شاعری میں نعت کا وہی مقام ہے جو آسمان پر کہکشاں کا ہے۔ ہر دور کے شعراء نے خواہ وہ غیر مسلم شعراء ہوں، نعتیں لکھیں اور خوب لکھی ہیں۔
EPAPER
Updated: September 15, 2024, 3:38 PM IST | Professor Ferozshah | Mumbai
شاعری میں نعت کا وہی مقام ہے جو آسمان پر کہکشاں کا ہے۔ ہر دور کے شعراء نے خواہ وہ غیر مسلم شعراء ہوں، نعتیں لکھیں اور خوب لکھی ہیں۔
اصناف سخن جہانِ سخن کے وہ منور گوشے ہیں جہاں روشنی کی مختلف النوع کہکشائیں جگمگاتی ہیں۔ ہر گوشۂ نور کا اپنا سرور ہے بندگی جس کے وجود سے تابندگی پاتی ہے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ کائنات ِ سخن بلکہ یہ ساری کائنات دراصل حضور اکرم ؐ کی نعت ہے جسے خود احسن الخالقین نے تخلیق فرما کر اس میں ورفعنا لک ذکرک کا جاوداں علم لہرا دیا ہے۔ ازل اور ابد کی بے کراں وسعتوں پر محیط رنگ ِ نعت خوبرو آواز کا راز، سربلند لمحے کا آغاز، کامرانی کا ہمراز، دلِ حزیں کا دمساز اور قبولیت کا اعزاز بن کر زیست کو منزل نصیب بناتا ہے۔ دانائے راز نے بھی درحقیقت اسی صداقت کو زبان دی تھی جب کہا تھا:
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے
نبض ِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
ہماری یہ دنیا اور اس کی تمام تر رعنائیاں محبوب ؐ خدا و کائنات کی تشریف آوری کا صدقہ بھی ہیں اور آپؐ کی عظمتوں بھری نعمتیں بھی! سو میں سمجھتا ہوں کہ تخلیق ِ کائنات کی ساعت تخلیق نعت کی بشارت سے مزین تھی جس کی خوشبو اور روشنی تاابد معطر و منور گھڑیوں کی ضامن رہے گی۔ اس لئے کائنات کی ہر شے کی طرح تخلیقی ادب کا ہر شہ پارہ نعتیہ ادب کا صدقۂ جاریہ ہے۔
یہاں واضح رہنا چاہئے کہ بیہودہ اور ناروا تحریروں کو میں ادب نہیں بے ادبی سمجھتا ہوں اور ادب کا بے ادبی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
’’لسان العرب‘‘ میں ادب کے لغوی معنی دعوت / بلانا کے ہیں۔ سو وہ لٹریچر جس سے ادیب متادب ہوتا ہے اس کو ادب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کو اچھائیوں کی طرف بلاتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے۔ ’’المحیط‘‘ میں ’’الادب‘‘ کے معنی لطافت ِ طبع اور خوش اطواری کے ہیں۔ ان دونوں حوالوں سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ ادب کا تعلق بے ادب، کثیف اور بے ہودہ تحریروں سے ہرگز نہیں بلکہ ادبی تخلیقات کے زمرے میں صرف وہ تحریریں آسکتی ہیں جو لطافت، صداقت اور راست فکر استقامت سے عبارت ہوں گی، اور ایسی تحریریں چاہے ان کا تعلق کسی بھی صنف ِ سخن سے ہو، ایک تقدیس بھری مہک سے معمور ہونگی۔ وہی عالم آرا مہکار جس کا نکھار حسان بن ثابت ؓ اور حضرت کعب بن زبیرؓ کے عقیدت مندانہ لفظوں کا وقار بنتا ہے۔ کیونکہ نعت درِحبیب ؐ پرپلکوں سے دستک دینے کا مقدس روحانی عمل ہے!
یہی عمل خیر اہلِ شعر کیلئے باعث فلاح و نجات بھی ثابت ہوا کہ جب ’سورۃ الشعراء‘ کی آیات عظیمہ میں شاعروں کو قول و فعل میں تضاد رکھنے والا اور ان کی پیروی کرنے والوں کو گمراہ قرار دیا گیا تو حضرت کعب ؓ روتے ہوئے دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ’’یا رسولؐ اللہ ! ہم تو مارے گئے، ہماری نجات کی کوئی سبیل نہیں۔‘‘
تب سورہ مبارکہ کی تکمیلی آیات نازل ہوئیں، فرمایا ’’بجز ان (شعراء) کے جو ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور وہ کثرت سے اللہ کو یاد کرتے ہیں۔‘‘
اس طرح جملہ اصناف ِ سخن میں سے نعت ہی تھی جس نے وابستگانِ سخن کو تباہی سے بچا لیا۔ ڈاکٹر سیدابوالخیر کشفی نے شاید اسی لئے نعت گوئی کو لفظوں کا جہاد قرار دیا ہے۔
نعت، عربی کے بعد فارسی اور پھر اردو میں آئی ہے۔ شعرائے کرام دکنی دَور سے اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ گولکنڈہ اور بیجاپور کے فرمانروا ربیع الاول کی تقریبات بڑے اہتمام سے منعقد کرتے تھے۔ دلی مرکز اردو بنا تو نعت کے اسالیب میں نلھار پیدا ہوا۔ میرتقی میر نے کہا:
ؕجلوہ نہیں ہے نظم میں حسنِ قبول کا
دیں ا میں شعر گر نہیں نعتِ رسول کا
تب سے اب تک اور ابد تک دیوانِ شاعر نعت ِ محبوب ؐ کے سدابہار پھولوں کی مہک سے سرشار ہے اور رہے گا۔
ایک عالمگیر سچائی یہ بھی ہے کہ نعت گوئی صرف شاعری تک محدود نہیں بلکہ نثر میں بھی اس کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ شبلی کی تحریر ’’ظہور قدسی‘‘ اور خواجہ حسن نظامی کی نثری تخلیقات کے علاوہ بے شمار ایسے دلنواز نثر پارے موجود ہیں جو ماہ طیبہ کی چاندنی سے دمکتے ہیں۔
ان ابتدائی مگر ضروری معروضات کے بعد اب ہم تحریر کے موضوع ’’اصناف سخن کا تنوع اور نعت‘‘ کی طرف براہ راست آتے ہیں۔
اردو شاعری پر غائرانہ نگاہ ڈالئے تو یہ صداقت آشکارا ہوگی کہ ہر صنف ِ سخن چاہے وہ موضوعاتی ہو یا ہیئتی، نعت کی ضیا باریوں سے مالا مال ہے، گویا صنف ِ سخن کی حیات آقائے کائنات کے عشق سے ثبات حاصل کرتی ہے۔ ذیل میں تین اصناف سخن دیکھئے:
حمد: حمد متبرک و مقدس صنف سخن ہے جو خالق زبان و مکاں کی بے مثال عظمتوں کو سلام پیش کرتی ہے۔ اس صنف سخن میں رب رحیم کی عظیم رحمتوں کے علاوہ کسی اور کا ذکر نہیں ہوسکتا لیکن دیکھئے کہ اہل فکر و عقیدت نے کس خوش اسلوبی سے محبوب رب کریم کا تذکرہ کیا ہے کہ حمد کے تقاضے بھی پورے ہوئے اور دل کی عقیدت بھری بات بھی عطربیز ہوگئی:
تیرا، ترے فرشتوں کا ہو کر میں ہمنوا
بھیجوں درود صبح و مسا ربّ ذوالجلال
تجھ پر بھی ہم فدا ہوں ، تیرے نبیؐ کو چاہیں
قرآں ہماری منزل سنت ہماری راہیں
قصیدہ: ایک زمانہ تھا کہ دورقصیدہ گوئی کہلانے کا بجا طور پر سزاوار تھا۔ بہت عرصہ تک قصیدہ کا ڈنکا بجتا رہا۔ شاہوں، نوابوں، رئیسوں اور بڑے لوگوں کے قصیدے جوش و خروش سے پڑھے جاتے جو باعث اعزاز وانعام واکرام قرار پاتے رہے۔ اب بھی اگرچہ نظم و غزل کا دور ہے تاہم قصیدہ کا وجود اپنی نمود سے بےخبر نہیں ہے۔ مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عہد قصیدہ گوئی میں بھی شعراءِ کرام نے آقائے کائنات کے حضور عقیدتیں پیش کرتے ہوئے قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ امیر مینائی کا رنگ ِ سخن دیکھئے:
اللہ نے دیا ہے یہ اس کو جمال پاک
سنبل فدا ہے زلف پہ رخ پر نثار پھول
اللہ کی دین یہ ہے کہ باتیں ہیں معجزہ
ہوتے ہیں ایک غنچے سے پیدا ہزار پھول
وہ چہرہ وہ دہن کہ فدا جس پہ کیجئے
ستّر ہزار غنچے، بہتر ہزار پھول
مثنوی: دکن کی ادبی فضا میں اردو کو مثنوی سے آراستہ کیا گیا اور یوں مثنوی اس نوزائیدہ زبان میں اوّلیت کی اہمیت سے آشنا ہوئی۔ اس صنف سخن میں عشق و محبت کے جذبات، تاریخی واقعات اور مدح و ذم جیسے ہر قسم کے مضامین کو بیان کیا گیا۔ اشعار زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم مربوط ہونے کی بنا پر دلکشی کی صفت سے معمور ہوتے تھے۔ مثنوی میں رنگ ِ سودا ؔدیکھئے جو عشق نبیؐ سے معطر ہے:
محمد باعث ِ ایجاد افلاک /محمد علت غائی ٔاملاک
محمد کنت کنزاً کی گواہی/محمد عالمِ علم ِ الٰہی
محمد ہے مشیر ِ عالم غیب/محمد رازدار حق ہے لاریب
محمد جگ میں سالار رسل ہے/محمد ماہر ہر جزوِ کل ہے/کہوں کیا خلق انسان میں کیا ہے
شرف آدم کو فخر انبیاء ہے
(طویل مضمون سے)