Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۴)

Updated: May 13, 2024, 11:23 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں مشہور ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کے ماورائی احساسات اور متصوفانہ کیفیات پر مبنی اشعار کا تجزیہ۔

Faiz Ahmed Faiz continued to smile and speak sweet words throughout his life, but also mixed the bitterness of truth in sweet words. Photo: INN.
فیض احمد فیض زندگی بھرمسکراتے اور میٹھا بول بولتے رہے بلکہ میٹھے بول میں سچ کی کڑواہٹ بھی گھولتے رہے۔ تصویر: آئی این این۔

فیض احمد فیض ترقی پسند شاعر ہیں مگر ان کی شاعری غنائیت کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ مشہور ہے کہ انہوں نے انقلاب یا انقلابی احساس وآہنگ کو رومان بناکر پیش کیا ہے۔ جس مذہب سے ان کا پیدائشی تعلق تھا اس کی تعلیمات بھی ان کے شعروں میں کم ہی اصل شکل میں ہیں لیکن ایسے شعر بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاکاری کی مخالفت اور درد مندی کی فراوانی نے انہیں اس روش سے دور کردیا تھا جس کو ’راضی بہ رضا‘ ہونے کی روش پر گامزن ہونا کہتے ہیں ، ورنہ وہ ’منکر‘ نہیں تھے۔ پاکستان کے اشفاق احمد نے جو انہی کے بقول فیض کے دوست مگر فکروعقیدہ میں ان سے مختلف تھے فیض کو ’ملامتی صوفی‘ کہا ہے یعنی عادات ومعاملات میں ’صوفی‘ جیسے مگر نظر آنے کی حد تک قابل ملامت۔ ہر شخص کو حق ہے کہ وہ اشفاق احمد کی رائے سے اتفاق کرے یا اختلاف، مگر ان کی لکھی ہوئی سطور میں دعوت فکر کے ساتھ یہ تاکید بھی ہے کہ فیض کے خلاف رائے دینے سے پہلے انہیں پڑھو اور مزید پڑھو۔ اقتباس ملاحظہ کریں :
’’یہ ادب، یہ صبر، ایسا دھیما پن ، اس قدر درگزر، کم سخن اور احتجاج سے گریز صوفیوں کے کام ہیں ۔ ان سب کو فیض صاحب نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ اوپر سے ملامتی رنگ یہ اختیارکیا ہے کہ اشتراکیت کا گھنٹہ بجاتے پھرتے ہیں کہ کوئی قریب نہ آئے اور محبوب کا راز کھل جائے۔ ‘‘یا یہ کہ
’’ حضرت حاجی صاحب مہاجرمکیؒ فرماتے ہیں کہ ایک دم میں ولایت حاصل کرنے کیلئے ادب اور خدمت کو اختیارکرنا چاہئے۔ بزرگان دین اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طریق تصوف کے طالب کو چاہئے کہ ادب ظاہری اور باطنی کو نگاہ میں رکھے۔ ادب ظاہری یہ ہے کہ مخلوق خدا کے ساتھ بحسن ادب وکمالِ تواضع اور اخلاق کے ساتھ پیش آوے اور ادب باطنی یہ ہے کہ تمام اوقات واحوال ومقامات میں باحق رہے۔ ‘‘(مشمولہ: نسخہ ٔ وفا)
نرم گفتاری، دردمندی اور بردباری کے علاوہ لفظیات وتراکیب میں نیا پن پیدا کرنےیا ان کو معنوی توسیع کے عمل سے گزارنے میں بھی فیض نے صوفیاء سے ہی اکتساب فیض کیا ہے۔ عقیدہ میں بھی وہ صوفیاء کے ہم مشرب وہم زبان ہیں۔ ان کے اس شعر میں بھی کہ 
جوتجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں 
علاجِ گردشِ لیل ونہار رکھتے ہیں 
یہی باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ زمین پر اسی کا بول بالا ہے آسمان والے سے جس کے تعلق میں اخلاص واستحکام ہے۔ یہ صحیح ہے کہ فیض نے حکومتِ پاکستان سے بہت کچھ حاصل کیا تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اس کیلئے کوئی تگڑم نہیں کیا تھا۔ وہ زندگی بھرمسکراتے اور میٹھا بول بولتے رہے بلکہ میٹھے بول میں سچ کی کڑواہٹ بھی گھولتے رہے اور آخری عمر میں تو انہوں نے کئی ایسے شعری تجربے بھی کئے ہیں جو مذہب پر اعتقاد اور واقفیت کے بغیر کئے ہی نہیں جاسکتےتھے۔ شعری تجربوں اور نظموں میں کہیں کہیں انحرافات بھی ہیں مگر ان انحرافات سے بھی ان کی درد مندی جھلکتی ہے اس لئے چاہے انہیں سعادتمند مسلمان نہ سمجھا جائے مگر ان کے درد مند انسان ہونے اوراس دردمندی کے شعری جامہ پہننے سے تو انکار نہیں کیاجاسکتا۔ یہ صحیح ہے کہ نرم گفتاری اورنرم خوئی بعض ڈھونگیوں کا بھی وطیرہ ہے جنہوں نے دنیا کمانے کیلئے نرم گفتاری کا ڈھونگ رچارکھا ہے مگر فیض کے بارے میں ایسا سوچنا صحیح نہیں ہوگا۔ ان کی خداپرستی پر سوال کھڑے کئے جاسکتے ہیں مگر خدا ترسی پر نہیں۔ فیض کا شعری تخیل جذبہ اور فکردونوں سے عبارت ہے اوراس میں خارجیت کے ساتھ داخلیت یادونوں کا توازن بھی ہے۔ وہ تہذیب نفس اور شرافت کے اقدار کوکبھی مجروح ہونے نہیں دیتے چاہے تختۂ دار پر ہوں یا کوئے یار میں۔ اردو کے کئی بڑے ادیبوں مثلاً رشید احمد صدیقی، جعفر علی خاں اثر اور رشید حسن خاں نے کلام فیض میں زبان وبیان کی خامیوں کی طرف اشارے کئے ہیں اس کے باوجود ان کی شاعری کا وہ پر اسرار حسن یا کشش برقرار ہے جس کی جڑیں خلوص جذبات میں پوشیدہ ہیں۔ یہی وہ تخلیقی قوت ہے جو ان کی تہذیب نفس اور تربیت ذہن کی بنیاد بنی ہے۔ ٹھٹھول کرنے والے ذرا اس شعر کی معنویت پر توغور کریں۔ 
وہی چشمۂ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جوخیال تک نہ پہنچے
اور پھر ’امید سحر‘ میں یہ اشعار
سبھی کچھ ہے تیرادیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں 
کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں کبھی دوریاں کبھی قربتیں 
یہ سخن جو ہم نے رقم کئے، یہ ہیں سب ورق تری یاد کے
کوئی لمحہ صبح وصال کا کوئی شام ہجر کی مدتیں 
فیض کا اعجاز یہ ہے کہ ان کی شاعری اور شخصیت دونوں کے سوزدروں میں آلائشیں تو پگھل جاتی ہیں مگر وہ قوت یا جوہربرقرار رہتا ہے جو مسرت و بصیرت کی قوت ِشفاسے خالی نہیں ہے۔ اگریہ بات ذہن میں ہو کہ دل کی بیداری کوبھی تصوف کہا گیا ہے اوران کا یہ شعر بھی یاد ہو کہ 
مری روح اب بھی تنہائی میں تجھ کو یاد کرتی ہے
ہراک تارنفس میں آرزو بیدار ہے اب بھی
یا اس ’ترانہ ‘ کے تخلیقی محرکات پر نظر ہو کہ 
دربار وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے کچھ اپنی جزالے جائیں گے
توفیض احمد فیض کے ماورائی احساسات یا متصوفانہ کیفیات کو کیسے نظرانداز کیاجاسکتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے تمام احساسات اور شعری تجربوں کو اسلامی نہیں کہا جاسکتا مگر خود تصوف کے بارے میں بھی تو یہی کہا جاتا ہے کہ بیرونی خیالات نے اس کو بوجھل کردیا ہے۔ آخری دور میں فیض نے شاعرانہ، نظریاتی اور عملی حیثیت سے خود کو فلسطینیوں کی جد و جہد آزادی سے وابستہ کرلیا تھا اور شعر گوئی کی تھی کہ: 
ہم جیتیں گے  
حقا ہم ایک دن جیتیں گے  
بالآخرایک دن جیتیں گے
یہ بشارت اس طرح پوری ہوئی ہے کہ اقوام متحدہ نے گزشتہ دنوں مملکت فلسطین کی رکنیت کی قرار داد منظور کرلی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK