انسان نے جنگی روبوٹ تیار کیے۔ یہ روبوٹ بڑے خونخوار اور ظالم ہوتے ہیں کیونکہ انھیں جنگ لڑنے، دشمن کو مارنے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اب ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ انھیں چوتھی صنف کے طور پر تسلیم کر لیا جائے اور ہر شعبے میں ان کو نمائندگی دی جائے۔
طیارہ اڑتا ہوا آیا اور سلمان صاحب کے گھر کے آنگن میں اترا۔ ملازم نے آکر اطلاع دی: ’’کچھ لوگ ملنا چاہتے ہیں۔ ‘‘’’کون لوگ؟‘‘’’وہ بتاتے ہیں کہ ہم ’ہیومن پیورٹی‘ تنظیم سے ہیں۔ ‘‘’’اندر بھیج دو۔ ‘‘وہ اندر آئے اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان لوگوں میں سے ایک نے کہا، ’’آپ کے ملازم کی موجودگی میں ہم بات نہیں کر پائیں گے۔ ‘‘سلمان صاحب نے ملازم کو کمرے سے باہر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ سر جھکائے باہر چلا گیا۔ تنظیم والوں نے کہا، ’’ہم اس ملک پر صرف انسانوں کا راج چاہتے ہیں۔ ہم حکومت کو بھی اس کام کے لئے راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ ملک کی فوج اور ہمارے لوگ ساتھ مل کر اس کام کو انجام دیں۔ ‘‘’’تو آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟‘‘’’آپ کی تنظیم ہمارے راستے کا روڑا بنی ہوئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ...‘‘سلمان صاحب ان کی بات کاٹتے ہوئے کہنے لگے، ’’ہم صرف اپنا کام کر رہے ہیں، ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے اور ہم جانتے ہیں کہ ہم غلط نہیں ہیں۔ ‘‘
’’آپ سمجھ نہیں رہے ہیں، یہ ہم سب کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ مستقبل قریب میں وہ، انسانوں کو ختم کرکے یا انسانوں کو اپنا غلام بنا کر پوری دنیا پر راج کر سکتے ہیں۔ ‘‘ سلمان صاحب نے ان کے جملے دہراتے ہوئے کہا، ’’ہو سکتا ہے، کر سکتے ہیں ! مطلب گنجائش ہے کہ نہیں بھی ہو سکتا ہے... اور اس بات کی تو پوری گنجائش ہے کہ ہم ان کا صحیح استعمال کر کے اپنی ترقی کو رفتار دے سکتے ہیں۔ ‘‘گفتگو اسی طرح دیر تک جاری رہی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ جاتے ہوئے وہ گھر میں موجود چیزوں کا کن انکھیوں سے جائزہ لیتے ہوئے دھیرے دھیرے باہر نکلنے لگے۔ پھر انھوں نے سلمان صاحب سے کہا، ’’ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنا ملازم تبدیل کر لیں۔ ایک روبوٹ کے بجائے کسی انسان کو ملازمت پر رکھیں۔ ‘‘ اور پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے اپنے طیارے کی جانب بڑھ گئے۔
آج پھر کچھ جگہوں سے جھڑپوں کی خبر آئی۔ ایک جگہ دو انسانوں نے ایک روبوٹ کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک خبر ایسی بھی سننے کو ملی کہ دس بارہ لوگوں نے ایک روبوٹ کو ختم کر دینے کے ارادے سے، اس پر حملہ کر دیا کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ وہ روبوٹ نہیں انسان تھا تو وہ بہت شرمندہ ہوئے لیکن تب تک اس شخص کی حالت بہت نازک ہو چکی تھی۔ یہ خبریں سن کر ۶؍برس کے محمد علی نے اپنے والد سلمان صاحب سے پوچھا :’’پاپا آئے دن یہ روبوٹ اور انسانوں کے درمیان مارپیٹ کیوں ہو رہی ہے، کیا ہمیشہ سے ہی ایسا ہوتا آیا ہے؟‘‘
’’نہیں بیٹا!! یہ سب کچھ بہت پہلے سے نہیں بلکہ ابھی ابھی شروع ہوا اور یہ انسانوں کی غلطی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ‘‘’’کیسی غلطی پاپا؟‘‘’’بیٹا!! یہ میں تمھیں شام کو بتاؤں گا۔ ابھی ایک اہم جلسے میں جا رہا ہوں۔ ‘‘
محمد علی بے صبری سے اپنے پاپا کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ شام کو گھر آئیں گے اور اسے آگے کی بات بتائیں گے۔ چونکہ اس کے پاپا کبھی کبھی جلد بھی گھر آ جاتے تھے۔ اسی لیے وہ بار بار سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو جاتا اور دیر تک آنے جانے والے لوگوں کو دیکھتا رہتا۔ شام کو جب سلمان صاحب گھر آئے تو علی دوڑتے ہوئے ان کے پاس آیا اور ان سے وہ بات سننے کی ضد کرنے لگا جسے وہ صبح ادھوری چھوڑ کر گئے تھے۔ سلمان صاحب کھاناکھانے کے بعد علی کو لے کر بیٹھ گئے۔ اسی وقت سلمان صاحب کی اہلیہ شہناز بانو چائے لے کر آئی اور مسکراتے ہوئے کہنے لگی، ’’میں بھی سننا چاہوں گی کہ آخر انسانوں نے کونسی غلطی کی ہے؟‘‘سلمان صاحب نے اپنی بیوی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہنا شروع کیا:’’آج میں جس جلسے میں گیا تھا اس جلسے کا عنوان ’’ہیومن۔ روبوٹ ہارمنی فیسٹیول‘‘ تھا۔ یہ پروگرام ایک تحریک کا حصہ ہے اور اس تحریک کا نعرہ ہے ’انسان روبوٹ بھائی بھائی‘۔ آج کچھ انسانوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ روبوٹ انسانوں کے وجود کو ختم کر دیں گے لیکن ہماری اس دنیا میں کچھ اچھے روبوٹ بھی ہیں جو اسپتال، آمد و رفت اور اسی طرح کے دیگر بہت سے شعبوں میں انسانوں کی مدد کرتے ہیں۔ آج کا پروگرام ان اچھے روبوٹ اور ہماری تنظیم نے مل کر منعقد کیا تھا۔ اس پروگرام کے ذریعے ہم نے روبوٹ اور انسانوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ انسان اور روبوٹ کو اس زمین پر مل جل کر رہنا چا ہئے۔ ‘‘
’’محمد علی! انسانوں سے پہلے اس زمین پر ڈائناسور راج کیا کرتے تھے۔ جو کبھی بھی سکون سے نہیں رہ پائے۔ آپس میں ان کی خوب لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں اور طاقتور کمزور کو ختم کر دیتا تھا۔ چند ڈائناسور امن پسند بھی تھے لیکن تشدد پسند ڈائناسور زمین پر فساد برپا کرتے اور خون خرابے کو جنم دیتے۔ ڈائناسور جانور تھے، ان میں عقل نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
پھر قدرت نے ڈائناسور کا خاتمہ کیا اور زمین پر عقل سلیم والے انسانوں کو آباد کیا۔ دھیرے دھیرے انسانوں کے مختلف گروپ بننے لگے اور دل و دماغ میں تعصب کا زہر گھلنا شروع ہو گیا۔ مذہب، ذات پات، علاقہ پرستی، زبان، رنگ و نسل، مسلک، برادری، اور ذاتی اختلافات کی بنیاد پر انسان آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ بات بڑھی تو خون خرابے تک پہنچ گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انسان بھی ڈائناسور جیسا ہو گیا۔ انسان مسلسل ترقی کرتا رہا اور روبوٹ کی ایجاد ہوئی، جسے پہلے پہل انسانوں کی مدد کے لیے بنایا گیا۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے ترقی ہوئی اور پھر ایسے روبوٹ تیارکئے گئے جن میں انسانی جذبات، احساسات اور مصنوعی ذہانت بھی شامل کی گئی۔
