Inquilab Logo

خدائی فوجدار

Updated: March 18, 2024, 10:13 AM IST | Dr Anjum Shakil Ahmed

ایک دن وہ حسبِ معمول آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ پانچ لڑکوں کے ٹولے نے جو ہاتھوں میں ہاکی اسٹک اور لوہے کی زنجیریں لئے ہوئے تھے، ان دونوں کو گھیر لیا، انکے تیور ٹھیک نہیں تھے وہ دونوں گھبرا گئے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

محلہ کے بس اسٹینڈ پر صبح دو بسیں رُکتی تھیں ایک کسی کالج کی بس، دوسری سرکاری بس جس میں بھی اکثر اسکول، کالج جانے والے طلبہ کی ہی تعداد زیادہ ہوتی تھی کالج کی بس میں سوار ہونے کے لئے ایک لڑکی آ تی تھی اور بس میں سوار ہوکر چلی جاتی آج کل چند دنوں سے ایک نوجوان شخص بھی بس اسٹینڈ پر آ نے لگا تھا وہ سرکاری بس میں سوار ہوتا تھا صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ہمیشہ اِن شرٹ کئے ہوئے، کبھی ٹائی کبھی بغیر ٹائی کے، چہرے پر چھوٹی سی داڑھی کے ساتھ پڑھا لکھا آدمی لگتا تھا یہاں سے صبح کے وقت یہ دو ہی لوگ بس میں سوار ہوتے تھے چند دنوں میں ایک ہی جگہ پر ملتے ملتے دونوں میں شناسائی ہوئی اور و ہ دونوں اپنی اپنی بسیں آ نے تک آپس میں باتیں کرنے لگے ایسا لگتا تھا کہ وہ شخص لڑکی کو کچھ سمجھا رہا ہے کبھی کبھی وہ لڑکی کی نوٹ بک پر کچھ لکھتا بھی تھا پہلے تو یہ لڑکی بس آ نے سے ذرا دیر پہلے ہی آتی تھی اور یہ شخص بھی اپنی بس سے کچھ دیر پہلے ہی مگر آج کل یہ دونوں کچھ جلدی آ رہے تھے اور زیادہ گھل مل کر بات چیت کر رہے تھے انکی یہ حرکتیں اپنے آپ کو کرتا دھرتا اور خود کو خدائی فوجدار سمجھنے والے محلہ کے چندلڑکے دیکھ رہے تھے اور اسکا نوٹس بھی لے رے تھے 
ایک دن وہ حسبِ معمول آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ پانچ لڑکوں کے ٹولے نے جو ہاتھوں میں ہاکی اسٹک اور لوہے کی زنجیریں لئے ہوئے تھے، ان دونوں کو گھیر لیا، انکے تیور ٹھیک نہیں تھے وہ دونوں گھبرا گئے وہ شخص ڈر کے مارے دوڑنے کی تیاری کرنے لگا مگر اس سے پہلے ہی ان پانچوں نے اسے دبوچ لیا ان میں سے ایک چلّا کر کہنے لگا’’یہ کیا ہو رہا ہے ، ہمارے دھرم کی لڑکی پٹا رہا ہے؟‘‘پھر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ ’’لگاؤ پھٹکےسالے کو.... یہ لوگ ایسے ہی اپنی بہنوں کو اپنے جال میں پھنساکر انکا دھرم پریورتن کراتے ہیں ‘‘ وہ شخص ڈرا ڈرا ان سے کہہ رہا تھا کہ دیکھیں آپ لوگ غلط سمجھ رہے ہیں، میں کوئی ایسا ویسا کام نہیں کر رہا ہوں، میں تو بلکہ...... اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ پورا کرتا وہ لوگ ہاکی اسٹک اور لوہے کی زنجیریں لے کر اس پر وحشی درندوں کی طرح ٹوٹ پڑے شاید کسی نے اسکے سر پر ہاکی اسٹک سے کئی مرتبہ زبردست چوٹ لگائی جس سے وہ چکرا کر گر پڑا اور دو تین جھٹکے لیکر ٹھنڈا ہو گیا ’’مرگیا سالا‘‘ کہہ کر وہ لوگ لڑکی کی طرف متوجہ ہوئے وہ ایک کونے میں کھڑی تھر تھر کانپ رہی تھی اور بار بار اس زمین پر گرے ہوئے شخص کی طرف دیکھ رہی تھی انہیں اپنی طرف آتے دیکھ کر وہ روتے روتے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی’’ بھیا آپ لوگ غلط سمجھ رہے ہیں، وہ ایک لیکچرر تھے، کسی کالج میں فزکس پڑھاتے تھے، میں ان سے اپنے ڈائوٹس پوچھ لیا کرتی تھی چند دن سے وہ مجھے نوٹس لکھا رہے تھے کیونکہ میں ایک غریب خاندان کی لڑکی ہوں اور ٹیوشن نہیں پڑھ سکتی اور یہی بات جب میں نے انہیں بتائی تو وہ صبح بس آنے سے پہلے کچھ دیر مجھے پڑھا دیا کرتے تھے 
وہ لڑکے ابھی بھی بپھرے ہو ئے تھے، کہنے لگے بس بس، زیادہ جھوٹ بولنے کی یا اس کی طرفداری کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ بدمعاش لوگ ایسا ہی کرتے ہیں اور تم بھولی بھالی لڑکیاں ان کے’ لو جہاد‘ کے چکر میں پڑ جاتی ہو تیرا نام کیا ہے بتا، اپنے باپ کا نام اور پتہ بھی بتا وہ ڈرتے ڈرتے بولی میرا نام سلمہ ہے اور ابو کا نام اسلم خان ہے یہیں کالونی میں رہتے ہیں ’’کیا کہا سلمہ؟ یعنی مسلمان ہے، ہندو نہیں، ‘‘ انہیں ایسا لگا کہ جیسے انکے جسم سے روح فنا ہو گئی ہو وہ ایک دوسرے کو خالی الذہنی کے عالم میں دیکھنے لگے اور کہاکہ ’’چلو بے نکلو یہاں سے، خوامخواہ کے پھڈے میں ہاتھ پڑ گیا ‘‘ وہ وہاں سے رفوچکر ہونے ہی والے تھے کہ کسی بھلے مانس کی فون کال کی وجہ سے پولیس وہاں پہنچ گئی اور انہیں گرفتار کرلے گئی 
وہاں سے گزرنے والی بس کا روٹ تبدیل کردیا گیا جائے واردات پر آمد و رفت روک لگاکر ضروری کارروائی کے بعد لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے اسپتال بھیج دیا گیا لڑکی کا بیان لے کراسے لیڈی کانسٹبل کے ساتھ اسے اسکے گھر پہنچانے کا بندوبست کرنے کے بعد انسپکٹر پولیس وین میں پانچوں کو لیکر تھانہ چلا گیا تھانہ میں انہیں لاک اپ میں بند کرکے چند ایک سوال کرکے حقیقت جاننے کے بعد ان سے انکے فون جمع کروانے کو کہا 
وہ پانچوں التجا کرنے لگے کہ ہمیں دو ایک کال کرنے دو، ہماری سنگھٹن کے لوگ ہماری مدد کو آئیں گے انسپکٹر نے ان کی بات مان لی اور انہیں فون کرنے کی اجازت دی ان میں سے ایک لیڈرنما لڑکے نے اپنے فون سے کسی کو فون لگا کر مختصر واقعہ بتا کر اپنے پکڑے جانے اور اس کے بعد تھانہ کا پتہ بتایا اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ ابھی بھائی آئیگا، بات ہوگئی ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا 
