Inquilab Logo Happiest Places to Work

مَیں اور سلائی مشین

Updated: August 20, 2024, 5:03 PM IST | Muniba Zulfikar Ali | Mumbai

قصہ کچھ یوں ہے کہ میں نے پہلی بار سلائی مشین چلانے کا ارادہ کرکے پھوپھی کے گھر جانے کا قصد کیا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

قصہ کچھ یوں ہے کہ میں نے پہلی بار سلائی مشین چلانے کا ارادہ کرکے پھوپھی کے گھر جانے کا قصد کیا۔ بس پھر کیا تھا پہلے پہلے تو مجھے اپنا وجود اس ناول کی ہیروئن کی طرح لگا جس کے گورے گورے پاؤں کالے سے پیڈل پر دمکتے ہوں اور اس کے سگھڑاپے کا خاندان بھر میں ‏چرچا ہو۔ میں نے بھی تمام تر خوابوں میں جان ڈالنے کے لئے والدہ ماجدہ کو زبردستی مجبور کیا کہ مجھے سکھائیں ساتھ ہی والا گھر چونکہ پھوپھی کا ہے سو وہاں سے یہاں یعنی اپنے گھر مشین کو کافی اٹھا پٹک کے بعد محنت سے منتقل کیا گیا۔ یہ شروعات تھی میری ذہنی حالت کے تباہ ہونے کی۔ جب والدہ نے جو خود برسوں بعد بیٹھی تھی مشین پر، بتانا شروع کیا کہ دیکھو اس کے نیچے ایک بابن کیس ہے اس میں دھاگا بھرنا ہے۔ مجھے بڑا دلچسپ لگا کہ نیچے بھی کچھ ہے۔ پھر میں نے کہا لائیں یہ میں لپیٹ دوں۔ پھر امی نے سمجھایا ہاتھ سے نہیں مشین سے بھرا جائے گا۔ پھر خیال آیا نیچے دھاگے کا کیا کام، تب علم ہوا کہ سلائی تو دو پہلوی ہوتی ہے یہ ادراک میرے لئے بڑا پرلطف اور دلچسپ تھا۔

یہ بھی پڑھئے: افسانہ : مَیں نوری تو خاکی

جیسے تیسے اتنا سمجھ آیا ہی تھا کہ اوپر سوئی میں بھی دھاگہ ڈالنے کہا گیا۔ کئی پر پیچ راستوں سے گزر کر جو دھاگہ سوئی تک پہنچا تھا اسے یاد رکھنا مشکل لگا پھر بھی ذہن نشین کر لئے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں مشین کی سوئی تو عام سوئی سے برعکس ہے یعنی کہ ہر سوئی کی ایک سمت نوک ایک طرف سوراخ ہوتا ہے اس میں تو دونوں ایک ہی طرف ہے حیران کن تھا مگر اس مشین میں کیا ہی ایسا تھا جو عام تھا؟ اب جیسے تیسے چلانے کا مرحلہ آیا امی ایک بار ہاتھ سے چکر گھماتی باقی پیڈل چلاتی دیکھنے میں یہ کام بڑا آسان لگنے لگا۔ میں نے بڑی چاہ سے اپنے ہاتھ میں یہ کار ستر سلائی لیا اور پھر کیا تھا کہ میں ہاتھ سے گھوڑا ایک بار گھماتی تو ایک ٹانکہ پڑتا جیسے ہی پیر مارتی مشین الٹی چل پڑتی سارے ہائے ہائے کرتے یوں دھیرے دھیرے میں نے بھی پوری جان لگا کر پیڈل چلائے آج تک سائیکل تو چلائی نہیں، جوں جوں زور بڑھاتی اور رفتار کم ہوتی، پھر تو یوں ہوا ایک بار ہاتھ سے گھمانے پر ایک ٹانکہ، اس کم بخت مشین کے پرزوں کو سمجھنے میں میرا پرزہ پرزہ ہل گیا۔ ابو الگ حیران کبھی کہتے آج مشین گئی کبھی کہتے یہ دونوں ہاتھ کرسی کے ہتھے پر رکھ کر نصف اُٹھ کر کیوں اتنی طاقت لگا رہی ہے۔ کبھی خود چلا کر دکھاتے تو کبھی خود مشین کے بڑے والے چکر کو گھما کر مجھے صرف پیڈل چلانے کو کہتے آخر کار تنگ آکر وہ بھی سکھانے کا ارادہ ملتوی کر بیٹھے۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ قائل کروں کہ یہ اتنی بڑی مشین چلانا ایک بندہ کا کام ہی نہیں ایک بندہ مشین کا چکر گھمائے اور دوسرا پیڈل چلائے تب ہی ممکن ہے کہ یہ سیدھی چل جائے۔
 بہر کیف اس بیان کی کوئی دلیل نہ تھی کہ ہر سو ہر سمت جہاں بھی دیکھا گیا ایک مشین پر ایک ہی انسان کو دیکھا گیا۔ بڑا افسوس ہوا کاش کوئی ہم مزاج ہوتا یوں بھی ایک سے دو بھلے۔ خیر قصہ مختصر اب سوچتی ہوں جو سارے خواب میں نے اعلانیہ دیکھے سگھڑ بننے کے، ان ارادوں کا کیا کروں؟ خیر اللہ ان درزیوں کو سلامت رکھے جو ہمیں ہزار نخرے سے ہی سہی کپڑا سِل کر دے دیتے ہیں۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK