اُردو میں نئے الفاظ کی کمی اکثر اوقات کھٹکتی ہے۔ اصطلاحیں نہیں ہیں، متبادلات نہیں ہیں، ہر شے کو انگریزی نام کے ساتھ قبول کرناعام ہوگیا ہے۔ زبانِ اُردو کو اس کا غم ہے مگر کون ہے جو اِس بے چاری کی فریاد سنے؟
EPAPER
Updated: November 18, 2023, 1:05 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
اُردو میں نئے الفاظ کی کمی اکثر اوقات کھٹکتی ہے۔ اصطلاحیں نہیں ہیں، متبادلات نہیں ہیں، ہر شے کو انگریزی نام کے ساتھ قبول کرناعام ہوگیا ہے۔ زبانِ اُردو کو اس کا غم ہے مگر کون ہے جو اِس بے چاری کی فریاد سنے؟
دی نیویارک ٹائمس روزانہ ایک لفظ اس تفصیل کے ساتھ شائع کرتا ہے کہ اُس لفظ کا معنی کیا ہے، لفظ فعل ہے یا اسم یا کچھ اور، اُس کا تلفظ کس طرح ادا کیا جاتا ہے، اُس کا جملے میں طریقۂ استعمال کیا ہے اور وہ لفظ ایک سال کے عرصہ میں اخبار ِ مذکور میں کتنی مرتبہ شائع ہوا۔
اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ کا یہ اخبار بھی قارئین کیلئے اس نوع کی خدمت انجام دیتاہے جس میں اُردو کے دو اور انگریزی کے دو الفاظ، تلفظ اور معنی کی تفصیل کے ساتھ روزانہ شائع کئے جاتے ہیں ۔ البتہ نیویارک ٹائمس نے ایک اہم سلسلہ جاری کیا ہے جو اپنے آپ میں نیا ہے۔ اس نے نوخیز طلبہ کو لفظ وضع کرنے، بنانے یا گڑھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسی صورت حال، تجربہ یا مشاہدہ جس کیلئے آپ کو تلاش ِ بسیار کے باوجود انگریزی لفظ نہ مل رہا ہو تو اُس کیلئے کوئی لفظ گڑھئے اور اخبار کو روانہ کیجئے۔ اس مقابلے کو Invent A Word Challengeنام دیا گیا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ نوخیز طلبہ کیلئے کسی صورت حال، تجربے یا مشاہدے کو پہلے تو محسوس کرنا مشکل، دوسرے محسوس کرلیا تو یہ فیصلہ کرناکہ اس کیلئے انگریزی میں لفظ نہیں ہے، اس سےبھی بڑی مشکل ہے۔ اس کے باوجود کئی ملکوں کے ۵۰۰؍ سے زیادہ طلبہ نے اس مقابلہ میں حصہ لیا۔ جس طالب علم کو اول انعام کیلئے منتخب کیا گیا اس کا نام ہے روحانہ خٹک (اسلام آباد، پاکستان)، دوم انعام کیلئے میلانا (روس) کو منتخب کیا گیا اور تیسرے انعام کیلئے محتشم سعادت (بنگلہ دیش) کا انتخاب عمل میں آیا۔ چونکہ مقابلے کا اہتمام کرنے والا اخبار نیویارک ٹائمس ہے اس لئے حیرت ہے کہ اول، دوم اور سوم انعام میں کسی امریکی طالب علم کا نام نہیں ہے؟ امریکی طالب علم چوتھے نمبر پر ہے جس کا نام ہے جینفر ڈیسانٹس۔ یہ اور ایسے تمام طلبہ کے خلق کئے ہوئے الفاظ کی تفصیل میں جانا مضمون کی طوالت کا باعث ہوگا اس لئے صرف اول انعام کے مستحق طالب علم کے ایجاد کئے ہوئے لفظ پر اکتفا کرلیں تو بہتر ہوگا۔ مگر لفظ سے پہلے یہ دیکھئے کہ اس نے کس معنی کی ادائیگی کیلئے لفظ گڑھنے کی زحمت اُٹھائی۔ طالب علم روحانہ خٹک کے مطابق اُس نے ایک ایسی صورت حال کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس میں ایک ارب پتی اس حقیقت سے چشم پوشی کرتا ہے کہ اس کے غیر معمولی دولت جمع کرنے کی وجہ سے سماج میں زبردست معاشی عدم مساوات اور نابرابری پیدا ہورہی ہے۔ طالب علم نے ایسے ارب پتی کیلئے جو لفظ خلق کیا وہ ہے: Oblivionaire۔ یہ لفظ انگریزی کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ پہلاہے Oblivion۔ اس کا معنی ہے ایسی صورت حال جس میں انسان اس حد تک غافل ہو کہ اُس پر بے ہوش ہونے یا گہری نیند میں ہونے کا شبہ ہو (انگلش اُردو ڈکشنری میں اس کیلئے بہتر اُردو متبادل فراموشگاری درج ہے)۔ جس دوسرے لفظ سے مذکورہ طالب علم نے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی وہ ہے Billionaireیعنی ارب پتی۔ اس طرح ایک نیا لفظ تخلیق ہوا ’’آبلینیئر‘‘ یعنی ایسا ارب پتی جو سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریوں سے بے حسی کی حد تک غافل ہو۔