پھر انسان نے جنگی روبوٹ تیار کیے۔ یہ روبوٹ بڑے خونخوار اور ظالم ہوتے ہیں کیونکہ انھیں جنگ لڑنے، دشمن کو مارنے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اب ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ انھیں چوتھی صنف کے طور پر تسلیم کر لیا جائے اور ہر شعبے میں ان کو نمائندگی دی جائے۔ چونکہ خون خرابہ ان کے مزاج میں شامل ہو گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ کسی بھی بات کو لے کر تشدد پر اتر آتے ہیں اور اکثر انسانوں پر حملہ کر دیتے ہیں۔ ان میں کچھ اڑنے والے روبوٹ بھی ہیں، وہ اچانک کسی پر حملہ کرتے ہیں اور اڑ کر ایک مقام سے دوسرے مقام پر بھاگ جاتے ہیں۔
بہت سے لوگ روبوٹ پر بڑھتے ہوئے انحصار اور ان کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خوفزدہ ہیں۔ اس کو انسانیت کے لیے ایک خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے آپسی تعصبات کو بھلا کر ’ہیومن پیورٹی‘ نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس تنظیم کے کارکنوں کا گروپ روبوٹ کے بغیر دنیا کی وکالت کر رہا ہے۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ ٹیکنالوجی انسانی زندگی میں بہت زیادہ دخل اندازی کر رہی ہے، اور ان کی آزادی کو ختم کر رہی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود مجھے ان روبوٹس کی ایک بات اچھی لگتی ہے کہ یہ مسلسل کام کرتے رہتے ہیں، انسانوں کی طرح تھک تھکا کر کسی درخت کی چھاؤں تلے سستانے کیلئے بیٹھ نہیں جاتے۔ ‘‘
ایک روز سلمان صاحب اپنے گھر میں آرام فرما رہے تھے تبھی ان کی بیوی نے آ کر اطلاع دی: ’’باہر بہت شور ہو رہا ہے۔ لگتا ہے بھگدڑ مچی ہے۔ ‘‘آہنی بوٹوں کی کھٹ کھٹ کے ساتھ ان کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔ وہ باہر گئے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک دوسرے کو ہتھیار بانٹ رہے ہیں۔ سلمان صاحب سمجھ گئے کہ روبوٹس سے لڑائی کی تیاری ہو رہی ہے۔ وہ لوگوں کو سمجھانے لگے کہ’’آپ لوگ کیوں روبوٹ کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم ان کے پرانے پروگرام کو نئے پروگرام سے تبدیل کرکے انھیں اچھا بنا سکتے ہیں۔ وہ اپنی بات پوری طرح سمجھا بھی نہ پائے تھے کہ ان کا ایک دوست دوڑتے ہوئے ان کے قریب آیا اور کہنے لگا: ’’جنگی روبوٹ نے بڑی تعداد میں اپنی طرح دوسرے نئے روبوٹ بنا لئے ہیں۔ ان کی تعداد اب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور وہ تشدد پر اتر آئے ہیں۔ جلدی چلو یہاں سے، وہ کسی بھی وقت یہاں آ سکتے ہیں۔ ‘‘
ابھی سلمان صاحب کچھ سوچ بھی نہیں پائے تھے کہ ٹھن سے ان کے سر پر کسی بھاری بھر کم چیز سے وار ہوا۔ انھوں نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو پکڑ لیا، ہاتھ خون میں لت پت ہو گئے تھے۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا تو ان کا ملازم ہاتھ میں ہتھوڑا لئے کھڑا تھا۔