بارش کی بوندیں آج بھی ویسی ہی تھیں.... شفاف، نازک اور نرم، مگر ان میں وہ خوشبو نہیں تھی جو کبھی دل کو بھگو دیتی تھی۔ سڑک کے کنارے بیٹھی میں چھتری ہاتھ میں لئے بس گزرے وقت کے عکس دیکھ رہی تھی۔
EPAPER
Updated: October 02, 2025, 2:12 PM IST | Dr. Asma Bint Rahmatullah | Mumbai
بارش کی بوندیں آج بھی ویسی ہی تھیں.... شفاف، نازک اور نرم، مگر ان میں وہ خوشبو نہیں تھی جو کبھی دل کو بھگو دیتی تھی۔ سڑک کے کنارے بیٹھی میں چھتری ہاتھ میں لئے بس گزرے وقت کے عکس دیکھ رہی تھی۔
بارش کی بوندیں آج بھی ویسی ہی تھیں.... شفاف، نازک اور نرم، مگر ان میں وہ خوشبو نہیں تھی جو کبھی دل کو بھگو دیتی تھی۔ سڑک کے کنارے بیٹھی میں چھتری ہاتھ میں لئے بس گزرے وقت کے عکس دیکھ رہی تھی۔
یاد ہے مجھے....
یہی سڑک، یہی بارش، اور وہ میرے ساتھ۔ ہم ایک ہی چھتری کے نیچے چل رہے تھے اور وہ شرارت سے بولا تھا، ’’تمہیں پتہ ہے؟ زندگی رنگوں کے بغیر کیسی ہوتی ہے؟‘‘
مَیں نے مسکرا کر کہا تھا، ’’کیسی؟‘‘
وہ رکا، میری آنکھوں میں جھانک کر بولا، ’’ایسی.... جیسے تمہارے بغیر۔ کیونکہ تم میرا رنگ ہو۔‘‘ یہ جملہ اس دن میری روح میں اتر گیا تھا، جیسے بارش کا ایک قطرہ مٹی میں جذب ہو کر خوشبو بن جائے۔
مگر کہانیاں ہمیشہ خوشبو پر ختم نہیں ہوتیں۔ وقت نے جیسے اپنی سیاہی میرے رنگوں پر پھیر دی۔ وہ چلا گیا، سب کچھ ساتھ لے گیا.... خوابوں کی کھڑکیاں، باتوں کے باغ، اور میرے دل کا موسم ِ بہار۔
مَیں لوٹی تو تھی مگر اپنے آپ کو ساتھ نہ لاسکی۔ لوگ اب بھی کہتے تھے، ’’تم وہی ہو، پہلے جیسی۔‘‘
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : دل شیشہ، دل پتھر
مَیں ہلکا سا مسکرا دیتی، مگر اندر سے جانتی تھی کہ مَیں بدل گئی ہوں۔ مَیں ایک چلتا پھرتا وجود نہیں رہی، بس ایک مدھم سا سایہ تھی۔
راتیں اور بھی طویل ہو گئیں۔ مَیں نے خود کو مصروف رکھنے کے لئے کتابوں، کام، اور ملاقاتوں کا سہارا لیا۔ لیکن سب کچھ جیسے بے رنگ کینوس پر بکھرا ہوا ہو۔ ہر قہقہے میں ایک خالی پن تھا، ہر لفظ میں ایک خاموشی۔
ایک دن، شام کے ڈھلتے لمحوں میں، مَیں پارک کے ایک کونے میں بیٹھی تھی۔ قریب ہی بچے کھیل رہے تھے۔ ایک ننھی سی بچی، جس کے بالوں میں دو رنگین ربن بندھے تھے، اپنے کھلونے چھوڑ کر میرے پاس آگئی۔
’’آنٹی!‘‘ وہ مسکرائی، ’’آپ کی آنکھوں میں کہانیاں ہیں.... مجھے سنائیں نا!‘‘
مَیں چونک گئی۔ برسوں بعد کسی نے میری آنکھوں میں جھانک کر کچھ محسوس کیا تھا۔ میں نے دھیرے سے کہا، ’’کہانی سننی ہے تو وعدہ کرو کہ اسے دل سے سنو گی۔‘‘
وہ سر ہلا کر بولی، ’’پکا وعدہ!‘‘
مَیں نے ایک کہانی سنانی شروع کی.... ایک کہانی ایک پرندے کی، جو طوفان میں اپنے پر کھو بیٹھتا ہے، مگر دوسرے پرندوں کے گھونسلے بنانے میں مدد کرکے خوشی ڈھونڈ لیتا ہے۔ بچی خاموشی سے سنتی رہی۔ کہانی ختم ہوئی تو وہ بولی، ’’آپ کی کہانی نے میرا دن رنگین کر دیا۔‘‘
اس ایک جملے نے میرے دل کے کسی بند کمرے کی کھڑکی کھول دی۔ مَیں نے محسوس کیا کہ شاید رنگ لوٹانے کا مطلب اپنے کھوئے رنگ واپس لانا نہیں، بلکہ دوسروں کے لئے رنگ بن جانا ہے۔
اس دن کے بعد مَیں نے اپنے اندر کے خالی پن کو بانٹنے کے بجائے، روشنی بانٹنے کا فیصلہ کیا۔ مَیں اسکولوں میں جا کر بچوں کو کہانیاں سناتی، یتیم خانے میں خوابوں کے خاکہ بناتی، اور بیمار بوڑھوں کے پاس بیٹھ کر ان کے دن میں خوشبو بھرتی۔
وقت گزرتا گیا.... اور ایک روز، اسی پارک میں، وہی ننھی بچی دوڑتی ہوئی آئی۔ اس بار اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا، جس پر رنگوں سے ایک تصویر بنی تھی.... ایک عورت، جس کے گرد قوسِ قزح کے ساتوں رنگ تھے۔ اس نے شرماتے ہوئے کہا، ’’آنٹی، یہ آپ ہیں.... کیونکہ آپ دوسروں کی دنیا رنگین کر دیتی ہیں۔‘‘
مَیں اس تصویر کو دیکھتی رہی.... اور برسوں بعد، میری آنکھوں میں نمی آئی، لیکن یہ آنسو اداسی کے نہیں تھے۔ یہ اس بات کی گواہی تھے کہ میرا سایہ، جسے میں ادھورا سمجھتی تھی، دراصل ایک پورا رنگ بن چکا تھا۔
اب رات جب گہری ہوتی ہے، مَیں کھڑکی سے باہر دیکھتی ہوں۔ ہوا میں کچھ پرانے رنگ بکھرے محسوس ہوتے ہیں.... وہ میرے نہیں، مگر اب مَیں جانتی ہوں.... رنگ اپنا نہ بھی ہو، تو بھی روشنی بانٹی جاسکتی ہے۔
مَیں اب ایک کہانی ہوں.... اور ایک رنگوں کا سایہ جو دوسروں کی زندگی میں بہار لے آتا ہے۔