میں نہیں جانتا تم اس سے کب اور کہاں ملے؟ محبت کی راہ میں پہلا قدم کس نے آگے بڑھایا؟ ہاں مگر یقین سے کہہ سکتا ہوں اسے تم سے سچی محبت تھی۔ تبھی تو وہ تمہارے لئے ہر روز شام کو بنتی سنورتی۔ تمہارے انتظار میں کئی بار، خود کو تمہاری نظروں سے دیکھنے کی کوشش کرتی۔
تمہارے بالوں کی سفیدی، چہرے کی جھریاں، بے جان ہوتی ویران آنکھوں کی پتلیاں گواہی دے رہی ہیں تم زندگی کے آخری پڑاؤ پر پہنچ چکے ہو۔ میں چہرے کو پڑھنے کا ہنر جانتا ہوں۔ اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے ذریعے بیان کیا گیا سچ قابل قبول نہیں ہوتا۔ میں نے زندگی کے کئی رنگ دیکھے ہیں۔ میں گواہ رہا ہوں ان تمام اتار چڑھاؤ کا جو تم نے اپنی زندگی میں دیکھے ہیں۔ تمہاری صحبت کا حصہ میں تب سے ہوں جب تمہاری زندگی میں پریرنا آئی تھی۔ پریرنا سے تمہاری رفاقت نہ ہوتی تو میں بھی تمہارا رفیق نا ہوتا۔ مجھے یاد ہے۔ اب بھی ... بالکل صاف صاف ، ٹھہرے ہوئے جھیل کے پانی میں نظر آنی والے نیلے آسمان کے عکس کی طرح، میں گواہ ہوں اس محبت کے جذبات کا جو میں نے تمہارے لئے پریرنا کی آنکھوں میں دیکھے۔
میں نہیں جانتا تم اس سے کب اور کہاں ملے؟ محبت کی راہ میں پہلا قدم کس نے آگے بڑھایا؟ ہاں مگر یقین سے کہہ سکتا ہوں اسے تم سے سچی محبت تھی۔ تبھی تو وہ تمہارے لئے ہر روز شام کو بنتی سنورتی۔ تمہارے انتظار میں کئی بار، خود کو تمہاری نظروں سے دیکھنے کی کوشش کرتی۔ وہ ہمیشہ تذبذب کا شکار رہتی تم اسے کس صورت دیکھنا چاہوگے ؟ میں نے اکثر یہ محسوس کیا تم احساس کمتری کا شکار ہو جاتے تھے۔ تمہاری رنگت اور چہرے کی بناوٹ اس کا سبب تھی۔ مگر تمہارا یہ وہم بے وجہ تھا۔ پریرنا کو تم سے نہیں تمہارے وجود سے محبت تھی۔ اس رات جب تم نے پریرنا کو اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کی کہ تم ایک مکمل مرد ہو اور اس کثرت میں تم نے اپنی پوری قوت صرف کردی تھی۔ وہ تم نہیں تھے۔ وہ ایک مرد تھا جو ایک صنف نازک کو قابو کرنے کی کوشش میں غیر فطری اعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس وقت باعث شرم میں نے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ تمہارے وحشی روپ کا گواہ نہیں بننا چاہتا تھا۔ بس اسی لئے۔
ہاں بات نکلی ہے مردوں کی حیوانیت کی تو تمہیں بتاتا چلوں وہ تمہارا عزیز دوست نجف ، اس روز جب تم اور پریرنا گھر پر نہیں تھے۔ تمہاری معصوم لاڈلی اپنے کھلونوں سے گھری فرش پر بیٹھی تھی، آیا مالا کسی کام سے باہر گئی ہوئی تھی، تمہارا عزیز دوست نجف گھر میں داخل ہوا اور .... اور اس نے پھول سی نازک جان سے دست درازی کی کوشش کی۔ میں یہ دیکھ کر تڑپ اٹھا۔ اس سے پہلے کہ چیخ پڑتا مالا کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ اس شیطان نے یکلخت انسان کا روپ لے لیا۔ کچھ دیر بعد جب اس نے مجھ سے نظریں ملائی تو دل چاہا کہ اس کے منھ پر تھوک دوں ۔ کچھ ہی پل گزرے ہونگے وہ تمہارے ساتھ ڈنر کر رہا تھا۔ قہقہے لگا رہا تھا۔ حیوان کہیں کا....
تمہارے ماں باپ جب گاؤں سے تمہارے گھر آئے تھے۔ میں نے محسو س کیا تمہارا گھر گویا روشنی اور محبت سے بھرگیا ہو۔ مجھے اس وقت بڑی مایوسی ہوئی جب پریرنا کے چہرے پر میں نے ناراضگی دیکھی۔ میں سماعت سے قاصر تھا لیکن اپنے تجربے کی بنیاد پر سمجھ گیا پریرنا نہیں چاہتی وہ دونوں زیادہ دن تمہارے یہاں رُکیں۔ جب وہ روانہ ہو رہے تھے، میں ماں کے چہرے کو ممتا کے جذبات سے منور دیکھا، اس کی آنکھوں سے پیار کے جذبات موتی بن کر جھریوں بھرے چہرے پر لڑھک رہے تھے۔ تمہارے باپ کا چہرہ جذبات سے عاری نظر آرہا تھا۔ وہ اپنے احساسات کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ شاید وہ جان گیا تھا کہ ان کی زندگی کے آخری پلوں کا نصیب بھی گاؤں کا وہی بوسیدہ مکان ہے جہاں سے نکل کر تم اس ٹو بی ایچ کے لگژری فلیٹ میں پہنچے تھے۔
اس رات جب تم نے اپنی ماں کی موت کی خبر سنی اور تم پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے، تمہاری آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئیں تھیں۔ مجھے تم پر بہت ترس آیا۔ تمہار ی آنکھوں سے دکھ کی لہریں میرے وجود میں ضم ہوتی محسوس ہوئیں۔ کاش کہ اس میں ندامت کا عنصر بھی شامل ہوتا۔ کتنے عرصے تمہارے باپ نے تنہائی کی صحبت میں زندگی کا سفر طے کیا ؟ مجھے ٹھیک سے نہیں پتہ۔ میں تو گواہ ہوں تمہاری زندگی کے خوشنما پلوں سے لے کر تنہائی کے ان کے پلوں کا۔ جب تمہارا بیٹا ہاتھوں میں کاغذات لئے تم سے کسی بات کو لے کر بحث کر رہا تھا۔ میں نے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی کیا کچھ چل رہا ہے۔ نہیں سمجھ سکا۔
مگر اب جب دیکھ رہا ہوں تمہارا بیٹا اور بہو اپنی نگرانی میں نوکروں سے گھر کا سامان بڑے بڑے بکسوں میں رکھوا رہے ہیں۔ وہ تمہارے جذبات، تمہارے احساسات سے بے پروا ہیں۔ میں ان میں زندگی کا جوش، ایک نئی امنگ دیکھ رہا ہوں۔ وہ ایک اجنبی نوجوان جوڑے کو فلیٹ کے کمروں میں ادھر سے ادھر اپنے ساتھ لئے جارہے ہیں۔ کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مگر کیا؟ تم میرے سامنے کھڑے ہو۔ تھوڑا کنارے ہٹو تو کچھ جاننے کی کوشش کروں۔ تم لگاتار میری آنکھوں سے خود کو دیکھے جا رہے ہو۔ مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آج تم زندگی کی تلخ حقیقت سے روبرو ہوگئے ہو؟ تمہارا بیٹا تمہارے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر تمہیں میرے سامنے سے ہٹاتا ہے۔ وہ میری طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے۔ شاید وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔ ارے سنبھل کے..... کمبخت نے اس لاپروائی سے مجھے کھینچا کہ میں اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کرگر پڑا۔ میں فرش پر گرتے ہی ٹکڑوں میں بکھر گیا ہوں۔ تم اب بھی گردن جھکائے میری جانب دیکھ رہے ہو۔ اب میں میں نہیں رہا اور تمہارا سفر بھی تمام ہو چکا ہے۔ میری طرح ہی تمہارا وجود بھی ٹوٹ کر کئی ٹکڑوں میں بکھر چکا ہے۔