تھوڑی ہی دیر میں تین لیڈر نما نوجوان منہ میں پان کی پیک رکھے، ہاتھوں میں موٹی موٹی انگوٹھیاں پہنے تھانے میں نمودار ہوئے اور قدرے اکڑ سے انسپکٹر سے پوچھنے لگے ’’کیا ماجرہ ہے، ہمارےلڑکوں کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے، کیا قصور ہے انکا؟‘‘ انسپکٹر نے بہت ہی تحمل سے انہیں سنا لیکن طنزیہ لہجہ میں کہا جا کر اپنے لاڈلوں سے خود ہی دریافت کر لو وہ لاک اپ کے قریب جاکر ان سے پوچھنے لگے اور جیسے ہی ان لڑکوں نے بتایا کہ وہ لو جہاد یا دھرم پریورتن کا چکر سمجھ کر جس لڑکی کے لئے ایک شخص کو قتل کر بیٹھے وہ اسی کے دھرم کی سلمیٰ ٰتھی یہ سنتے ہی وہ تینوں اپنے سروں کو پیٹنے لگے کہنے لگے، ’’بے وقوفو ! کس نے کہا تھا تمہیں اس معاملے میں ہاتھ ڈالنے کے لئے اگر لو جہاد کا سلسلہ ہوتا، یا دھرم پریورتن کا کچھ ہوتا تو بچانے کی کوشش کی جاسکتی تھی ہندوئوں اور مسلمانوں میں نفرت بڑھائی جاتی سنگٹھن کا فائدہ ہوتا اور تمہارا کیس لڑنے میں آسانی ہو تی لیکن اب تمہاری اس بیوقوفانہ حرکت سے کسی کو کچھ فائدہ نہیں ہو گا اور تمہارے حق میں کوئی کیس بھی نہیں لڑے گا وہ پانچوں ان سے منت کرنے لگے کہ بھائی کچھ تو کرو، ہم اپنے دھرم کی لڑکی سمجھ کر غلطی کر بیٹھے 
ان تینوں میں سے ایک جو ان کا لیڈر لگ رہا تھا نے کہا کہ’’ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، ہم اوپر والوں سے بات کرتے ہیں اور ضمانت وغیرہ کاکچھ بندوبست کرتے ہیں ‘‘ یہ کہہ کروہ تینوں تھانے سے کھسک گئے اور انسپکٹر کو بھی اشارہ کرگئے 
انسپکٹر نے ان سے موبائل فون جمع کروانے کو کہا تو وہ بولے ’’سر تھوڑا اور وقت دو شاید ایک آدھ گھنٹے میں بھائی کچھ کرے‘‘انسپکٹرنے زیرلب مسکرا کر کہا’’ ٹھیک ہے آدھ گھنٹے کے بعد فون جمع ہوجانا چاہئے‘‘آدھے گھنٹے کے بعد ایک لڑکے نے فون کیا، فون کی گھنٹی بج رہی تھی، کسی نے فون نہیں اُٹھایا، اسکے چارو ں ساتھی امید بھری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے، وہ نفی میں گردن ہلا کر کہنے لگا کہ کوئی فون نہیں اُٹھا رہا ہے انسپکٹر انکے قریب کھڑا انکی باتیں سن رہا تھا کہا’’ بے قوفو! اب اُ ٹھے گا بھی نہیں تم لوگ بغیر سوچے سمجھے سیاسی نیتاؤں کے ہتھے چڑھ جاتے ہو تمہیں استعمال کیا جاتا ہے اپنا کام نکالنے تک، پھر پونچھ کر پھینک دیا جاتا ہے تم لوگ ہزار دو ہزار روپیوں اور کچھ پینے پلانے کے شوق میں دھرم کے نام پر بھڑک جاتے ہو کیا تم نے دیکھا کسی نیتا کا بیٹا تمہارے ساتھ اس قسم کے کام میں آتا ہے، نہیں نا وہ تو کسی اعلیٰ یونیورسٹی میں پڑھ رہاہوتا ہے اور کیا کوئی دھرم کسی کی جان لینے کو کہتا ہے اور تم لوگ کون ہوتے ہو قانون کو ہاتھ میں لینے والے ‘‘ دیکھو تم لوگوں نے ایک معصوم شخص کا قتل کردیا، سوچو، اسکے بیوی بچوں، اسکے ماں باپ پر کیا گز رہی ہوگی اب بھگتو اپنے کئے کی سزا اور ہاتھ بڑھا کر بولا ’’لاؤ اپنے اپنے فون دے دو‘‘ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اپنے اپنے فون انسپکٹر کے حوالے کرکے زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے جیسے کہ ان کے جسم سے ساری طاقت چھین لی گئی ہو اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK