Inquilab Logo

ہم شعرو ادب کے شائق بھی ہیں دشمن بھی

Updated: February 10, 2023, 10:54 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

شاعری اور ادب سے استفادہ سب کرتے ہیں مگر انہیں فائدہ پہنچانے کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔ اہل سیاست تو اس میں دس قدم آگے ہیں۔ زبان سے کام نکالنا اور زبان کے کام آنا دو الگ باتیں ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

عالمی یوم ِ شاعری ۲۱؍ مارچ کو منایا جاتا ہے مگر گزشتہ دنوں یعنی ۸؍ اور ۹؍ فروری کو ایسا لگا جیسے ۲۱؍ مارچ آچکا ہو۔ یہ تاثر اس لئے اُبھرا کہ پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوران شاعری سے خوب خوب استفادہ کیا گیا۔ اشعار سنانے والوں میں وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس کے نومنتخبہ صدر ملکارجن کھرگے شامل رہے۔ وزیر اعظم نے جگر مرادآبادی (یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں)، دُشینت کمار (تمہارے پاؤں کے نیچے کوئی زمین نہیں) اور طنز و مزاح کے مشہور کوی کاکا ہاتھرسی ( آگا پیچھا دیکھ کر کیوں ہوتے غمگین) کے اشعار کے ذریعہ پارلیمانی اجلاس کو شعر و ادب کی چاشنی فراہم کی۔ ملکارجن کھرگے کیوں پیچھے رہتے، اُنہوں نے ’’نظر نہیں ہے نظاروں کی بات کرتے ہیں‘‘ کے ذریعہ یہ ثابت کیا کہ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر، یعنی شعر و ادب کا سہارا نہ لیا جائے تو گفتگو مکمل ہوکر بھی نامکمل اور غیر مؤثر رہتی ہے۔ (یہ الگ بات کہ کھرگے کے بیشتر اشعار پارلیمنٹ کے ریکارڈ سے حذف کردیئے گئے)۔ 
 جس وقت یہ اشعار سنائے گئے، اِس مضمون نگار کے ذہن میں سوال آیا کہ ارباب سیاست زبان و ادب سے فائدہ تو اُٹھاتے ہیں مگر زبان و ادب کو کیا دیتے ہیں؟ اِس سوال کا ذہن میں اُبھرنا تھا کہ ناقدریٔ زبان و ادب کی طویل تاریخ یاد آگئی۔ زبان چاہے اُردو ہو یا ہندی، مراٹھی ہو یا تمل، ملیالم اور تیلگو ہو یا گجراتی اور کنڑ، ہمیشہ ارباب سیاست کے دوستانہ سلوک کو ترستی رہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے پارلیمنٹ میں اشعار گونجے ہوں۔ اس سے پہلے بھی ایسا کئی بار ہوچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سابقہ وزراء اعظم (ااور دیگر وزراء) کی طرح، موجودہ وزیر اعظم کو بھی زبان و ادب سے دلچسپی ہے تو وہ اُن کے فروغ و ارتقاء کیلئے کیا کرتے ہیں؟ یہی سوال ماضی کے اہل سیاست سے بھی کیا جاسکتا تھا اور سچ پوچھئے تو ساحر نے یہی کیا تھا جب اُنہوں نے چھ بندوں پر مشتمل نظم ’’جشن غالب‘‘ سنائی تھی۔ یہ نظم بہتوں کو زبانی یاد تھی۔ ممکن ہے اب بھی ہو۔ تب سے اب تک اس کے کئی مصرعے ( مثلاً اُردو پہ ستم ڈھاکر غالب پہ کرم کیوں ہو؟) کی حیثیت ضرب المثل کی سی ہے۔ زبانوں کے ساتھ ناروا سلوک کا ذکر ہو تو ہر دور کے ارباب سیاست یاد آنے لگتے ہیں۔ شنکر راؤ چوان جو وزیر اعلیٰ رہے، اندر کمار گجرال اور ڈاکٹر من موہن سنگھ جنہیں وزیر اعظم بننے کا موقع ملا، اہل اُردو تھے مگر اُردو زبان اُن سے جتنی فیضیاب ہوسکتی تھی نہیں ہوئی۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی خود شاعر تھے۔ ہندی میں کہتے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہندی کو ہر دور کی حکومت نے خوب نوازا مگر اہل ہندی سے گفتگو کیجئے تو پرتیں کھلتی ہیں۔ علامتی اور ٹھوس اقدامات میں فرق ہوتا ہے۔علامتی اقدام یہ ہے کہ کسی زبان کے ادیبوں شاعروں کیلئے بڑے انعامات کا اعلان کردیا۔ ٹھوس اقدام یہ ہے کہ اس کی معیاری تدریس کا مؤثر نظم کیا اور پورے ملک میں اعلیٰ معیاری اساتذہ کو زبان و ادب کی تدریس کیلئے مامور کیا۔ موجودہ حکومت او رحکمراں جماعت کے جتنے لیڈران ہیں، ہندی میں گفتگو کو ترجیح دیتے ہیں خواہ ہندی اُن کی مادری یا درسی زبان نہ ہو۔ بظاہر یہ ہندی نوازی لگتی ہے مگر ہے نہیں۔ یہ مجبوری ہے۔ 
 سیاسی اعتبار سے ملک کی سب سے اہم ریاست یوپی ہے جہاں ویسے تو اُردو کا دور دورہ تھا مگر آزادی کے بعد اُردو کی جگہ ہندی لیتی چلی گئی۔ اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں کے عوام کی زبان ہندی ہے اس لئے پارٹی سے وابستہ تمام لوگوں کو شاید یہ تاکید کی گئی ہے کہ اُنہیں ہندی بولنی چاہئے اور ہندی ہی میں اپنا مطمحِ نظر بیان کرنا چاہئے۔ یوپی کے بعد بہار، چھتیس گڑھ، اُترا کھنڈ اور دہلی میں بھی (یعنی پورا ہندی بیلٹ) ہندی بھاشی عوام کی تعداد زیادہ ہے۔ اس لئے ہندی کو گلے لگا یا گیا مگر کیا ہر حال میں ہندی بولنے والے اس پارٹی کے لیڈروں کے چشم و چراغ ہندی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ 
 ہندی سے سچی محبت ہوتی تو اس کے وہ الفاظ رائج کئے جاتے جو عام فہم ہیں اور برسہا برس سے بولے جاتے ہیں۔ اس کی جگہ سنسکرت آمیز ہندی کو رواج دیا جارہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بولی جانے والی ہندی اُردو نہ لگے۔ یہ مضمون نگار نہیں جانتا کہ اصل وجہ کیا ہے مگر مشکل یا ثقیل الفاظ ہندی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے یہ طے ہے۔ اسی لئے آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ نیوز چینلوں کے اکثر اینکرہندی میں اُردو کے الفاظ کی آمیزش کو ضروری سمجھتے ہیں (تلفظ اور معانی کو سمجھے بغیر)۔ اسے اُردو نوازی یا حب اُردو سمجھنے کی غلطی نہیں کی جاسکتی۔  یہ رجحان صرف اس لئے در آیا کہ بہت مشکل الفاظ، ہندی کو بوجھل بنادیتے ہیں جبکہ اُردو الفاظ کے استعمال سے یہ بوجھل پن کم ہوجاتا ہے اور جملوں میں شگفتگی آجاتی ہے۔ 
 اہل سیاست نے زبان و ادب کی اہمیت کو سمجھا ہوتا اور ان کی قدر کی ہوتی تو ملک میں زبانوں کے تنازعات پیدا ہوتے نہ ہی کسی ایک زبان کو سب پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی، نہ تو زبانوں میں امتیاز کیا جاتا نہ ہی انگریزی میں مستقبل دیکھنے یا اسے روزی روٹی کی زبان سمجھنے کے رجحان کو پنپنے دیا جاتا۔ آج مقابلہ ہندوستانی زبانوں کے درمیان نہیں ہے۔ مقابلہ ہے تو تمام ہندوستانی زبانوں اور انگریزی کے درمیان ہے جسے ترقی کی زبان سمجھا جارہا ہے۔ اس معاملے میں تمام ہندوستانی زبانیں ایک طرف ہیں اور انگریزی دوسری طرف۔ بلاشبہ، انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ اسے ترقی کی زبان کہنے والوں کو غلط بھی نہیں کہا جاسکتا مگر انگریزی کا رجحان ہندوستانی زبانوں کی قیمت پر بڑھ رہا ہے جس سے تمام ہندوستانی زبانوں کو خطرہ لاحق ہے اور اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ 
 اہل سیاست نے زبان و ادب کی اہمیت کو سمجھا ہوتا اور ہندوستانی زبانوں کے ادب کے تنوع کو محسوس کیا ہوتا تو ملک بھر میں بولی جانے والی الگ الگ زبانوں کے درمیان تال میل پیدا کرنے اور ان کے بولنے اور پڑھنے والوں کو ایک دوسرے سے استفادے کا موقع دینے کیلئے فن ِترجمہ کو خاص اہمیت دی جاتی اور مترجمین کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ اب تک مختلف زبانوں کے درمیان جو کام ہوا ہے وہ سرکاری سرپرستی کے بغیرقلم کے سپاہیوں کی ذاتی دلچسپی کے سبب ہوا ہے۔ حکومتوں نے کچھ نہیں کیا ہے۔ اکیڈیاں کچھ نہ کچھ کرتی ہیں مگر اُن کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک کہاں ہورہا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK