• Mon, 07 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۲۲)

Updated: September 23, 2024, 12:28 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں بے ریا صوفی، مخلص سیاسی رہنما، قادر الکلام غزل گو حسرت موہانی کے کلام میں عارفانہ اور متصوفانہ کیفیات کا امتزاج۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

سید فضل الحسن حسرت موہانی سچے اور اچھے مسلمان، مخلص سیاسی رہنما، بے ریا صوفی، بے باک صحافی اور صنف غزل کی بدنامی کے زمانے میں اس کی آبر ورکھنے اوراس کی مخصوص اشاریت کو برتتے ہوئے سیاسی جذبات واحساسات کو مقبول بنانے کا اہم فریضہ انجام دینے کے سبب بہت قابل قدر ہیں۔ مگر دین وسیاست سے متعلق ان کی ہربات سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ وہ سچے اور مخلص مسلمان تو تھے عالم دین نہیں تھے۔ وہ کتنے سچے اور مخلص تھے اس کااندازہ ان کے آخری لمحات کی کیفیات سے ہوجاتا ہے۔ جمال میاں فرنگی محلی کا بیان ہے کہ مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی عیادت کوآئے اور تسلی کے لئے فرمایا کہ آپ کی علالت تشویشناک نہیں ہے آپ جلد ہی اچھے ہوجائیں گے۔ یہ سنتے ہی حسرت بستر سے اٹھ بیٹھے اورکہا سنئے صاحب! میں بیمار ہوں مگر بے وقوف نہیں ہوں۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میرا وقت آگیا ہے... بعد میں جب خود جمال میاں حسرت کے کمرے میں پہنچے تو ان کی سانس اُکھڑ رہی تھی، اعزہ گریہ کررہے تھے۔ جمال میاں کو اس حالت میں بھی پہچانا اور اعزہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ان سے کہو کہ آج کوئی نئی بات نہیں ہورہی ہے.... یہ ان کی آخری گفتگو تھی اس کے بعد ہونٹوں کی جنبش سے اندازہ ہوتا تھا کہ درودشریف یا استغفار پڑھ رہے ہیں۔ اسی دن ۱۲؍ بجے دن میں ان کا انتقال ہوگیا۔ 
حسرت کے شاگرد اور مرید وخلیفہ کم ہیں مگر شاعری میں استادی کے مرتبے پر فائز ہونے اور تصوف میں ان کے صاحب اجازت ہونے کی روایات موجود ہیں۔ ۱۹۲۳ء میں وہ پونے کی یروڈا جیل میں تھے اور وہیں سے اپنے مرشد زادہ مولانا عبدالباری فرنگی محلی کو لکھا تھا کہ 
’’درخواست کرتا ہوں کہ بوقت ضرورت مجھ کو سلسلہ ٔ چشتیہ صابریہ، رزاقیہ، انواریہ، والیہ میں بیعت لینے کی اجازت مرحمت ہو۔ میں آپ کی اجازت کو اپنے اورآپ کے مرشد عبدالوہاب کی اجازت کا قائم مقام سمجھوں گا۔ ‘‘ 
حسرت موہانی کے شاہ عبدالوہاب بن شاہ عبدالرزاق کے ہاتھ پر بیعت ہونے کا واقعہ بھی بہت پراثر ہے اس کا اظہار انہوں نے شعر میں بھی کیا ہے۔ 
کیا چیز تھی وہ مرشد وہاب کی نگاہ 
حسرت کو جس نے عارف کامل بنادیا
کچھ دوسرے اشعار میں بھی انہوں نے اپنی کیفیات بیان کی ہیں۔ 
غلامِ حضرت رزاق کیا ہوئے حسرت 
کہ آپ نام خدا عاشقوں کے میر ہوئے
روز ہوجاتی ہے رویا میں زیارت حسرت
آستانِ شہ رزاق ہے زنداں کے قریب 
مدینے چلو کیوں نہ ہر سال حسرت
بلائیں جو خود تاجدار مدینہ 
یہ بھی اک فیض عشق ہے ورنہ 
ہم کہاں اور کہاں درود شریف 
فنا ہے بقا مسلکِ عاشقی میں 
اگر رونما ہو دیار نبیؐ میں 
حسرت نے اظہار تشکر یا اظہار حقیقت کے طورپر وہ تمام کیفیات تو بیان کردی ہیں جو اُن پر گزرتی تھیں مگر وہ ’تقویٰ‘ کے غرور میں مبتلا نہیں تھے۔ انہی کا شعر ہے
نہ ملا زہد میں کچھ بھی ہمیں نخوت کے سوا
شغل بیکار ہیں سب تیری محبت کے سوا
اپنا مذہبی اور سیاسی مسلک بیان کرنے میں بھی وہ کسی رو رعایت کے قائل نہیں تھے:
ارباب قال حال پہ غالب نہ آسکے 
زاہد سے عاشقوں کی امامت نہ ہوسکی
پڑھیے اس کے سوا نہ کوئی سبق
خدمتِ خلق وعشقِ حضرتِ حق
ولایت کا دعویٰ نہیں مجھ کو لیکن 
ہے اتنا کہ ہوں اک گنہگار صالحِ 
آرزو ہے کہ نام پاک حضورؐ
کاش وردِ زباں ہو وقت اخیر
حسرت کے احوال پڑھ کر دوباتوں پر انتہائی حیرت ہوتی ہے۔ ایک تو ان کے اس دعوے پرکہ 
درویشی و انقلاب مسلک ہے مرا
صوفی مومن ہوں اشتراکی مسلم 
اور دوسرے شری کرشن کے نام کے ساتھ علیہ الرحمۃ لکھنے کےمعمول پر۔ 
۱۹۲۶ء میں برطانوی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین ہندوستان آئے تھے کہ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھ سکیں۔ حسرت کی کوششوں سے یہ کام ۱۹۲۵ء میں ہی ہوچکا تھا جب کانپور میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی، یہاں پہلا اجلاس ہوا تھا جس کی مجلس استقبالیہ کے صدر حسرت موہانی ہی تھے۔ انہوں نے خطبہ استقبالیہ میں ہی وضاحت کردی تھی کہ ہم مذہب کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک لامذہبی ہونا یا لامذہبیت بھی ایک مذہب ہے مگر تقریر وتحریر کے علاوہ شعر میں بھی وہ سوویت یونین کے نظام کی ہم نوائی کرتے رہتے تھے۔ 
لازم ہے یہاں غلبۂ آئین سوویت
دو ایک برس میں ہو کہ دس بیس برس میں 
فلاحت ہو کہ حرفت کامیابی سعی ِ انساں کی
نظام اجتماعی کی بدولت ہے جہاں میں ہوں 
بلاتائیدِ محنت کچھ بھی افزائش جو ہو حسرت
وہ دولت کیلئے اک طوقِ لعنت ہے جہاں میں ہوں 
۱۹۳۶ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس ہوئی تو انہوں نے اس میں بھی تقریر کی کہ 
’’ ہمارے ادب کو.....سامراجیوں اورظلم کرنے والے امیروں کی مخالفت کرنا چاہئے.... جدید ادب کو سوشلزم بلکہ کمیونزم کی بھی تلقین کرنا چاہئے۔ ‘‘
اس کے باوجود وہ کمیونسٹ یا سوشلسٹ ہونے کے منکر بھی تھے مگر انہوں نے کمیونزم کے نظام جبرکی اتنی مذمت بھی نہیں کی ہے جتنی خواجہ احمد عباس نے اسٹالن اِزم کی کی تھی۔ بیشک یہ کہنے کا حق انہیں کا تھا کہ 
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی 
دوسری بات جس پر لوگوں کو حیرت ہوتی ہے اس کا جواب انہوں نے ان لفظوں میں دیا ہے۔ 
’’ حضرت شری کرشن علیہ الرحمۃ کے باب میں فقیر اپنے پیر اور پیروں کے پیر حضرت سید عبدالرزاق بانسوی قدس اللہ سرہ کے مسلک عاشقی کا پیرو ہے۔ ‘‘
مسلک عشق ہے پرستش حسن
ہم نہیں جانتے عذاب و ثواب 
دوسری کئی مثالیں بھی ہیں جن سے ثابت کیاجاسکتا ہے کہ حسرت کی فکرخاص طور سے شعروں میں عاشقانہ، فاسقانہ اور عارفانہ کی تمیز کرنا بہت مشکل ہے اس کے باوجود ان کا بے ریا اور صاحب وجدوحال ہونا مسلم ہے۔ یہاں چھوٹی اور مترنم بحر میں ان کی ایک غزل پیش کی جارہی ہے جو داخلی اور خارجی محاسن کا دلآویز مرقع ہے۔ 
لایا ہے دل پر کتنی خرابی
اے یار تیرا حسن شرابی
پیراہن اس کا ہے سادہ ورنگیں 
یا عکس مئے سے شیشہ گلابی
عشرت کی شب کا وہ دور آخر
نور سحر کی وہ لاجوابی
پھرتی ہے اب تک دل کی نظر میں 
کیفیت ان کی وہ نیم خوابی
بزم طرب ہی وہ بزم کیوں ہو
ہم غم زدوں کو واں باریابی 
شوق اپنی بھولا گستاخ دستی 
دل ساری شوخی حاضر جوابی
وہ روئے زیبا ہے جانِ خوبی
ہیں وصف جس کے سارے کتابی
اس قیدِ غم پر قربان حسرت
عالی جنابی گردوں رکابی 
پوری غزل رعنائی اسلوب اور شگفتہ تراکیب کے اعتبار سے عاشقانہ ہے۔ محبوب بھی گوشت پوست کا اوراسی زمین پر رہنے والا ہے مگر کیفیت عارفانہ ہے۔ یہی ان کی غزل کی خوبی ہے۔ وہ بیشک انسان تھے مگر ان کے بارے میں یہ سوچنا بھی گناہ ہے کہ انہوں نے دانستہ کوئی گناہ کیا ہوگا۔ ان کے سامنے تو حسن کی بے حجابی بھی حجاب بن کر آتی تھی۔ 
نگاہ آرزو تابِ جمال یار کیا لاتی
اگر حائل نہ ہوجاتا حجاب کارساز اس کا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK