Inquilab Logo

مقدمہ چلائے بغیر قید میں رکھنے کا جبراور عمر خالد

Updated: August 13, 2023, 9:46 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

یہ بہت سے قیدیوں کا مسئلہ ہے۔ اُن پر مقدمہ چلتا ہے نہ اُنہیں ضمانت ملتی ہے۔ اِنہی میں شامل ہے طلبہ لیڈر کی حیثیت سے مشہور عمر خالد جس کی رہائی کی سفارش ایمنیسٹی انٹرنیشنل بھی کرچکا ہے۔

Umar Khalid
عمر خالد

چند روز پہلے مَیں نے عمر خالد کو، جو جیل میں ہیں، ایک خط ارسال کیا جو کچھ اس طرح تھا: ’’ڈیئر خالد، یہ مکتوب اس اعتراف کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ آپ نے موجودہ وقت میں اور اس سے پہلے بھی نہایت پُروقار طریقے سے حالات کا سامنا کیا۔ آپ کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ نئے ہندوستان کا نشان ِ امتیاز ہے (حالیہ برسوں کے واقعات میں، کیا ہورہا ہے اور کس کے ساتھ ہورہا ہے کو زیادہ وضاحت سے بیان کیا جاسکتا ہے)۔ یہ جو طرز عمل ہے اور اس کے خلاف کچھ کہنے سننے پر جس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُسے اب پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا جانے لگا ہے۔ اگر کوئی شخص نظریاتی مخالفین کی رہائی کے بارے میں کچھ کہے تو اسے مغلظات اور بے ہودہ تبصروںسے نوازا جاتا ہے۔ لیکن، ایسا منفی ردعمل ظاہر کرنے والوں کے مقابلے میں ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو بہی خواہی کا جذبہ اور آپ جن حالات سے گزر رہے ہیں اُن کا احساس رکھتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ میرے خیال میں یہ آپ کیلئے ایک طرح کا دلاسہ ہوگا۔ بہت سے لوگ کل بھی آپ کے ساتھ تھے اور آج بھی ہیں۔ 
 آپ کے اہل خانہ کے ساتھ ہم نے آپ کے کیس اور عدالتی سماعتوں کا بغور مشاہدہ اور مطالعہ کیا ہے اور جو کچھ بھی ہوا وہ کیسے ہوا وغیرہ (جس کی تفصیل لائیو لاء اور بار اینڈ بنچ نے تفصیل سے شائع ہے) کے پیش نظر آپ کے ساتھ ہمدردانہ جذبہ رکھتے ہیں۔ کیس میں دفاعی وکلاء کی جمعیت (ٹیم) غیر معمولی ہے بالخصوص ایڈوکیٹ تری دیپ پَیس۔ اتنی اچھی ٹیم کا دفاع پر مامور ہونا بھی آپ کیلئے باعث اطمینان ہونا چاہئے۔تاریخ شاہد ہے کہ ایسی تحریکات یا نظریات جو شدید نوعیت کے ہوتے ہیں وہ ایک عرصہ بعد بے اثر ہوجاتے ہیں یعنی اپنی اثر پزیری کھو دیتے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اِس وقت آپ حالات کو بدلتا ہوا دیکھ رہے ہونگے۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ آئندہ دس مہینوں میں خوشگوار تبدیلیاں رونما ہونگی بالخصوص سیاسی قیدیوں کیلئے۔ آپ کیلئے محبتیں اورنیک خواہشات: آکار پٹیل۔‘‘
 مَیں عمر خالد کو چند برس سے جانتا ہوں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی میٹنگوں میں اُنہیں مدعو کیا گیا تو وہ شریک ہوئے۔ حکومت، اس کی مشنری اور میڈیا کے ذریعہ کسی اور کو شاید اتنا نہیں ستایا گیا جتنا کہ عمر خالد کو ستایا جارہا ہے۔کچھ ہفتوں پہلے ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ٹویٹ کیا تھا: ’’مقدمہ چلائے بغیر ایک ہزار دِن سے عمر خالد جیل میں ہیں، اُنہیں ملک کے ایک خوفناک قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جبکہ وہ پُرامن طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔ اُنہیں فی الفور اور غیر مشروط طریقہ سے رِہا کیا جانا چاہئے۔‘‘ اِس ٹویٹ سے کچھ لوگوں کے پیٹ میں شدید درد اُٹھا اور اُنہوں نے ٹویٹر سے شکایت کی اور اس ٹویٹ کو ہٹانے کیلئے کہا۔ ٹویٹر نے اُن کی بات نہیں مانی مگر شکایت کنندگان کے ردعمل سے ثابت ہوا کہ ہمارے آس پاس کا ماحول کس قدر آلودہ ہوچکا ہے اور جو لوگ خرابیٔ مزید کا سبب بن رہے ہیں وہ جھوٹے پروپیگنڈہ کے کس حد تک اسیر ہیں۔ 
 عمر خالد کے دوستوں، اُن کے شناسا اور دیگر لوگوں نے جو اُنہیں اچھی طرح جانتے ہیں،یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ جس عمر خالد کو اتنا رگیدا جارہا ہے وہ کون ہے۔ ’’دی وائر‘‘ میں پروفیسر نندنی سندر نے لکھا کہ ’’جب عمر خالد جیسا کوئی مسلمان ’اپنی حد سے آگے بڑھتا ہے‘ تو اُس پر دُگنا مصیبت آتی ہے۔ ایک بٹے ہوئے سماج کے اُس تانے بانے میں جوآر ایس ایس نے بُنا ہے، ایسا جواں سال مسلم بھی لوگوں کی نگاہوں میں کھٹکتا ہے جو عام مسلم نوجوانوں سے مختلف ہو، گول ٹوپی نہ پہنتا ہو، روانی سے بولتا ہو اور اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہو اور جس نے سنگ بھوم میں ادیباسیوں کی تاریخ پر پی ایچ ڈی کی ہو۔ جب ایسا نوجوان ناپسندیدہ قرار دے دیا جاتا ہے تب اس جانب ہرگز توجہ نہیں دی جاتی کہ وہ کن تعمیری مقاصد کو پورا کرنا چاہتا ہے اور کتنا اچھا بولتا ہے۔ ہر کسی کی نظر اُس کی مذہبی شناخت ہی پر ٹکی رہتی ہے، یہ نظر پھر بہت سی باتیں تلاش کرنا چاہتی ہے اور ایسے نوجوان کو متشدد، ملک مخالف اور ہندوستانی مین اسٹریم کیلئے خطرہ باور کرانے لگتی ہے۔ یہ کتنی افسوسناک اور تشویشناک بات ہے کہ یہ نوجوان تین سال سے جیل میں ہے اور اُسے ضمانت نہیں مل رہی ہے۔ عمر خالد کی کہانی کو ’’آرٹیکل ۱۴؍ ڈاٹ کام‘‘ کیلئے لکھے گئے اپنے مضمون میں بیتوا شرما نے عمدگی سے بیان کیا ہے۔ اس مضمون کی سرخی تھی: ایک ہزار دن ہوگئے، جیل ہے بیل نہیں ہے جبکہ الزامات قطعی بے بنیاد ہیں۔‘‘ اپنے موجودہ اقتدار میں بی جے پی نے مخالفین کو قانونی جھمیلوں میں پھنسایا ہے بالخصوص مسلمانوں کو۔ 
 ۱۹۵۴ء میں اس پارٹی ( جن سنگھ) نے کہا تھا کہ وہ آئین کی پہلی ترمیم کو کالعدم قرار دینا چاہے گی جس کے ذریعہ آزادیٔ اظہار رائے کو دبایا گیا۔ اس ترمیم کی وجہ سے آزادیٔ اظہار رائے بڑی حد تک متاثر ہوئی تھی کیونکہ جو ’’معقول پابندیاں‘‘ عائد کی گئی تھیں وہ معقول کی حدود سے بڑھی ہوئی تھیں۔ لیکن، ۱۹۵۴ء کے بعد سے     یہ مطالبہ کہ آئین کی پہلی ترمیم کو کالعدم کیا جائے، جن سنگھ کے انتخابی منشور سے غائب ہوگیا۔ اس نے احتیاطی گرفتاری کے قانون کو بھی ختم کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا۔ اس سلسلے کا اعلان ۱۹۵۰ء کی دہائی میں بار بار سنا گیا مگر ۱۹۶۷ء میں اس نے پینترا بدلا اور کہا کہ اس بات کی کوشش کی جائیگی کہ شرپسند عناصر بنیادی حقوق سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہ کریں۔ ایسے تو سنگھ اور بی جے پی احتیاطی حراست کے پُرجوش حامی رہے ہیں مگر جب وہ اپوزیشن میں رہے تب انہوں نے اس کی مخالفت کی۔
 اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ جن سنگھ خوفناک قانون (جیسے یواے پی اے) کا مخالف تھا ۔ وہ اسے فرد کی آزادی کے خلاف سمجھتا تھا مگر ۱۹۶۷ء میں اس نے جو موقف بدلا اُس پر آج تک قائم ہے یعنی عمر خالد جیسے لوگوں کیلئے فرد کی آزادی کے قانون کا مخالف۔ یہ دُہرا معیار ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ حکومت نے اتنا سخت قانون بنایا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ عمر خالد کو ضمانت تک نہیں مل رہی ہے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK