لیکن بچے نے تو ابھی کام پورا نہیں کیا اور محبت کی ماری ماں نے کھانے کا وقت ہوتے ہی کھلانا شروع کر دیا۔
EPAPER
Updated: September 02, 2025, 3:50 PM IST | Toubai Ambrain | Muzaffarnagar
لیکن بچے نے تو ابھی کام پورا نہیں کیا اور محبت کی ماری ماں نے کھانے کا وقت ہوتے ہی کھلانا شروع کر دیا۔
اس نے جیسے ہی بیٹے کے منہ میں نوالہ ڈالا تو اُسے یاد آیا....
ابھی تو کچھ دیر پہلے ہوم ورک کرتے وقت کہا تھا، ’’اسے پورا کر لو تب کھانا کھلاوں گی۔‘‘
لیکن بچے نے تو ابھی کام پورا نہیں کیا اور محبت کی ماری ماں نے کھانے کا وقت ہوتے ہی کھلانا شروع کر دیا۔
یہ خیال آتے ہی اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ خود ماضی میں پہنچ گئی۔
جب وہ بہت چھوٹی تھی، یہی کوئی سات آٹھ سال کی۔ اس نے پہلی بار امی کی مدد حاصل کئے بغیر ابّو کے لئے لال چائے بنائی تھی۔ جسے ابّو نے پی کر تعریفوں کے پل باندھ دیئے تھے۔ تعریف سن کر اُسے خیال آیا کہ کیوں نا خود بھی چائے بنا کر پی جائے۔ جیسے ہی اس نے چائے کا پہلا گھونٹ لیا تو اُسے اُبکائی آنے لگی۔ نمک جیسے ایک چٹکی کے بجائے ایک مٹھی ڈال دی ہو اور لیموں ایک بوند کے بجائے ایک کاش ڈال دیا ہو۔
وہ سوچنے لگی کیا ابّو نے جو چائے کی تعریف کی تھی وہ سچ تھی؟ ہاں ابّو جھوٹے تھوڑی ہیں۔ ابھی خراب بن گئی ہو، اس وقت ضرور اچھی بنی ہوگی۔ خیر پھر ایک وقت آیا اس نے پہلی مرتبہ پلاؤ بنایا۔ اس مرتبہ تو ابّو نے تعریف کے ساتھ بیس روپے انعام بھی دیئے۔ اگلے دن اس نے خوشی خوشی اپنی سہیلیوں کو اپنے کارنامے بتائے۔ میں کیسے ماہر بن گئی ہوں۔
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : تخلیق ِ نو
پھر جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی اُسے خود کے کھانے میں بہتری محسوس ہوتی گئی۔ مثلاً اِس چیز کی کمی تھی، اُس چیز کی زیادتی تھی وغیرہ وغیرہ۔ کھانے کا ذائقہ بھی بدلنے لگا۔ شاید امی کے ہاتھوں جیسا۔ لیکن اُسکے ابّو کے الفاظ نہیں بدلے۔ وہی تعریفی کلمات جو پہلے تھے وہ اب بھی ہیں۔
وہ گرمی کی چھٹیاں گزار کر جب بھی ننھیال سے واپس آتی امی بڑے غصے میں ہوتیں۔ آئندہ سے تم لوگوں کو نہیں لے جاؤں گی۔ بہت شرارت کرتے ہو، بات نہیں سنتے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگلی چھٹیوں میں شاید امی بھول جاتی تھیں۔ اُسے اور اُس کے چھوٹے بھائی بہنوں کو بڑے پیار سے تیار کراتیں۔ اور وہ پیکنگ میں امی کی مدد کرتے وقت سوچتی: امی نے جھوٹ کہا تھا، امی ایسا کر ہی نہیں سکتیں۔
اسی جھوٹ سچ کے اُدھیڑ بن میں وہ بچی بڑی ہوگئی۔ اتنی بڑی کے ماں باپ نے بھیگی پلکوں کے ساتھ اُسے ڈھیروں نصیحتیں کرکے دوسرے گھر بھیج دیا۔ اس نے سسرال میں جب پہلی مرتبہ کھانا بنایا تو بہت خوش تھی کہ یقیناً سبھی کو کھانا پسند آئے گا۔ اتنے میں دسترخوان سے آواز آئی: ’’کھانا بالکل بھی چٹ پٹا نہیں ہے اور نمک کی بھی کمی ہے۔ پھر اُس کے شوہر نے کہا امی جانے دیں ابھی بچی ہے، سیکھ جائے گی دھیرے دھیرے۔ اُس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ زور زور سے چلا کر کہے: نہیں نہیں میں بچی نہیں ہوں، مجھے کھانا بنانا آتا ہے، میرے ابّو تو ہمیشہ تعریف کرتے ہیں۔ کیا میرے ابّو جھوٹے ہیں یا پھر آپ لوگ؟ لیکن وہ خاموشی سے اٹھی اور کمرے میں چلی گئی۔
اس قسم کے سوالات اکثر اُس کے ذہن میں آتے رہتے تھے۔ لوگ سچ کیوں نہیں بولتے ہیں؟ پھر دھیرے دھیرے اُس کی اور بھی غلط فہمیاں دور ہوتی گئیں اور اُسے معلوم ہوگیا کہ لوگ سچ کہتے ہیں۔ اصل میں ماں باپ ہی بچوں کی محبت میں جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ سوچنے لگی اگر بچپن میں ہی سچ بتا دیتے تو آج اتنی تکلیف نہیں ہوتی۔ اس نے سوچا وہ اپنے بچوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گی، ہمیشہ سچ کہے گی چاہے اُس کی دل آزاری ہی کیوں نہ ہو جائے۔
دیکھتے دیکھتے ایک دن وہ بھی آیا کہ وہ چھوٹی سی بچی آج ماں بھی بن گئی۔ اُس کا بیٹا اسکول بھی جانے لگا۔ اچانک اُس کے کانوں میں آواز آئی، ’’امّاں! تیتا (تیکھا).... پانی... پانی!‘‘ وہ چونکی اور ہڑبڑاہٹ میں اِدھر اُدھر سِپر تلاش کرنے لگی۔ بیٹے کو پانی دیا اور خیالوں کو جھٹکا۔ پھر دالان سے اٹھی، ایک ہاتھ سے بیٹے کو گود لیا اور دوسرے میں خالی پلیٹ لے کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ آج وہ بھی جھوٹے لوگوں میں شامل ہوگئی۔ ہزار کوششوں کے باوجود بھی وہ خود کے دامن کو محبت بھرے جھوٹ سے بچا نہ سکی: ماں باپ کے سائے کی نا قدری نہ کر/ دھوپ کاٹے گی بہت جب یہ درخت کٹ جائے گا!