Inquilab Logo

ہم دُنیا سے اور دُنیا ہم سے بے خبر

Updated: August 09, 2022, 11:25 AM IST | Hassan Kamal | Mumbai

جب بائیڈن تل ابیب سے جدہ پہنچے توہوائی اڈہ پر ان کا استقبال کرنے کیلئے شاہ سلمان موجود تھے اور نہ ولی عہد محمد بن سلمان موجود تھے۔ بائیڈن کا استقبال گورنر مکہ نے کیا۔ ہمیں یاد نہیں آتا کہ سپر پاور امریکہ کے کسی صدر کے ساتھ ایک ایسی ریاست سعودی عرب نے اتنا ہتک آمیز سلوک کیا ہو۔

 Picture. Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

ہم ایک طویل مدت سے روزنامہ ’ٹائمس آف انڈیا ‘ کے قاری ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ہمیں پورا اخبار پڑھنے میں کم سے کم ایک گھنٹہ لگ جاتا تھا۔ اتوار کا ’سنڈے ٹائمس‘ تو او زیادہ وقت لیتا تھا، کیونکہ اس دن اخبار کے ادارتی صفحہ پربہت پر مغز اور فکر طلب مضامین شائع ہوا کرتے تھے لیکن آج تو بس پانچ سات منٹوں میں سارا اخبار ختم ہو جاتا ہے اور ادارتی صفحہ تو بالکل بے معنی ہو چکا ہے۔ حد یہ ہے کہ اخبار کے جس صفحہ پرعالمی خبریں ہوتی ہیں، اس پر بھی ایسی خبریں کم ہی نظر آتی ہیں جو توجہ طلب ہوں۔ ہم نے اکثر سوچا کہ آخر اس کا سبب کیا ہوسکتا ہے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ جہاں تک ملک کے اندر کی خبروں کا تعلق ہے تو ملک کے اندر جو خلفشار برپا ہے اور عوام میں مہنگائی کے باعث تنگ دستی کا دور دورہ ہے، اس کے بارے میں کوئی خبر ہی نہیں ہوتی ۔ اب اخبارات کی تعداد اشاعت بڑی تیزی سے گر رہی ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ ہمارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ اخباروں کی اشاعت گر رہی ہے؟ تو اسے جاننے کا ایک بہت آسان پیمانہ ہوتا ہے کہ آپ کسی بھی اخبار سے پوچھئے کہ اس میں آج اشتہارات کس نرخ پر لئے جاتے ہیں اور اب سے چند سال پہلے تک کس نرخ پر لئے جاتے تھے اوراگر آج کے نرخ پہلے کے نرخ سے کم ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اخبار مذکور کی اشاعت کم ہوئی ہے ، بس ان اشتہارات پر نہ جائیں جو مودی سرکار کی طرف سے دیئے جاتے ہیں۔ ایک تو وہ اشتہارات چند چنندہ اخبارات کو دیئے جاتے ہیں اور ان کا معاملہ بھی کچھ اور ہوتا ہے۔ رہا یہ کہ ملکی خبروں کی حد تک تو ہمارا تجزیہ درست ہو سکتا ہے، لیکن آخر گلوبل خبروں کا بھی قحط کیوں پڑا ہوا ہے۔ جہاں تک مین اسٹریم میڈیا کا تعلق ہے تو آج دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں ایسا کوئی زاویہ نظر نہیں آرہا ہے، جو مودی سرکار کی واہ واہ کا سبب بن سکے اور جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو وہ مقامی زبانوں میں ہوتا ہے اور ان میں سے بیشتر کی عالمی ذرائع اطلاعات اس لئے نہیں ہو پاتی کہ وہ تمام ذرائع انگلش میں ہوتے ہیں امید ہے کہ بات آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی، لیکن دنیا میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔  اس مضمون میں ہم چند گلوبل خبروں کا تذکرہ کریں گے، جن کا علم شاید کچھ لوگوں کو تو ہو ، لیکن ہمارے خیال میں بہت زیادہ لوگوں کو اس  کا علم نہ ہو ، کیونکہ ان خبروں کو ہمارے نام نہاد قومی میڈیا نے یا تو قابل توجہ نہیں سمجھایا پھر ان کی اہمیت کو در خور اعتناء نہیں سمجھا۔ ان میں ایک یہ ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اس وقت مقبولیت کی سب سے نچلی پائیدان پر ہیں۔ ان کالموں کے مستقل قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک بار ان کالموں میں ذکر کیا گیا تھا کہ جو بائیڈن نے دنیا ہی کو نہیں امریکیوں کو بھی بہت مایوس کیا ہے۔ یہ بات بالکل سچ ثابت ہورہی ہے۔ امریکہ سے آنے والی اطلاعات مظہر ہیں کہ اس وقت بائیڈن کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی سینیٹر ان کے دور صدارت سے بہت بد ظن ہو چکے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ۲۰۲۴ ء کے صدارتی انتخابات میں اگر بائیڈن ہی پارٹی کے امیدوار ہوئے تو پارٹی ہار جائے گی۔ کچھ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ڈونالڈٹرمپ کی واپسی بھی ممکن ہے۔ حالانکہ ہمارا خیال ہے کہ اگلے انتخابات میں یہ تو ممکن ہے کہ ریپبلیکن پارٹی جیت جائے، لیکن اس کا امکان بہت کم ہے کہ ٹرمپ کی واپسی ہو ۔ امریکی ٹرمپ سے بھی اتنے ہی نا خوش ہیں۔ ایک اور خبر ، جس کا ہمارے یہاں کوئی ذکر نہیں ہوا، یہ ہے کہ جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے صدر بائیڈن کی یہ بات نہیں مانی کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے تاکہ روس جس پیمانے پر اپنا تیل بیچ رہا ہے ،نہ بیچ سکے تو کچھ دن کے وقفہ کے بعد بائیڈن نے محمد بن سلمان سے فون پر بات کرنا چاہی ، لیکن محمد بن سلمان نے فون لینے سے انکار کر دیا۔ کیا یہ کوئی چھوٹی یا معمولی خبر تھی یہ ایک معمہ ہے کہ ہندوستانی میڈیا نے اتنی بڑی خبر کو کیوں یکسر نظر انداز کر دیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ بائیڈن ایک عرصہ سے سعودی عرب کا دورہ کرنا چاہتے تھے لیکن نا معلوم اسباب کی بنا پر یہ دورہ کئی بار ملتوی کیا گیا۔ بالآخر جولائی کے آخر میں وہ پہلے اسرائیل پہنچے اور وہاں سے سعودی عرب آئے لیکن اس سے متعلق دو ایسی باتیں تھیں جن کو تو اپنا میڈیا بالکل گول کر گیا۔ پہلی یہ کہ تل ابیب جانے سے پہلے بائیڈن ویسٹ بینک گئے۔ انہوں نے صدر محمود سے ملاقات بھی کی اور اس سے بھی  اہم یہ ہے کہ انہوں نے امریکہ کی دو ریاستی پالیسی کا بھی اعادہ کیا، یعنی ریاست اسرائیل کے ساتھ ہی  ریاست فلسطین کے وجود کا اقرار اور اسے تسلیم کئے جانے کی تلقین کی۔ دوسری بات تو بہت زیادہ چونکانے والی تھی۔ جب بائیڈن تل ابیب سے جدہ پہنچے توہوائی اڈہ پر ان کا استقبال کرنے کیلئے شاہ سلمان موجود تھے اور نہ ولی عہد محمد بن سلمان موجود تھے۔ بائیڈن کا استقبال گورنر مکہ نے کیا۔ ہمیں یاد نہیں آتا کہ سپر پاور امریکہ کے کسی صدر کے ساتھ ایک ایسی ریاست سعودی عرب نے اتنا ہتک آمیز سلوک کیا ہو، جو نہ صرف امریکہ کی حلیف ہے ، بلکہ سمجھا جاتا ہے کہ جو  ریاست امریکی صدور کے احکامات کی پابندی اپنا فرض سمجھتی رہی ہو۔ ہندوستان میں کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ دنیا میں یہ سب ہو رہا ہے۔  کچھ اور خبریں سنئے جن کا ہمارے ملک میں زیادہ لوگوںکو علم نہیں۔  جس وقت جو بائیڈن سعودی عرب کا دورہ کر رہے تھے تقریباً اسی وقت روسی صدر پوتن تہران میں موجود تھے اور حکومت ایران سے گیس کی سپلائی کیلئے پائپ لائن بچھانےکیلئے ایک ۴۰؍ ارب ڈالر کے معائدہ پر دستخط کر رہے تھے، اس معاہدہ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی ایران پر لگائی گئی پابندیوں کی رو سے کوئی ملک ایران کا تیل نہ تو خرید سکتا ہے اور نہ ایران کے ہاتھ تیل یا گیس بیچ سکتا ہے۔ پوتن نے اس پابندی کو جوتے کی نوک پر رکھ کر اتنے بڑے معاہدہ پر دستخط کئے ہیں۔ اس کے دو ہی دن بعد ترک صدر رجب طیب اردگان بھی تہران پہنچے جہاں ایک اعلیٰ رکنی چینی وفد پہلے ہی سے موجود تھا۔ روس، ترکی اور چین کا ایران میںیکجاہونا کوئی معمولی خبر تو نہیں تھی ؟حالانکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ روس، ترکی، چین ، ایران، افغانستان اور پاکستان مل کر ایک معاشی اور ممکنہ طور پر دفاعی ایشیائی گروپ بنانے کی تیاری کر رہے ہیں ، تو کیا یہ خبریں ہمیں اس لئے نہیں بتائی جارہی ہیں کہ اگر بتائی گئیں تو لوگ پوچھیں گے کہ ان تمام خبروں میں ہندوستان کہاں ہے؟ یعنی کہ دنیا ہم سے اور ہم دنیا سے بے خبر رکھے جا رہے ہیں۔لیکن یاد رہے کہ آج کے دور میں خبریں اور آوازیں نہ چھپائی جا سکتی ہیں۔ وہ تو ایک نہ ایک  دن کسی نہ کسی طرح عوام تک پہنچ ہی جاتی ہیں، کیونکہ بقول مجروح سلطانپوری’’ہم تو آواز ہیں دیوار سے چَھن جاتے ہیں‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK