• Mon, 07 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۲۳)

Updated: September 30, 2024, 2:10 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں جگر مرادآبادی کے وجد آور اشعار میں بے خودی و بے ساختگی کے ساتھ حقائق ومعارف ۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

رِندی وسرمستی میں جگرؔ مراد آبادی کی کوئی مثال ہے نہ توبہ پر استقامت میں۔ اس سرشاری میں بھی ان کی مثال نہیں جو شراب کی محتاج نہیں ہے۔ یہ کہہ کر جگرؔ کی قدر دانی کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے حسن وعشق کا ایک نیا تصور پیش کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ جگر کی شاعری میں جو تقریباً کل کی کل غزل کی صنف میں ہے و ہ کیفِ غم بھی ہے جو فاتحانہ قوت کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ سچائی بھی جو اظہار تشکر سے بھی عبارت ہے اور کوتاہ دامنی کے شکوے سے بھی۔ 
یارب ہجوم درد کو دے اور وسعتیں 
دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں 
ہر جلوہ ہے بجائے خود اک دعوتِ نگاہ
کیا کیجئے جو ان کی تمنا نہ کیجئے 
ترے جلووں میں گم ہوکر خودی سے بے خبر ہوکر 
تمنا ہے کہ رہ جاؤں زسرتاپا نظر ہوکر
جگر کی شاعری بلا شبہ عاشقانہ شاعری ہے اور محبوب بھی گوشت پوست کا بنا ہوا ہے اس کے باوجود اس میں لذت وہوس نہیں ہے۔ اسی طرح ان کا تصوف بے عملی سے عبارت ہے نہ عشق عقل و خرد کی محرومی سے۔ وہ اس عشق اور تصوف کے قائل ہیں جو انسان کی عظمت وبرگزیدگی، تہذیب نفس اور ہمدردی وغم گساری کا اثبات کرتے ہیں اور ایک پاکباز وباعمل انسان بننے کی تحریک دیتے ہیں :
جو صبر و قناعت تجھے مفلوج بنا دے 
بہتر ہے کہ اس صبر و قناعت سے گزر جا
پیدا نہ کرے تجھ میں جو پاکیزگی روح
اس فلسفۂ دانش و حکمت سے گزر جا
اوروں کے لئے چھوڑ یہ تاریک مقامات
 نفرت سے عداوت سے شقاوت سے گزر جا
نہیں جاتی کہاں تک فکر انسانی نہیں جاتی
مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں جاتی
آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں 
 ان کا محبوب یا معشوق بھی جس سے وہ عشق کرتے ہیں پرستش کے لئے نہیں رفاقت کے لئے ہے اس لئے وہ خودکو اس وقت بھی اسی کے روبرو یا ساتھ محسوس کرتے ہیں جب وہ ساتھ نہیں ہوتا۔ 
میں اور ترے ہجر مسلسل کی شکایت 
تیرا ہی تو عالم ہے تری یاد کا عالم
ہائے وہ حسن تصور کا فریب رنگ و بو
میں نے یہ سمجھا کہ وہ جانِ بہار آہی گیا
نگاہوں میں کچھ ایسے بس گئے ہیں حسن کے جلوے 
کوئی محفل ہو لیکن ہم تری محفل سمجھتے ہیں 
مگریہ ان کی شاعری یا ان پر طاری ہوتے رہنے والی کیفیت کا صرف ایک پہلو ہے دوسرا پہلو سرمستی کے ساتھ حیرت سے عبارت ہے۔ اس حیرت کے سبب ان کی شاعری میں جو بے ساختگی ہے وہ عارفانہ کیفیت کہی جانے کی مستحق ہے۔ عارفانہ کیفیت کے بغیر کہا ہی نہیں جاسکتا کہ 
دل کو کیا کیا سکون ہوتا ہے 
جب کوئی آسرا نہیں ہوتا
کیا خبر تھی کہ وہ بھی نکلیں گے برابر کے شریک
دل کی ہردھڑکن کو اپنی داستاں سمجھا تھا میں 
جگر وہ بھی زسرتاپا محبت ہی محبت ہیں 
مگر ان کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی
عارفانہ کیفیت اس لئے بھی کہ جگر کے شعروں میں روحانیت کی جھلک بھی ہے اور حقائق ومعارف کی دمک بھی۔ اس انداز سے عقیدہ ٔ توحید کا اثبات کیا ہے کہ پڑھنے والے سننے والے بے ساختہ ’’ میں نے جانا یہ بھی گویا میرے دل میں ہے ‘‘ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ 
تجھی سے ابتداء ہے تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اورنہ ساز بے صدا ہوگا
یہ عشق وہ بلا ہے کہ حسنِ ازل کو بھی
تخلیق کائنات کو مجبور کردیا
نیاز وناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں 
ہم ان میں اوروہ ہم میں سمائے جاتے ہیں 
ایسی بھی اک نگاہ کئے جارہا ہوں میں 
ذروں کو مہر و ماہ کئے جارہا ہوں میں 
حسن جس رنگ میں ہوتا ہے جہاں ہوتا ہے
اہل دل کےلئے سرمایہ ٔ جاں ہوتا ہے
مگر ان کی نگاہ زندگی کے ان تضادات پر بھی رہی ہے جو عہدالست میں عقیدۂ توحید کا اثبات کرنے والوں میں درآئے ہیں۔ مکمل غزل کے یہ اشعار ملاحظہ کریں۔ 
وہ کافر آشنا نا آشنا یوں بھی ہے اور یوں بھی 
ہماری ابتدا تا انتہا یوں بھی ہے اور یوں بھی
کہیں ذرہ، کہیں صحرا، کہیں قطرہ کہیں دریا
محبت اوراس کا سلسلہ یوں بھی ہے اور یوں بھی
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں ایک مقصد میری ہستی کا 
بتاؤں کیا کہ میرا مدعا یوں بھی ہے اور یوں بھی
نہ پا لینا ترا آساں نہ کھودینا ترا ممکن
مصیبت میں یہ جان مبتلا یوں بھی ہے اور یوں بھی
لگادے آگ، او برق تجلی دیکھتی کیا ہے
نگاہ شوق ظالم نارسا یوں بھی ہے اور یوں بھی
الٰہی کس طرح عقل و جنوں کو ایک جا کر لوں 
کہ منشائے نگاہ عشوہ زا یوں بھی ہے اور یوں بھی
’داغ جگر ‘، ’شعلہ طور‘ اور’ آتش گل ‘ جگر کے شعری مجموعوں کے نام ہیں۔ ان کے سیکڑوں اشعار آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔ ان کی نقل کرنے والے شاعروں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ ان پر چند ناقدین نے لکھا بھی ہے مگر اس حقیقت کا اثبات نہیں ہوا ہے کہ جگر کا شعری آہنگ الہامی ہے مگر ایسا الہامی جو انسانی زندگی سے گہرا تعلق رکھتا ہے اور وہ تا عمر ایسی بادہ ٔ حسن بانٹتے رہے جس سے خود بھی سرشار وحیرت زدہ ہوئے اور پڑھنے سننے والوں کو بھی اس کے ہلکے سے ہلکے نشے سے سرشار وحیرت زدہ کرتے رہے ہیں۔ ان کو یہ کہنے کا حق تھا
ناز کرتی ہے خانہ ویرانی 
ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ
غنیمت ہے کہ اس دور ہوس میں 
ترا ملنا بہت دشوار بھی ہے
اس کے باوجود جگر کے بارے میں یہ سوچنا کہ وہ سرمستی وبدمستی کے شاعر تھے صحیح نہیں ہے۔ ان کے سیکڑوں اشعار صحیح معنی میں خدا پرستی اور انسان دوستی کی بھی دعوت دیتے ہیں ، مثلاً
نظام تجلی سے معمور ہوکر
نظر ہوگئی شعلۂ طور ہوکر
یہ عشق وہ بلا ہے کہ حسن ازل کو بھی
تخلیق کائنات کو مجبور کردیا
یہ محفل ہستی بھی کیا محفل ہستی ہے
جب کوئی اٹھا پردہ میں خود ہی نظر آیا
غنائیت اور سرشاری میں اکثر شعراء اپنی نفی یا اپنی حیثیت میں کمی کر جاتے ہیں مگر جگر کی خوبی یہ ہے کہ ان کی شاعری میں غنائیت کے ساتھ اپنی ہستی اوراس کی خوبیوں کا اثبات بھی ہے۔ 
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے 
محبوب کے احترام کے ساتھ عاشق کی خودداری وسربلندی کا یہ انداز جگر کا خاصہ ہے۔ جگر نے نظم نما یا مسلسل غزلیں بھی کہی ہیں مثلاً ’’وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی= نظر میں اب تک سما رہے ہیں ‘‘ جیسے اشعارتخیل وتحیر کا مجموعہ ہیں۔ اس مصرع میں گوشت پوست کے محبوب کا ذکر ہے مگراس ذکر کو بھی جگر نے ایک ایسی تصویر میں تبدیل کردیا ہے جو گوشت پوست کے محبوب کی تصویر ہوہی نہیں سکتی۔ یہ تصور ہے اس محبوب حقیقی کا جس کی کیا ہلکے اورکیا گہرے رنگ میں تصویر بنائی ہی نہیں جاسکتی۔ 
نظر نظر متبسم اگرچہ بے پردا
نفس نفس متوجہ اگرچہ بے گانہ
یہ تصوروتحیر ہی ان کی روحانیت یا تصوف کی بنیادہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK