہاں ہو، ذہنی اور روحانی طور پر وہاں سے ہزاروں کلومیٹر دور کی کسی دُنیا میں سانس لے رہا ہو؟ انٹرنیٹ نے دُنیا کو مختصر بنادیا مگر انسان کے سامنے اتنی دُنیائیں پھیلا دی ہیں کہ یہ معلوم کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ کون، کس دُنیا کے کس حصے میں ہے۔ نوعمروں کا بھی یہی حال ہے۔
 مجھے چند روز قبل ایک ٹیچر نے بتایا کہ اِن دنوں نوعمر لڑکے لڑکیوں میں جنوبی کوریا کا ’’کے ۔پاپ‘‘ (K-pop) غیر معمولی طور پر مقبول ہے۔ یہ جان کر مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کیونکہ یہ جس معاشرہ کا قصہ ہے اُس میں مَیں بھی رہتا ہوں اور الگ تھلگ نہیں رہتا۔ معاشرہ سے مربوط رہتا ہوں۔ اس کے باوجود مجھے اس نئے رجحان کا علم نہیں تھا جبکہ صحافت سے وابستہ ہونے کے سبب مَیں دن بھر خبروں سے گھرا ہوا بھی رہتا ہوں۔ 
  یہاں اس المیے کو محسوس کرنا ضروری ہے کہ یہ بے خبری یا لاعلمی اُس دور میں ہے جب خبریں دیکھتے دیکھتے، سنتے سنتے اور پڑھتے پڑھتے آنکھیں، ذہن، اُنگلیاں سب تھک جاتے ہیں مگر خبریں ختم نہیں ہوتیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ خبریں، باخبری سے زیادہ بے خبری کو فروغ دے رہی ہیں۔ جو آپ کو جاننا چاہئے وہ خبروںمیں نہیں ہوتا۔ خبروں میں وہ ہوتا ہے جس کا جاننا ضروری نہیں مثلاً کسی اداکارہ کی شادی ہونے جارہی ہے تو اس کا لباس کیسا ہے، ڈیزائنر کون ہے، بناؤ سنگھار کے اسباب میں کیا کیا ہے، کہاں سے کیا لایا گیا ہے، کب کا مہورت ہے، مہمانوں میں کون کون ہے اور اس کا بناؤ سنگھار کیسا ہے۔ موجودہ دَور میں یہ سب ہورہا ہے۔ بہت سوں نے ’’ناخبر‘‘ کو ’’خبر‘‘ سمجھ لیا ہے اور وہی پڑھ یا دیکھ رہے ہیں۔ ذرا سوچئے بے شمار خبروں کے باوجود بے خبری کتنی اضطراب انگیز ہے! 
 مذکورہ ٹیچر سے ’’کے ۔پاپ‘‘ کے بارے میں سننے کے بعد مَیں نے تھوڑی بہت ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ نوعمروں کا ایک گروپ ’’بی ٹی ایس‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہی گروپ ہمارے یہاں بے حد مقبول ہے۔ گروپ کے افراد کی حرکات و سکنات، پہناوا اور ایک ایک چیز میں ان کا اندازِ تکمیلیت (پرفیکشن) نوعمروں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ اس سے محظوظ ہونے کا رجحان صرف ہندوستان میں عام نہیں ہوا، دیگر ملکوں میں بھی مقبول ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پوری دُنیا میں ’’بی ٹی ایس‘‘ کے ایک کروڑ پچاس لاکھ فالووَرس ہیں۔ یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ اس میں ہندوستانی کتنے ہیں مگر اندازہ یہ ہے کہ کافی بڑی تعداد میں ہونگے۔ اگر اس کی شہرت ممبئی کے مسلم محلوں تک پہنچ سکتی ہے تو یقیناً اس کا جلوہ دور دور تک ہوگا۔ اگر یہ صرف نوعمروں کو لبھانے والی فنی پیشکش نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ ہر عمر کے لوگوں کی شمولیت اس گروپ کی مقبولیت کو عرش پر پہنچا دیتی۔
 ابھی تک مَیں نے اتنی ریسرچ نہیں کی ہے کہ ’’کے پاپ‘‘ کے مفید یا مضر ہونے کے بارے میں کچھ کہہ سکوں، اس کے باوجود اِس مضمون میں اس کا تذکرہ دعوے کی دلیل پیش کرنے کے مقصد سے کیا گیا۔ دعویٰ یہ تھا کہ ہم ایک جگہ رہتے ہوئے بھی بہت سی الگ الگ دُنیاؤں میں رہتے ہیں۔ اس کی دلیل ’’بی ٹی ایس‘‘ ہے جو ہمارے محلوں اور نوعمروں میں مقبول ہے اور ہم اس کے بارے میں نہیں جانتے کیونکہ ہماری دُنیا الگ ہے، لڑکے لڑکیوں کی دُنیا الگ۔ وہ ہماری نگاہ کے سامنے اور ہم اُن کی نگاہوں کے سامنے ہیں مگر نہ تو وہ جانتے ہیں کہ ہم کس دُنیا میں ہیں اور ہمارے ذہن میں کیا چل رہا ہے نہ ہی ہمیں علم ہے کہ وہ کون سی دُنیا میں ہیں اور اُن کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ اتنی دوری اور ایسی بے اعتنائی ماضی کے کسی دور میں نہیں تھی۔ اس کا مشاہدہ ہم سب کرتے آئے ہیں۔ ایک گھر کے ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگ جسمانی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہونے کے باوجود ذہنی طور پر ایک دوسرے سے بہت دور ہوتے ہیں کیونکہ ہر ایک کی نگاہیں موبائل اسکرین پر مرکوز ہوتی ہیں اور ہر موبائل اسکرین پر ایک الگ دُنیا اپنی رعنائیاں بکھیرتی ہے۔ اگر ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے افراد کے موبائل اسکرینوں کا جائزہ لیا جائے تو اس کا ثبوت بآسانی مل جائیگا۔
 ثابت ہوا کہ گلوبل ولیج، ولیج کی طرح مربوط نہیں ہے کیونکہ اس میں لاکھوں کروڑوں دُنیائیں ہیں، ہر دُنیا کی اپنی آبادی ہے، ہر آبادی کا اپنا مزاج ہے جو تیزی سے بدلتا ہے۔ اسی لئے ماہرین نے عمر کے اعتبار سے آبادی کی درجہ بندی کردی اور ہر درجہ کو نام دے دیا۔ ملینیل، جنریشن زیڈ، جنریشن ایکس اور بومرس۔ ملینیل ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۶ء کے درمیان، جنریشن زیڈ ۱۹۹۷ء کے بعد اور جنریشن ایکس ۱۹۶۵ء تا ۱۹۸۰ء پیدا ہونے والی نسل ہے۔ بومرس وہ ہیں جو بزرگ ہوچکے ہیں۔ ملینیل کی دُنیا الگ ہے جنریشن زیڈ کی الگ۔ جنریشن ایکس اور بومرس کی بھی الگ الگ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK