نفرت کی آگ کتنی خطرناک ہوتی ہے، اس کو بیان کرتا افسانہ۔
EPAPER
Updated: August 15, 2024, 12:59 PM IST | Khan Umaira Irfan | Mumbai
نفرت کی آگ کتنی خطرناک ہوتی ہے، اس کو بیان کرتا افسانہ۔
اسپتال کے کمرے میں خاموشی کا راج تھا بس مصنوعی سانسوں کی آواز جس میں کبھی کبھی والدہ کی ایک سسکی کا اضافہ ہوتا تھا۔ کئی راتیں آنکھوں میں کاٹ کر والدہ بارہا اسے پکار چکی تھی کہ کبھی تو جواب ملے گا۔ ہر ملاقات پر والد سوچا کرتے تھے کہ ایسی کون سی دعا پڑھ کر پھونکوں تو اس پتھر میں حرکت نظر آئیگی۔ اور بہن آخر کتنی سسکیوں کا گلا گھونٹے؟ پچھلے آٹھ دن، آٹھ صدیوں کی مانند گزر چکے تھے لیکن اس کے بےحس وجود کو ہلکی سی حرکت بھی گوارا نہ تھی۔
سفید روغن سے سجے اس خوبصورت گھر کی دیواروں میں قہقہوں سے زیادہ اداسی نے ڈیرہ جمائے رکھا تھا۔ پہلے تو کبھی کبھار آبرو ناراض ہوا کرتی تھی لیکن اب اس کی طبیعت میں حد سے سوا کھردرا پن اور تلخی نے بسیرا کر رکھا تھا۔ عافیہ سراپا حسن کا پیکر تھی۔ دودھیا رنگت، اونچا قد اور پُرکشش چہرے نے ہر کسوٹی میں اس کو حسین قرار دیا تھا۔ وہیں آبرو سانولی رنگت، عام ناک و نقشے والی لڑکی تھی۔ دونوں بہنوں کے درمیان حسن و جمال کی ایک اونچی دیوار کھڑی تھی۔ عافیہ محبت سے اس پر ضرب لگایا کرتی تھی لیکن آبرو نے کبھی اس دیوار کو گرنے ہی نہ دیا۔
’’کب تک لوگوں کی باتوں کو دل سے لگائے رکھو گی؟‘‘ جواب ندارد۔ ’’آبرو میں تم سے بات کر رہی ہوں بیٹا!‘‘ والدہ نے اس کا چہرہ اپنی جانب کیا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ ’’کیوں اتنا سب کی باتوں کو دل پر لیتی ہو؟ لوگ کہتے ہیں تو کہنے دو۔‘‘ اس کی زلفوں کو بڑی نرمی سے کان کے پیچھے کیا۔ ’’اللہ نے رنگ کالا دیا اتنا کافی نہیں تھا جو یہ چہرے پر داغ بھی دے دیئے؟‘‘ ’’ایسی کفران نعمت والی بات مت کیا کرو آبرو۔ اللہ نے اتنی خوبصورت زندگی دی ہے اور تم اتنی سی بات کو لے کر بیٹھ گئی ہو۔ چند دنوں کی بات ہے داغ بھی چلے جائیں گے۔‘‘ اماں کا لہجہ زخموں پر مرہم کا کام کر رہا تھا لیکن زخم تو ناسور بن چکا تھا۔ کیونکر ٹھیک ہوتا؟ ’’اماں صرف مَیں ہی کیوں؟ آج آپ کی بھانجیاں طنز کرکے گئی ہیں کل آذر بھائی (تایا کا بیٹا) بھی یہی کہہ رہے تھے کہ منہ کالا ہے تو داغ ہی گورے رکھ لیتی تاکہ کہیں تو اجالا نظر آتا۔ کم از کم جا کر اپنی بہن سے تھوڑی چہرے کی چمک ہی ادھار لے لو تو داغ ہی چمک جائینگے تمہارے!‘‘ اس کی آنکھیں خشک تھیں۔ آنسو جو پلکیں پار نہیں کرتے، وہ سیدھا زخموں پر گر کے نمک کا کام کر رہے تھے، جن کی چبھن اور جلن روح بھی محسوس کرتی تھی۔ ’’اب جانے بھی دو۔ تم بھی نا، کس کی باتوں کو دل پر لے رہی ہو۔ عافیہ کو بھی تو لوگ کچھ بھی کہتے ہیں۔
وہ تو تمہاری طرح دل پر نہیں لیتی۔‘‘ ’’وہ دل پر لیں گی بھی کیوں؟ اللہ نے اتنا حسن دیا ہے کہ دنیا کی نظر ان کی سیرت پر جاتی ہی نہیں۔ چہرہ جتنا گورا، دل اتنا کالا۔‘‘ ہر لفظ سے بے رخی ٹپک رہی تھی۔ ’’آبرو یہ مت بھولو وہ تمہاری بڑی بہن ہے۔ تمیز سے بات کرو۔‘‘ ’’جس بہن کی ذات ہر لمحہ آپ کیلئے تکلیف کا باعث بنے اس کا نہ رہنا ہی بہتر ہے۔‘‘ ’’اتنی نفرت؟ کچھ تو سوچ کر کہو۔ کیا پتا کون سی گھڑی قبولیت کی رہے۔‘‘ اماں کے دل پر جملہ دھک سے لگا۔ ’’اللہ کرے یہ گھڑی قبولیت کی ہی ہو تاکہ میرے سر سے یہ حسن کا ترازو ہٹے۔‘‘ غصے میں والدہ نے ایک زور دار تھپڑ آبرو کے منہ پر مارا۔ ’’اگلی دفعہ اپنی بہن کو بددعا دینے سے پہلے دس دفعہ سوچنا۔ اپنی بہن سے اتنی نفرت.... تجھ جیسی بہن....‘‘ آواز بہت تیز تھی۔ ابھی دوسرا تھپڑ پڑنے ہی والی تھا کہ عافیہ نے ہاتھ روک لئے۔ ’’اماں بس بھی کریں۔ کیا کر رہی ہیں آپ؟‘‘ عافیہ کی آواز بہت تیز تھی اور آبرو کی نظریں بھی! ’’تم.... چپ.... رہو۔ کچھ بھی کہتی ہے۔ آج اس کا دماغ درست کر لینے دو۔‘‘ چہرہ لال بھبوکا ہوگیا تھا۔ ’’تم تو جاؤ آبرو۔‘‘ عافیہ نے اسے باہر بھیجنا چاہا۔ ’’ہاں! مَیں چلی جاتی ہوں۔ تم اور پٹیاں پڑھا لینا اماں کو۔ سب کو حسن کے جال میں پھنسایا ہے اور اماں کو زبان کے بول میں۔ جاؤ جا کر اور سکھاؤ تاکہ اگلی دفعہ اور زور سے تھپڑ مارے۔‘‘ نفرت کا بیج ایک تناور درخت کی مانند کھڑا ہوچکا تھا، جس کی جڑ بہت مضبوط تھی جیسے کبھی نہ ٹوٹے گی۔
عافیہ کی طبیعت کچھ دنوں سے خراب تھی۔ وہ تین دن سے بخار میں تپ رہی تھی۔ بخار تو ابھی کم تھا لیکن سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ آنکھوں سے پانی بھی جاری تھا اور نقاہت بھی زیادہ تھی۔ اماں ابا کسی قریبی رشتے دار کے گھر عیادت کرنے گئے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا اور دوائیوں کا اثر کم ہونے لگا تھا ساتھ ہی بھوک بڑھنے لگی۔ بہت دیر تک خود پر جبر کئے وہ لیٹی ہوئی تھی۔ بالآخر خالی معدے کی پکار پر لبیک کہہ کر وہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے باورچی خانے میں گئی۔ اماں نے کہا تھا کہ کھانا آبرو سے مانگ کر کھا لینا۔ دونوں کے حصے کا کھانا رکھا ہوا ہے۔ لیکن یہاں تو خالی ہانڈیاں اور گندے برتن منہ چڑھا رہے تھے۔ اسے آبرو پر بہت غصہ آرہا تھا لیکن کچھ کہنا بےکار تھا۔ اس نے کوکر میں کھچڑی بنانے کا ارادہ کیا۔ اس نے کچھ دیر میں کوکر چڑھا دیا۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ دوبارہ بیڈروم میں جائے اور پھر کچن میں آئے تو وہیں وہ کرسی پر اپنا فون لئے بیٹھ گئی۔ وقت گزر رہا تھا اور وہ انتظار میں تھی کہ کب سیٹی بجے گی۔ دس منٹ گزر چکے تھے اور اب تک سیٹی نہیں آئی۔ اچانک ہی فضا میں کچھ پھٹنے جیسی آواز گونجی اور اس کے ہاتھ سے ہڑبڑاہٹ میں فون گر گیا۔ گیس سلنڈر کے خانے سے ہوتے ہوئے شعلے چولہے تک پہنچ گئے تھے۔ اسکے حواس سلب ہوگئے۔ کچھ لمحوں تک وہ سمجھ ہی نہ سکی کہ کیا ہو رہا ہے۔ آگ کی رفتار تیز ہوگئی اور لمحوں کا کھیل تھا کہ کوکر پھٹ پڑا۔ کوکر کا ڈھکن چھت سے ٹکرا کر زمین پر گرا اور اس کے اندر موجود اشیاء بکھر گئی۔ وہ چیخ رہی تھی وہ چلا رہی تھی۔ گرم کھچڑی کے چھینٹے اس کے پیر اور ہاتھ پر اڑے تھے۔ پھٹنے کی آواز اتنی تیز تھی کہ آبرو نے کمرے میں بھی کچھ آوازیں سنیں لیکن وہ کان لپیٹے بیٹھی رہی۔
شعلوں نے کچن کو پل بھر میں اپنی لپیٹ میں تیزی سے لے لیا۔ ان شعلوں کی زد میں ایک نرم و نازک وجود زور و شور سے آہ و زاری کر رہا تھا۔ قدم اٹھنے سے قاصر تھے اور دروازے پر بھی آگ نے اپنی چادر تان لی تھی۔ اس نے تیزی سے اس کمرے سے نکلنے کی کوشش کی لیکن دماغ نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ’’آبرو... آبرو...‘‘ یوں لگ رہا تھا گلا پھٹ جائے گا۔ ’’آبرو... آگ...آگ...‘‘ زبان اور قسمت دونوں ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ آبرو کمرے میں چیخ پکار سن رہی تھی لیکن کل کی بات کا غصہ اترا نہیں تھا۔ اس نے اپنے کان بند کر لئے۔ ’’آبرو آگ لگی ہے۔‘‘ وہ مسلسل چیخ رہی تھی مگر آبرو کو لگا کہ زبردستی باہر بلانے کیلئے عافیہ یہ سب کر رہی ہے۔ ’’آبرو میں مر جاؤں گی۔‘‘ ’’ہاں تو مر جاؤ۔ تمہارا جی کر بھی کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ چلا کر کہا۔ یہ سنتے ہی اس کی آخری ہمت بھی ٹوٹ گئی۔ دھواں محلے میں پھیلنے لگا تھا، دروازے پر دستک کی آوازیں بڑھ گئیں۔ آبرو کو کچھ انہونی کا اندیشہ ہوا وہ فوراً کمرے سے بھاگی اور اس نے کچن کا رخ کیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ دونوں نے ایکدوسرے کو دیکھا۔ آبرو کا دل مٹھی میں آگیا تھا اور عافیہ کا دوپٹہ جل چکا تھا۔ قریبی بجلی کے بٹن میں ایک زوردار دھماکہ ہوا اور آگ بھڑک اٹھی۔ ’’مجھے بچا لو آبرو۔‘‘ کھانسی کے درمیان کہا گیا ایک ٹوٹا پھوٹا جملہ۔ وہ دروازے کی جانب بھاگی کیونکہ آگ کے شعلوں نے تو کمرے کے ساتھ رشتوں کو بھی لپیٹ لیا تھا۔ کئی لوگ اندر آچکے تھے لیکن عافیہ بے سود آگ کے درمیان پڑی تھی۔ آبرو بہت پیچھے سے لوگوں کی تدبیریں دیکھ رہی تھی۔ اسکے ذہن میں ایک جملے کی بازگشت عروج پر تھی۔ ’’ہاں تو مر جاؤ...‘‘ ’’ہاں تو مر جاؤ...‘‘ آگ بجھانے کی کوششیں جاری تھیں ساتھ ہی ایمبولینس کی گھنٹیاں اور نہ جانے کیا کیا ہو رہا تھا مگر وقت ہاتھ سے ریت کی مانند نکل کر دور جاکر کھڑا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : مٹی ہے زرخیز
اس کے جسم کا بایاں حصہ پوری طرح سے جھلس گیا تھا۔ چہرے کا رنگ کم اور جھلسی ہوئی جلد زیادہ نظر آنے لگی تھی۔ پورا جسم پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ بالآخر دس دنوں کے بعد اس نے زندگی کا رخ کیا۔ سنگ مرمر کی مورت میں ہلکی سی حرکت دیکھ کر سب متحرک ہو گئے۔ والدین اس کی طرف لپکے اور آبرو کے قدم زمین سے چپک گئے۔ جیسے پہلے ان قدموں نے اٹھنے سے انکار کیا تھا ویسے ہی آج بھی اس کے قدم ہلنے سے عاجز تھے۔ وہ دھیرے دھیرے آنکھیں کھول رہی تھی۔ شاید موت نے رحم کھا کر زندگی کو کچھ مہلت عطا کی کہ کچھ راز دفن ہونے سے پہلے آشکار ہو جائے۔ ڈاکٹر آچکے تھے۔ معائنہ جاری تھا۔ آکسیجن کا ماسک اب بھی اسے لگا تھا۔ اسے ایک جالی کے اوپر بڑی سی چادر میں ڈھک دیا گیا تھا۔ صرف چہرہ باہر تھا۔ ڈاکٹر کے ساتھ ہی دو پولیس افسر داخل ہوئے جو یقیناً بیان لینے کیلئے آئے تھے۔ ’’ڈاکٹر ان کا بیان لینا بہت ضروری ہے۔ کیا ہم لے سکتے ہیں؟‘‘ خاکی وردی والے ایک افسر نے اجازت چاہی۔ ’’ہاں لے سکتے ہیں مگر شاید یہ زیادہ بات نہ کر سکے۔‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر نے چہرے سے تھوڑا ماسک ہٹایا اور پیچھے کھڑا ہوگیا۔ ’’مس عافیہ میں آپ کا کیس ہینڈل کر رہا ہوں۔ یہ آگ کیسے لگی آپ بتا سکتی ہیں؟‘‘ وہ چاہ کر بھی بول نہیں پا رہی تھی۔ اس کے لب پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ آنکھوں سے متواتر آنسو بہہ رہے تھے۔ ’’مس عافیہ ہمیں لگتا ہے یہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔ ہم اور انویسٹی گیشن کرنا چاہتے ہیں۔ پلیز بتائیے کیا آپ کو کسی پر شک ہے؟‘‘ عافیہ چھت کو گھورے جا رہی تھی۔ پولیس نے دوبارہ فقرہ دہرایا۔ اس نے اپنی نظریں دائیں جانب پھیر لیں جہاں اس کے والدین کھڑے تھے۔ دونوں کی آنکھیں لبریز تھی اور چہرہ مرجھایا ہوا نظر آ رہا تھا۔ ’’کیا گھر پر کوئی اور بھی موجود تھا؟‘‘ ایک اور سوال، ’’ ہماری معلومات کے مطابق آپ کی بہن گھر پر ہی تھی۔‘‘ بہن لفظ سنتے ہی اس کی نظروں میں عجیب سی وحشت اتر آئی۔ اس نے پورے کمرے میں نظریں دوڑائی۔ دروازے کے قریب سسکتی ہوئی آبرو پر اس کی نگاہیں ٹھہر گئی۔
’’کیا آپ کی بہن نے یہ سب کیا ہے؟‘‘
’’صاحب آبرو ایسا کیوں کرے گی؟ وہ اس کی بہن ہے۔‘‘ پولیس کا جملہ پورا بھی نہ ہوا تھا کہ اماں تیزی سے بول پڑی۔ ’’آپ خاموش رہئے۔ مس عافیہ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں ؟ کیا آبرو نے جلایا ہے آپ کو؟‘‘ وہ یک ٹک آبرو کو دیکھے جا رہی تھی۔ اس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ اسے آبرو کی آنکھیں بولتی محسوس ہوئی۔دل پر ندامت کا بار لئے آبرو نے قدم آگے بڑھائے اور بیڈ کے قریب آ کر کھڑی ہوگئی۔
’’کچھ بولئے مس عافیہ، کیا آبرو نے یہ سب کیا ہے؟‘‘ اس نے آنکھوں کو نفی میں ہلایا اور سسکنے لگی۔ درد اب انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ اس کے لب تھرتھرانے لگے اور سانسیں اکھڑنے لگیں زندگی و موت کے درمیان عافیہ نے موت کے دامن کو گلے سے لگا لیا۔ وہ آزاد ہوگئی تھی۔ ہر درد سے، ہر تکلیف سے آزاد۔
ہوائیں بہت تیز چل رہی تھی اتنی تیز کے جیسے سب کچھ اڑا لے جائے گی۔ لیکن دل میں جیسے بھٹی ہلکی ہلکی سلگ رہی تھی۔ بس ایک بھڑکتے شعلے کا انتظار تھا اور پھر سب؟ سب جل کر خاک۔ اماں دھاڑیں مار کر رو رہی تھی۔ ابا کی تو جیسے کمر ٹوٹ گئی تھی وہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے۔ کئی آوازیں گونج رہی تھیں۔
’’آبرو آگ لگی ہے۔‘‘
’’جس بہن کی ذات ہر لمحہ آپ کیلئے تکلیف کا باعث بنے اس کا نہ رہنا ہی بہتر ہے۔‘‘
’’اللہ کرے یہ گھڑی قبولیت کی ہی ہو تاکہ میرے سر سے یہ حسن کا ترازو ہٹے۔‘‘
’’مجھے بچا لو آبرو۔‘‘
’’ہاں تو مر جاؤ۔ تمہارا جی کر بھی کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ ’’ ہاں تو مر جاؤ....‘‘
نفرت کی آگ بہت تیز ہوتی ہے۔ اتنی تیز کہ لمحے میں برسوں کی محبت کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔
آبرو کچھ سن نہ سکی۔ وہ کیسے سن سکتی تھی؟ اس نے پہلے بھی تو کان بند کئے تھے۔ ایک بار اور صحیح۔ آبرو رونا چاہتی تھی، لیکن آواز گلے میں پھنس گئی۔ دل چیخ رہا تھا، دماغ پھٹ رہا تھا وہ کچھ نہ کر سکی۔ آبرو رو نہیں رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے شاید خون رس رہا تھا۔ وہ خون جو آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں لئے جانے والے وجود کے جھلس کر گاڑھا ہو جاتا ہے۔ نفرت کی آگ نے اس سے جو چھینا تھا وہ سکون تھا! سکون بھی جو تمام عمر کا تھا۔ آگ کا لگنا قتل ٹھہرا اور اس میں جھلسنے والا مقتول، مگر سینے میں نفرت کی اس آگ کو سلگانے والے کو کیا کہا جائے؟ قاتل؟ تو پھر کتنے لوگ قاتل ٹھہرے؟ ایک روگ ہے جو وجودِ زن کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ سوال اٹھا کہ یہ روگ، پچھتاوا، یہ آنسو کب تلک ساتھ رہیں گے؟ تو قریب کھڑی قسمت مسکرا کر بولی، ’’کچھ خاص نہیں۔ اب یہ آنسو اور پچھتاوا تو عمر بھر کا روگ ہے۔‘‘