مجھے یقین ہے کہ یہ لفظ پسند کیا جائیگا، اس کی تشہیر ہوگی، اس کا استعمال ہوگا اور جلد یا بہ دیر اسے انگریزی لغات میں شامل کرلیا جائیگا جیسا کہ انگریزی لغات والوں کا طریقہ ہے۔ ا س کے رواج پانے کا قوی امکان اس لئے بھی ہے کہ دورِ حاضر میں پوری دُنیا میں ایسے افراد کی تعداد روز افزوں ہے جو ارتکازِ دولت کے گناہگار ہیں اور یہ دیکھنے کے روادار نہیں ہیں کہ اُن کے اس گناہ نے کروڑوں لوگوں کو ناکردہ گناہی کی سزا سے دوچار کردیا ہے۔
اس پس منظر میں ممکن ہے اس مضمون کے قارئین یہ کہیں کہ ایسا مقابلہ اُردو اخبارات کو بھی منعقد کرنا چاہئے۔ اس کا جواب ہے کہ بلاشبہ یہ ہونا چاہئے مگر کیا اہل اُردو کو اس کی طلب اور ضرورت ہے؟ اُردو لغت سہمی سہمی سی، ناراض ناراض سی کہیں کہیں دھری ہوئی ہے، اُسے بھی اُلٹ پلٹ کر دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اُردو الفاظ روزانہ مررہے ہیں ۔ فوت ہورہے ہیں ۔ چلن سے باہر ہورہے ہیں مگر اس کی فکر کی فرصت تو کجا اس کا احساس بھی ختم ہوچکا ہے۔ ہمارا سرمایہ تلف ہورہا ہے اور ہم کسی اور ہی دُنیا میں کھوئے ہوئے ہیں ۔ نیا لفظ گڑھنا یا تخلیق کرنا تو دور کی بات ہے، جو پرانے الفاظ برسہا برس کی محنت و مشقت کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں اُن کے ساتھ بے اعتنائی کا ارتکاب کرنے والوں میں چھوٹا بڑا ، ادنیٰ اعلیٰ، خاص عام، تعلیم یافتہ غیر تعلیم یافتہ، اُردو سے روزگار حاصل کرنے والا یا اُردو سے محبت کا دعویٰ کرنے والا ہر شخص شامل ہے۔ اِس وقت جو نسل منصہ شہود پر ہے اُس تک جو اُردو الفاظ پہنچے ہیں وہ بعد کی نسل تک کہاں پہنچ رہے ہیں ؟ اس کو نہ تو کوئی خیانت سمجھتا ہے نہ ہی اپنےورثہ اور تہذیب سے بیگانگی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم تمام اہل اُردو کسی اور ہی دُنیا میں سانس لے رہے ہیں جس میں ہمیں نہ تو الفاظ کی ضرورت ہے نہ زبان کی، نہ ادب کی ضرورت ہے نہ تہذیب و ثقافت کی۔ جسے اُردو تہذیب کہا جاتا تھا کسی کو علم نہیں کہ وہ غریب کہا ں چلی گئی۔ مشاعرہ اُردو تہذیب کا مرکز کہلاتا تھا اب وہ معاشرہ جیسا ہوگیا ہے (جن مشاعروں میں ادبیت باقی ہے اُنہیں مستثنیٰ سمجھئے)۔ تمام حروف وہی ہیں اُنہیں بے ترتیب کرکے مشاعرہ کو معاشرہ اور معاشرہ کو مشاعرہ کرلیجئے اور دونوں کو ہم معنی سمجھئے۔ جتنی نفسانفسی معاشرہ میں ہے اُتنی ہی مشاعرہ میں ، جتنا انتشار معاشرہ میں اُتنا ہی مشاعرہ میں ہے۔کوئی مانے نہ مانے ہم لوگ بھی ایک طرح کے Oblivion یا فراموشگاری کی حالت میں ہیں ، جو نہیں ہیں وہ بلاشبہ قابل قدر اور لائق تعظیم ہیں ۔
انہی میں اِس اخبار کے ایک مخلص قاری شری کانت پٹوردھن صاحب ہیں جو سن رسیدگی کے باوجود جواں سال شائق اُردو ہیں ۔ گزشتہ دنوں دوران ِ گفتگو مَیں نے اُنہیں کچھ پڑھنے کا یہ کہتے ہوئے مشورہ دیا کہ یہ چیز آپ کو اُردو میں بھی مل جائیگی، ہندی میں بھی اور انگریزی میں بھی۔ اُنہوں نے موضوع کو الگ رکھتے ہوئے برجستہ کہاکہ جناب،پڑھنا ہوگا تو اُردو میں پڑھوں گا، کسی اور زبان میں کیوں پڑھوں ؟ یہ ہے اُردو کا جادو جو اِس طرح سر چڑھ کر بولتا ہے۔ پتہ نہیں ہمارا سر نہیں ہے یا ہم پر جادو بے اثر ہوچکا ہے۔