Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۸)

Updated: June 24, 2024, 11:52 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

زبان و شعر کی اصلاح کےساتھ دلوں کی اصلاح کرنےوالے خانقاہ نشین شاعر مرزا مظہر جانجاناں کی تصوف کے رنگ میں ڈوبی غزل کا تجزیہ اور تفہیم۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

مرزا مظہر جانجاناں خانقاہ نشین تھے۔ انہوں نے زبان اور شعر کی اصلاح کرنے کے علاوہ دلوں کی بھی اصلاح کی ہے۔ آزادبلگرامی کی فرمائش پر’’ تذکرہ ٔ سرو آزاد‘‘ کے لئے اپنے حالات خود سپرد قلم کئے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نام جانجاناں ، والد کا نام مرزا جان اور تخلص مظہر تھا۔ اٹھائیس واسطوں سے انکا سلسلہ ٔ نسب محمد بن حنفیہ سے ہوتا ہوا حضرت علیؓ مرتضیٰ تک پہنچتا ہے۔ مزید معلومات شعراء کے تذکروں اور خود ان کے خطوط سے ہوتی ہے۔ ان کا فارسی کلام ’ دیوان مظہر‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ’ خریطہ ٔ جواہر‘ فارسی شعراء کے کلام کا انتخاب ہے۔ اردو کلام مختلف تذکروں میں بکھرا ہوا تھا جس کو عبدالرزاق قریشی نے یکجا کردیا ہے۔ کچھ بہت مشہور شعر یہ ہیں۔ 
(۱) لوگ کہتے ہیں مرگیا مظہر
فی الحقیقت میں گھر گیا مظہر
(۲) آتش کہو، شرارہ کہو کوئلا کہو
مت اس ستارہ سوختہ کو دل کہا کرو
(۳)یہ دل کب عشق کےقابل رہا ہے 
کہاں ہم کو دماغ و دل رہا ہے 
(۴)خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے
(۵)برگ حنا اوپر لکھو احوال دل مرا
شاید کبھی تو جا ہی لگے دل ربا کے ہاتھ 
 مرزا کی زندگی میں انسان کے تکمیل اخلاق، تزکیہ ٔ نفس اور زبان وفن کی اصلاح کی کوششیں اس طرح پیوست ہیں کہ ان کو الگ نہیں کیاجاسکتا۔ انہوں نے شاعری کو ہی نہیں زندگی کو بھی شعبدہ بازی سے پاک کیا۔ ان کی حسن پرستی کے بارے میں کئی کہانیاں گڑھی گئی ہیں مگر ان پر یقین نہیں کیاجاسکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ دلی میں جب سیاسی اور اعتقادی انارکی پھیلی ہوئی تھی، اس وقت حکمرانوں کے سب سے بڑے حریف روہیلے تھے اور روہیلوں کو مرزا جانجاناں سے غیرمعمولی عقیدت تھی لہٰذا حکمرانوں کی خوشنودی کیلئے انہیں کی شہ پر بہتان تراشی کی جاتی رہی۔ کتاب وسنت پر عامل ہونا بھی بہتوں کوناگوار تھا۔ ان کے پہلے دور کے کلام میں بھی ایہام گوئی ( اصطلاحِ شعر میں وہ صنعت جس میں شاعر ایسا لفظ استعمال کرے جو ذومعنی ہو) کے اثرات ہیں بعد کے یا دوسرے دور کے کلام میں معنی آفرینی بھی ہے اور داخلیت بھی۔ یہ غزل داخلیت کا نمونہ ہے:
گل کو جو گل کہوں تو ترے رو کو کیا کہوں 
دُر کو جو دُرکہوں تو اس آنسو کو کیا کہوں 
مجھ پر ہوا ہے تنگ سجن عرصۂ سخن 
بولوں نگہ کو تیغ تو ابرو کو کیا کہوں 
مدت سے اس خیال کے آیا ہوں بیچ میں 
گرموٗ کہوں کمر کو تو گیسو کو کیا کہوں 
 رونے سے تجھ فراق کے آنکھیں مری گئیں 
ڈوبا یہ خاندان اس آنسوکوکیا کہوں 
دیوانہ کرلیا ہے مری جان و دل تئیں 
مالی تری بہار کے جادو کو کیا کہوں 
کرتا ہے جور جو عوض اپنے ہی یار کے 
مظہر ترے ستمگر بدخو کوکیا کہوں 
الگ الگ تذکروں میں یہ اشعار ترتیب اور لفظوں کے فرق کے ساتھ بھی نقل ہوئے ہیں۔ ان شعروں کو سمجھنے کیلئے اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ راہ سلوک میں ایک خاص منزل سے آگے بڑھ جانے والوں کوکبھی سرگوشیاں، آہٹیں، آوازیں سنائی دیتی ہیں، کبھی کچھ صورتیں نظر آتی ہیں کبھی کچھ ایسے مناظر تصور میں آتے ہیں جو لفظوں میں بیان نہیں کئے جاسکتے۔ لفظ تو زلف، عارض، گیسو، کمر… کے ذکر سے ہی محبوب کا سراپا پیش کرتے ہیں مگر کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ جس کا سراپا لفظوں میں بیان کیا گیا ہے وہ کچھ سے کچھ ہوگیا ہے مثلاً جلیل مانکپوری کا شعر ہے:
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں 
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں 
میں تواسے نعت کاشعر سمجھتا ہوں۔ کبھی کبھی ایسا منظر یا سراپا تصور میں سامنے ہوتا ہے کہ اس کی مثال دی ہی نہیں جاسکتی۔ مرزا جانجاناں ا س غزل میں اپنی عجز بیانی کا ہی اظہار کررہے ہیں کہ جس کو میں نے دیکھا یا دیکھ رہا ہوں اس کے سامنے گل، دّر ( در۔ موتی، گوہر) تیغ ( تلوار) موٗ (بال) کی کوئی حیثیت ہی نہیں ، ان سے زیادہ مشابہ تو رو، آنسو اور گیسو ہیں ۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ ان لفظوں سے تودنیاوی محبوب کا سراپا بھی نہیں بیان کیا جاسکتا۔ میں نے جو دیکھا یا وہ جو دنیاوی محبوب سے بہت بڑھ کر ہے لفظوں میں اس کی تصویر کھینچنا محال ہے۔ ایک جدید شاعر نے یہ حقیقت اپنے انداز میں بیان کی ہے۔ 
آنکھ سے جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کو دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے
کسی فلم میں مجروحؔ کا ایک گیت ہے
اب اور کیا مثال دوں میں تمہارے شباب کی
انسان بن گئی ہے کرن ماہتاب کی 
یہ تو دنیاوی محبوب کا معاملہ ہے۔ اس کا سراپا پیش کرنے میں تو لفظ عاجز ثابت ہوتے ہیں جو زمان، مکان، جہت سے پاک ہے اورجس کے دیدار سے حیرت ہی ہاتھ لگتی ہے۔ عثمان ہارونی نے جس عالم میں کہا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ ’’دم دیدارمیں کیوں رقص کرتا ہوں ‘‘ یا امیر خسرو نے جس عالم میں ’’ خدا میر مجلس بود…‘‘ کہا تھا اس کا احاطہ یا لفظ میں ترجمانی کرنا تو ممکن ہی نہیں۔ وہ کیفیات ہی تھیں جن میں صوفیا ایسے الفاظ یا جملے بول گئے تھے جو قابل گرفت ہیں۔ مرزا مظہر کی یہ غزل بھی ایک خاص کیفیت کی مظہر ہے۔ اسمیں انہوں نے کوئی دعویٰ یا خلاف شرع بات نہیں کہی ہے بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ جو جلوے یا تجلیات ربانی نگاہوں میں سمائی ہوئی ہیں وہ لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتیں ۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ سالکِ راہ نبوت جو دیکھتا، سنتااورمحسوس کرتا ہے الفاظ اس کو بیان کرنے میں عاجز ثابت ہوتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK