اس ہفتے ملاحظہ کریں فانی بدایونی کےتغزل میں تصوف کے رنگوں کاامتزاج۔
EPAPER
Updated: September 22, 2024, 8:30 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
اس ہفتے ملاحظہ کریں فانی بدایونی کےتغزل میں تصوف کے رنگوں کاامتزاج۔
رنج وغم اور حزن کی لَے، میر وغالب کے شعروں میں بھی ہے مگر قنوطیت اور افسردگی کا شائبہ بھی نہیں ہے مگر فانی کی شاعری میں حزن کی لَے نہ صرف قنوطیت اور مایوسی کا جامہ پہنے ہوئے ہے بلکہ یہ لَے اتنی محدود ومجہول ہے کہ اس میں تصوف تو کیا ’مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ‘ کے عقیدے کی کیفیت یا پرچھائیں بھی نظر نہیں آتی۔ تصوف سے تعلق رکھنے والا مایوسی وافسردگی میں کبھی نہیں کہہ سکتا کہ
یہ زندگی کی ہے روداد مختصر فانی
وجود درد مسلم علاج نامعلوم
احباب سے کیا کہیے اتنا نہ ہوا فانی
جب ذکر مرا آتا مرنے کی دعا کرتے
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
مگر فانی کی زندگی اور شاعری کا غالب مزاج یہی ہے۔ ’مایوسی‘ یا ’خواہش مرگ‘ کو چھپانے کے لئے انہوں نے کہیں کہیں خوبصورت تراکیب و تشبیہات ضرور استعمال کی ہیں ، حتیٰ کہ موت کے تصور کو محبوب کے تصور سے ملادیا ہے، ویرانی کی دعا مانگی ہے اور فنا کو بقا کا پیش خیمہ سمجھا ہے۔
اداسے آڑ میں خنجر کی منہ چھپائے ہوئے
مری قضا کو وہ لائے دولہن بنائے ہوئے
اپنے دیوانے پہ اتمام کرم کر یارب
در و دیوار دئیے اب انہیں ویرانی دے
بچے گی دل کی پامالی کہاں تک
تجلی کارواں در کارواں ہے
مجھی پر منحصر ٹھہرا مرا مہجور ہوجانا
مری ہستی ہے خود اپنی نظر سے دور ہوجانا
مگر ان کے غم سے زندگی حتیٰ کہ غم کا وہ عرفان بھی حاصل نہیں ہوتا جو غم کو ہی خوشی کا سرچشمہ بنا دے۔
ان کے بیشتر شعروں میں غم کا اظہار بہت سطحی اور مصنوعی معلوم ہوتا ہے۔
ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لئے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا
کیا چاہئے اور زندگی کو
مر رہنے کا آسرا بہت ہے
محشر میں دوست سے میں طالب ہوں داد کا
آیا ہوں اختیار کی تہمت لئے ہوئے
فانی نے تصور جبر کو کئی صورتوں میں پیش کیا ہے اور وہ ان کے پیش کئے ہوئے تصور مرگ، سے قریب تر بھی ہے مثلاً
ہے وہ مختار سزا دے کہ جزا دے فانی
دوگھڑی ہوش میں آنے کے گنہگار ہیں ہم
گناہ گار کی حالت ہے رحم کے قابل
غریب کشمکش جبر و اختیار میں ہے
فانی کی یہ دنیائے غم پوری دنیا نہیں۔ صرف ان کی دنیا ہے کیونکہ دنیا تو مکمل ہوتی ہے غم کے ساتھ خوشی سے، آنسوؤں کے ساتھ قہقہوں سے، جبر کے ساتھ قدر اور عزم وارادے سے۔ فانی نے اپنے تصور جبر کو کئی صورتوں میں پیش کیا ہے مگر اس پیشکش میں روشنی وہاں پھوٹی ہے جہاں اختیار کی لکیریں ابھرآئی ہیں۔ ان شعروں میں قید، جبر، سزا، آزادی، تہمت، اختیار جیسے لفظوں یا تلازموں کو شاعرانہ یا غیرشاعرانہ علامت نہیں کہا جاسکتا۔ یہ طنز ہے اور سنبھلی ہوئی شعری کیفیت میں اس کی تلخی بھلی معلوم ہوتی ہے۔
اپنے دیوانے پہ اتمام کرم کر یارب
درودیوار دئیے اب انہیں ویرانی دے
لکھنے والوں نے لکھا کہ فانی کی شاعری میں غم، جبر اور تصوف کے موضوعات موزوں کئے گئے ہیں، انہوں نے وہ واسطے بھی بیان کردیئے ہیں جہاں سے فانی کو غم ملے مثلاً گھریلو حالات، مالی مشکلات، محرومیاں، نارسائیاں۔ یہیں سے انہوں نے متصوفانہ کیفیات تک رسائی بھی حاصل کی۔ ’بقا سے محروم‘ ہونے کو سرما یۂہستی تصور کیا، ’دامن بہار‘ میں کفن کی بوسونگھی مگر تصوف یہی تو نہیں ہے۔ تصوف کا سب سے اہم موضوع بے یقینی نہیں یقین ہے اور یقین فانی کی زندگی اور شاعری دونوں سے غائب ہے یا اتنا دھندلا ہے کہ نظر نہیں آتا۔ ان کی ایک مکمل غزل ہے
حجاب اگر من و تو کا نہ درمیاں ہوتا
پیام حسن محبت کی داستاں ہوتا
تری تلاش کا افسانہ گر بیاں ہوتا
رہِ مجاز کا ہر ذرہ اک زباں ہوتا
مرا وجود ہے میری نگاہ ِخود نہ شناس
وہ راز ہوں کہ نہ ہوتا جو راز داں ہوتا
کمالِ ضبط غم عشق اے معاذ اللہ
کہیں کہیں سے جو یہ ماجرا بیاں ہوتا
بنائے جلوہ گہہِ ناز ہے جبین نیاز
جو درد عشق نہ ہوتا تو دل کہاں ہوتا
تمام قوت غم صرف دل ہوئی ورنہ
زمیں زمیں ہی نہ ہوتی نہ آسماں ہوتا
سکون خاطر بلبل ہے اضطراب بہار
نہ موج بوئے گل اٹھتی نہ آشیاں ہوتا
تری جفا کے سوا بھی ہزار تھے انداز
کوئی تو اہل وفا کا مزاج داں ہوتا
مٹا دیا غم فرقت نے ورنہ میں فانی
ہنوز ماتمی مرگ ناگہاں ہوتا
پوری غزل میں عشق حقیقی کی کارفرمائی ہے اور اس میں جا بجا من وتو، مجاز وحقیقت، ناز ونیاز، زمین و آسماں ، سکون واضطراب یعنی تضاد کی تراکیب استعمال کی گئی ہیں۔ مطلع میں ’حجاب اگر‘ کے بجائے ’اگر حجاب‘ بھی کہا جاسکتا تھا۔ سکونِ خاطر بلبل ، ماتمی مرگ ناگہاں، بنائے جلوہ گۂ ناز… سہ لفظی اور چار لفظی تراکیب بھی ہیں۔ ’ حجاب‘ تصوف کی اصطلاح ہے اور بشمول علم ہر اس چیز کے لئے استعمال کیاجاتا ہے جس سے سالک کو تجلی الٰہی کا عکس قبول کرنے میں رکاوٹ محسوس ہو۔ اس شعر میں بتایا گیا ہے کہ دوئی کا احساس سالک کے لئے حجاب ہے جو اس کے حسن مطلق سے متحد بالذات ہونے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
دوسرے شعر میں مجاز کے منزل نہیں حقیقت تک پہنچنے کی راہ ہونے کا مفہوم ہے۔
تیسرے شعر میں ’’ نگاہ خود نہ شناس ‘‘ قابل توجہ ہے کہ اس میں شریعت کے احکام یا نزاکتوں کو سمجھنے کی طرف اشارہ ہے۔ اس میں اپنے وجود کا اثبات بھی ہے اگر یہ نہ ہوتا تو ایسی بات یا جملہ زبان سے نکل جاتا جو قابل ِ گرفت ہوتا۔
چوتھے شعر میں ’ معاذاللہ ‘ کمالِ احتیاط ہے اورکہیں کہیں بھی یہی بتانے کے لئے ہے کہ عشق کی کیفیات کو بہ کمال وتمام نہیں بیان کیاجاسکتا۔ اس کے بعد کے دونوں یعنی پانچویں اور چھٹے شعر میں ایک ہی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ ’’ دل جلوہ گہِ ناز‘‘ہے یعنی دل میں کیاکیا جلوے سمائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ممکن نہیں ہے۔ ان کو غم ہے کہ جو بیان کرنا چاہتے ہیں بیان نہیں کرسکتے اور جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ خود اپنے بارے میں ان کا شعر ہے
دنیا کی بلاؤں کو جب جمع کیا میں نے
دھندلی سی مجھے دل کی تصویر نظر آئی
ساتویں شعر میں اضطراب بہار کو بلبل کے دل کا سکون قراریا ہے۔ غزل رمزوایما کا فن ہے اس میں یہ پیغام بھی ہے کہ ایک کا وجود دوسرے کے وجود پر منحصر ہے۔
آٹھویں شعر میں ’’ جفا کے دوسرے انداز‘‘ کا ذکر ہے یہ خود آرائی، زیرلب تبسم، نرم روی ہے جو بظاہر التفات نظر آتے ہیں مگر تاثیر میں جفا کی مانند ہیں۔
مقطع میں فانی نے اپنے تخیل کو بے لگام چھوڑا ہے نہ موت ومایوسی کے سائے سے باہر نکل پائے ہیں اس لئے مطلع سے مقطع تک یہ غزل کمزور تر ہوتی گئی ہے۔ اگراس میں گہری بات کہی گئی ہوتی تو حسن یا بہار کا موسم فانی کے لئے دل وجاں کے قرار کا باعث نہیں، وحشت وبے قراری کا باعث ہوتا اور وہ میرؔ کی طرح کہہ دیتے، شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ فانی غیراہم شاعر ہیں۔ وہ بہت اہم اردو شاعرہیں اوران کے کافی اشعار لوگوں کے حافظے میں ہیں۔
مفہوم کائنات تمہارے سوا نہیں
تم چھپ گئے نظر سے تو سارا جہاں نہ تھا
حیرت نے مجھے تیرا آئینہ بنایا
اب تو مجھے دیکھا کر اے جلوہ ٔ جانانہ
ایک برق سرِطور لہرائی ہوئی سی
دیکھوں ترے ہونٹوں پہ ہنسی آئی ہوئی سی