Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : حقیقی حسن

Updated: May 21, 2025, 1:03 PM IST | Zeenat Malik | Mumbai

’’ارے رمیشہ تم یہ لال رنگ کا سوٹ پہنو گی۔ تم کو معلوم ہے کہ تمہاری رنگت سیاہ ہے، کم سے کم رنگ کے حساب سے کپڑے پہننا سیکھو۔‘‘ تیکھے اور دل کو ٹھیس پہنچانے والے یہ الفاظ رمیشہ کی بڑی بہن عائشہ کے تھے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

’’ارے رمیشہ تم یہ لال رنگ کا سوٹ پہنو گی۔ تم کو معلوم ہے کہ تمہاری رنگت سیاہ ہے، کم سے کم رنگ کے حساب سے کپڑے پہننا سیکھو۔‘‘ تیکھے اور دل کو ٹھیس پہنچانے والے یہ الفاظ رمیشہ کی بڑی بہن عائشہ کے تھے۔
 ظہیر صاحب اور ان کی بیوی مس نبیلہ کی دو بیٹیاں تھیں بڑی عائشہ اور چھوٹی رمیشہ۔ ظہیر صاحب اور نبیلہ کے لئے یہی سب کچھ تھیں۔ ظہیر صاحب کا بزنس بھی کافی اچھا تھا۔ کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ عائشہ دکھنے میں نہایت ہی خوبصورت صاف شفاف تھی اور رمیشہ جس کی رنگت سیاہ تھی مگر سیرت اس کی بے حد اچھی تھی۔ تیز ذہن، ادب و شعور تو اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جہاں رمیشہ عائشہ کا بے حد احترام کرتی تھی وہیں عائشہ اس سے نفرت کرتی تھی اور اس نفرت کی وجہ سے صرف اور صرف رمیشہ کی سیاہ رنگت تھی۔ وہ سب کے سامنے اسے اپنی بہن کہنے سے بھی کتراتی تھی۔ عائشہ آئے دن کوئی نہ کوئی ایسا کام یا پھر ایسے تیکھے الفاظ اپنی زبان سے نکالتی تھی کہ رمیشہ کے دل کو ٹھیس پہنچتی تھی۔ وہ صبر کے ساتھ اپنے آنسو جذب کر لیتی تھی۔ اسی طرح آج بھی عائشہ نے رمیشہ کی دل آزاری کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : بوڑھا برگد

’’آپا جان! مجھے اپنی سیاہ رنگت سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کی پہچان اس کے کالے گورے رنگ سے نہیں، اس کی سیرت سے، اس کی اچھائیوں سے ہوتی ہے۔ آپا کیا آپ نے حضرت بلال حبشی ؓ کے بارے میں نہیں سنا۔ وہ حبش کے رہنے والے تھے، ان کی رنگت سیاہ تھی اور اللہ نے ان کو مرتبہ کتنا اونچا بخشا تھا کہ سب سے پہلے اذان انہوں نے ہی دی اور تو اور وہ نبی کریم کے خدمتگاروں میں بھی شامل تھے۔ جب اللہ اور رسولﷺ کو سیاہ رنگت سے کوئی اعتراض نہیں تو پھر آپ کو کیوں؟ ان کی نظر میں سب برابر ہیں! اور ہمارا دین مذہب اسلام ہمیں ادنی، اعلیٰ، غریب، امیر کالے اور گورے میں فرق نہیں سکھاتا بلکہ سب لوگوں سے محبت کرنا سکھاتا ہے۔ مگر ہم انسان اس بات کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔‘‘
 یہ سب باتیں سن کر عائشہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اسے رہ رہ کر اس بات کا احساس ہونے لگا کہ میں نے نہ جانے کتنی بار اپنے سخت الفاظ اور خراب رویے سے رمیشہ کا دل دکھایا اور ان سب کے بدلے میں رمیشہ نے مجھے محبت سے نوازا۔ نہ کبھی اونچی آواز سے جواب دیا۔ ہمیشہ پیار سے ہی مجھے سمجھایا مگر میں اپنی خوبصورتی کے آگے اتنی اندھی ہوگئی کہ اپنی پیاری بہن رمیشہ کو سمجھ ہی نہیں پائی۔
 ہچکیوں کے درمیان اس نے رمیشہ سے معافی مانگی، ’’رمیشہ میری پیاری بہن مجھے معاف کر دو۔ میں تم سے اپنے دل کی گہرائیوں سے معافی مانگتی ہوں۔‘‘
 رمیشہ نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور پھر مس نبیلہ ہاتھوں میں ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہوتی ہے۔ وہ دونوں بہنوں کو ایک ساتھ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں پھر ظہیر صاحب کی آنکھوں کے اشارے اور سرگوشی سے مسکرانے لگتی ہیں۔
 ’’اچھا چلو بچو! اب یہ اپنی آنکھیں صاف کرو اور تمہاری امی نے اس خوشی کے موقع پر تمہارے لئے تمہاری پسندیدہ ڈش بنائی ہے۔‘‘
 عائشہ اور رمیشہ دونوں مسکرانے لگیں اور اس طرح عائشہ کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ انسان کی خوبصورتی نہیں، اس کی سیرت ہی اس کی پہچان ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK