اس افسانے میں گھر کا سب سے اہم گوشہ اپنی آپ بیتی بیان کر رہا ہے۔
EPAPER
Updated: September 03, 2025, 3:41 PM IST | Tayyaba Israr | Bhiwandi
اس افسانے میں گھر کا سب سے اہم گوشہ اپنی آپ بیتی بیان کر رہا ہے۔
مَیں یہ چھوٹا سا کمرہ، گھر میں خاموش کھڑا ہوں۔ وہ کمرہ جسے صدیوں عورت کی پہچان سمجھا گیا۔ کبھی خوشبوؤں کا میلہ، کبھی ذائقوں کا جشن، کبھی دھوئیں کا جادوئی قفس۔ مَیں یہاں رہنے والی ہر نسل کی دھڑکن، دعا، خوشی اور صبر کا گواہ ہوں۔ میری دیواریں جن پر وقت کی لکیریں، دھوئیں کے ہلکے داغ ہیں، ہزاروں کہانیوں کو چھپائے ہوئے ہیں۔ یہاں ہر برتن، ہر مسالہ دان ایک داستان سناتا ہے، بیتے لمحوں کی یاد دلاتا ہے اور مَیں خاموشی سے ہر اس لمحے کو اپنے دل میں بسانے کی کوشش کرتا ہوں۔
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ مَیں باورچی خانہ ہوں۔ آج خاموشی مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ مَیں چپ ہوں، میری دیواروں پر سناٹا طاری ہے اور فضا میں اداسی پھیلی ہوئی ہے۔ مَیں آپ سے مخاطب ہوں تاکہ اپنا غم کچھ ہلکا کر سکوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میری کہانی ضرور سنیں گے اور میرے دکھ کو محسوس کریں گے۔
ایک زمانہ تھا جب باورچی خانہ یعنی مَیں گھر کی جان تھا۔ مَیں صرف چولہے اور برتنوں کا کونا نہیں تھا، خوشبوؤں، ذائقوں اور محبتوں کا مرکز بھی تھا۔ صبح صادق کے وقت جب آنگن میں اوس کے قطرے چمکتے اور مرغ اذان دیتا، دادی کے قدم دھیرے دھیرے میری طرف بڑھتے۔ ان کے ہاتھوں میں تانبے کا لال پیالہ اور کندھے پر لکڑیوں کی گٹھری ہوتی۔ دروازہ کھلتے ہی مَیں ان کا استقبال کرتا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا کہ چولہے کے قریب رکھا راکھ کا ڈھیر دادی کی آمد کی راہ دیکھ رہا ہو۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں دادی دعا پڑھ کر ماچس کی تیلی جلاتیں، لکڑیاں سلگتیں تو دھواں میری فضا میں گھل کر دھند بن جاتا۔ مَیں نے دیکھا کہ بچے میری بھاپ میں تصویریں بناتے، قہقہے میری چھت سے ٹکرا کر آنگن میں بکھر جاتے۔ میرے طاقچوں میں رکھے برتن دادی کے نزدیک محض سامان نہیں وقت کی یادگار تھے۔ ہانڈی جس میں دال پکتی، مٹی کی صراحی جس سے مسافر پیاس بجھاتے، تام چینی کی پلیٹیں جس میں سب عید کی سوئیاں کھاتے.... مَیں ہر خوشبو، ہر لمس کو محسوس کرتا۔
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : جھوٹے لوگ
دادی آٹا گوندھتیں تو پانی کے ساتھ ان کی محبت بھی شامل ہوتی۔ آٹے کے نرم گولے، بیلن کی مدھم تھاپ اور توے پر روٹی کی خوشبو.... یہ سب کسی عبادت سے کم نہ تھا۔ مسالے سل بٹے پر پسے جاتے، ان کی خوشبو صحن سے نکل کر گلیوں تک پہنچ جاتی۔ پیاز اور مرچی کترنے کی آواز، ہانڈی میں تڑکے کی چھنکار، آٹے کی چکی کی مدھم گونج، گرمیوں میں کچے آموں کے اچار کی مہک اور سردیوں میں تل گڑ کے لڈوؤں کی بھینی خوشبو.... یہ سب مجھے مسحور کر دیتے۔
مَیں نے دادی کے چہرے پر وہ تھکن دیکھی جو مسرت میں ڈوبی ہوئی تھی.... ان کی آنکھوں میں صبر کی چمک اور محبت کی روشنی۔ ان کے ہاتھوں کی گرمی سے میری دیواریں نرمی محسوس کرتیں۔ ان کے ہاتھوں سے بنے ہر سالن، ہر روٹی اور ہر دال میں ایک دعا چھپی ہوتی۔ رات کے وقت جب سب گھر والے صحن میں بیٹھ کر کھانا کھاتے تو مَیں دیکھتا کہ دادی کی دعائیں کس طرح کھانے کے ذائقے میں گھل جاتیں۔ میرے لئے یہ وقت زندگی کی سب سے قیمتی گھڑیاں تھیں۔
پھر وقت بدلا۔ بجلی کے بلب لگے، مٹی کا چولہا گیا اسٹیل کے برتن آئے اور میری زندگی میں ماں داخل ہوئیں۔ دیواروں کی کالک مٹنے لگی۔ اس وقت بھی میری حیثیت ایک کمرے سے بڑھ کر تھی۔ مَیں گھر کا دل، محبت اور فکر کا جہان تھا۔ دن کی شروعات چائے کی بھاپ سے ہوتی۔ کھانا بناتے وقت کبھی غزل، کبھی قوالی اور خبریں سننا ان کا معمول تھا۔ مسالوں کی خوشبو اور ریڈیو کی دھن مل کر ایک الگ ہی فضا بناتے۔ کبھی پراٹھوں کی خوشبو اڑتی، کبھی قورمے کی بھاپ فضا میں تحلیل ہوتی۔ اسکول جانے والے بچوں کے لنچ باکس تیار ہوتے۔ ماں کے دن کا بڑا حصہ یہیں گزرتا جہاں برتنوں کی کھڑکھڑاہٹ اور بھاپ کے بادل ان کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔
مہمان آتے تو دسترخوان پر سجی رکابیوں میں محبت چمکتی.... انواع و اقسام کے کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوؤں سے فضا مہک اٹھتی۔ بچوں کے قہقہے، بڑوں کی باتیں اور چمچوں کی ہلکی اواز یہ سب میرے کانوں میں ایک ہم آہنگ موسیقی پیدا کر دیتے۔ مجھے یوں لگتا کہ مَیں صرف برتنوں اور چولہے کا مجموعہ نہیں بلکہ زندگی کے ان چھوٹے چھوٹے خوبصورت لمحوں کا محافظ ہوں۔
مَیں نے بارہا ماں کے چہرے پر تھکن کی لکیریں دیکھیں۔ وہ کبھی چھت کی طرف دیکھتیں، کبھی برتن مانجھتیں اور اندر ہی اندر اپنے بکھرے خوابوں کو سمیٹتیں۔ ماں کے لئے مَیں صرف کھانا پکانے کی جگہ نہیں تھا بلکہ ان کی یادوں کا صندوق بھی تھا وہ سبزی کاٹتے ہوئے اپنی ماں کو یاد کرتیں، سالن بھونتے ہوئے اپنی بیٹی کے مستقبل کے خواب دیکھتیں.... کبھی تھک کر بیٹھ جاتیں اور سوچتیں، ’’کاش میرے خواب بھی اس کمرے سے باہر جاسکتے....‘‘ مگر اگلے ہی لمحے ہانڈی کا ڈھکن اٹھنے کی اواز آتی اور ان کے خواب بھاپ کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جاتے۔ مَیں ان کی قربانی اور محبت کا چشم دید گواہ ہوں میری ہر دیوار پر ان کے صبر کے نقوش موجود ہیں۔
آج میرا یہ حال ہے کہ تیز رفتار زندگی کے شور میں، مَیں اپنی حیثیت کھو بیٹھا ہوں۔ مَیں جو کبھی اقدار کا محافظ تھا، آج تنہائی کا شکار ہوں۔ نئی نسل کے نزدیک میں گھر کا محض ایک معمولی گوشہ ہوں۔ ایک چھوٹا سا کمرہ.... میری دیواریں صاف تو ہیں مگر یادوں سے خالی، جیسے مجھ سے میری دھڑکن چھین لی گئی ہو۔ میرے چولہے پر اب شعلہ کم ہی جلتا ہے، برتن چمکتے ضرور ہیں مگر ان میں وہ کہانیاں نہیں جو کبھی بھاپ کے بادلوں میں تحلیل ہو جاتی تھیں۔ گیس کا اسٹو، اَوَن، مائیکروویو، بلینڈر، ایئر فرائر.... درجنوں وسائل دستیاب ہیں مگر زیادہ تر خاموش رہتے ہیں۔ زندگی اتنی تیزگام ہوگئی ہے کہ لوگ کھانے کی تیاریوں میں وقت صرف کرنے کو فضول سمجھنے لگے ہیں۔ اصل زندگی تو فاسٹ فوڈ اور ریستورانوں کے گرد گھومتی ہے۔ اب وہ لمحات ناپید ہوتے جا رہے ہیں جب سب ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر سادگی اور محبت سے بنے گھر کے کھانوں کا لطف اٹھاتے تھے۔ ریفریجریٹر میں ریڈی میڈ کھانے کے پیکٹس بھرے پڑے ہیں.... پیزا، برگر، نگٹس، سینڈوچز.... لیکن یہ کبھی خوشبو نہیں بکھیرتے۔ گھر کے بچے آن لائن کھانوں کے ذائقے جانتے ہیں مگر وہ خوشبو نہیں جو صدیوں تک رگ و پے میں اترتی رہی۔
مَیں جانتا ہوں وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔ عورت نے خود کو میرے حصار سے آزاد کیا، خواب اب ہانڈی اور سل بٹے میں قید نہیں رہے۔ یہ آزادی مبارک ہو، لیکن مَیں یہ بھی جانتا ہوں کہ ذائقے صرف زبان کا نہیں، دل کا حصہ بھی ہوتے ہیں۔ باہر کا کھانا پیٹ تو بھر دیتا ہے لیکن دادی اور ماں کے ہاتھوں سے بنے کھانوں میں جو دعا لمس اور اپنائیت تھی وہ کہاں؟ مَیں اب بھی اپنی جگہ کھڑا ہوں لیکن میری سانسیں دھیمی ہوچکی ہیں۔ میری ویرانی دراصل لوگوں کے درمیان سرد ہوتے تعلقات کی نشانی ہے۔
مایوس کن حالات کے باوجود مَیں امید کرتا ہوں کہ کبھی کوئی میری دہلیز پر آئے گا اور ہنستے ہوئے کہے گا آج گھر والوں کے لئے اپنے ہاتھوں سے کھانا بنائیں گے۔ شاید اس دن مَیں پھر سے سانس لوں گا پھر سے خوشبوؤں کا میلہ لگے گا اور مَیں ایک بار پھر گھر کی روح کہلاؤں گا میری دیواریں، چھت اور کھڑکیاں سب وہی خوشبو اور روشنی جذب کریں گے جو دادی کے مٹی کے چولہے اور ماں کے اسٹیل کے برتنوں میں تھی۔