ویسے تو مسئلہ انگریزی کو چھوڑ کر دیگر تمام زبانوں کا ہے مگر چونکہ اہل اُردو اپنی زبان سے صرف محبت کرتے ہیں اُس کے تحفظ کی فکر نہیں کرتے اس لئے اُردو ذخیرۂ الفاظ کے اتلاف کا زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: November 11, 2023, 7:55 AM IST | Shahid Latif | Mumbai
ویسے تو مسئلہ انگریزی کو چھوڑ کر دیگر تمام زبانوں کا ہے مگر چونکہ اہل اُردو اپنی زبان سے صرف محبت کرتے ہیں اُس کے تحفظ کی فکر نہیں کرتے اس لئے اُردو ذخیرۂ الفاظ کے اتلاف کا زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے۔
چند تنازعات بہت پہلے سے چلے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پراُردو کے ممتاز اور استاد (استاذ) شاعر ذوق ؔنے اپنے ایک شعر میں وہ محاورہ نظم کیا تھا جس میں لفظ ’’طوطی‘‘ آتا ہے (خوب طوطی بولتا ہے اِن دنوں صیاد کا)۔ ذوق ذوق تھے اور چونکہ دہلوی تھے اس لئے اس لفظ کو مذکر باندھا تھا۔ اس پر ایک لکھنوی شاعر نے اعتراض کیا تو ذوق اُس شاعر کو پرندوں کے بازار میں لے گئے۔ لکھنوی شاعر نے ذوق کو غلط ثابت کرنے کیلئے طوطی کا پنجرہ خریدنے والے ایک صاحب سے پوچھا کہ ’’آپ کی طوطی کیسے بولتی ہے؟‘‘ اس پر پنجرہ خریدنے والے کا جواب تھا کہ ’’جناب آپ کی طوطی بولتی ہوگی، ہمارا طوطی تو خوب بولتا ہے۔‘‘ یہ لطیفہ کئی تذکروںاور مضامین میں ملتا ہے۔ (اس میں ذم کا ہلکا سا پہلو بھی ہے جسے نقل کرنے سے احتراز کیا گیا ہے)۔ طوطی بولتا ہے یا طوطی بولتی ہے کا جھگڑا عرصۂ دراز سے جاری ہے۔ اس سے لگا بندھا ایک اور جھگڑا یہ ہے کہ طوطا ’’ط‘‘سے لکھا جائے یا ’’ت‘‘ سے توتا لکھا جائے۔ کتابوں میں ’’ت‘‘سے بھی ملتا ہے اور ’’ط‘‘ سے بھی۔ پرانی کتابوں میں، ہوائی جہاز کیلئے استعمال ہونے والا لفظ طیارہ ’’ت‘‘ سے لکھا ہوا ملتا ہے، ہم سب ’’ط‘‘ سے لکھتے ہیں اور ’’ط‘‘ سےلکھتے لکھتے خود بخود اتفاق رائے قائم کرکے پرانا جھگڑا ختم کرچکے ہیں ۔ اب جھگڑے کا منہ کالا کے مصداق طیارہ نہ ’’ط‘‘ سے رائج ہے نہ ’’ت‘‘ سے۔ ایروپلین نے یہ تنازع ہمیشہ کیلئے ختم کردیا ہے۔
ان باریکیوں کا اس لئے علم ہونا چاہئے کہ اگر نئ نسل کے افراد طیارہ کو ’’ت‘‘ سے لکھا ہوا دیکھ کر چونکیں اور وضاحت کیلئے آپ سے رجوع کریں تو آپ کےعلم میں رہے اور آپ کو شرمندگی نہ اُٹھانی پڑے۔ قصہ مختصر یہ کہ تذکر تانیث،واحد جمع اور املا کے قضیات کا ایک دفتر ہے جسے اہل علم اور اہل لسانیات نے جوں کا توں رکھا، فیصل نہیں کیا۔ ستم بالائے ستم، دورِ جدید میں زبان سے بے اعتنائی ہے جس کے سبب الفاظ کو من مانے طریقے سے استعمال کرلیا جاتا ہے کہ بہت ہوا تو کوئی صاحب اعتراض کرینگے اس سے زیادہ کیا ہوگا، نہ تو چالان ہوگا نہ ہی عدالت سے سمن جاری ہوگا، پھر اتنا کیا سوچنا!
گزشتہ دنوں ایک کرمفرما نے ’’نذرِ آتش‘‘ کو ’’نظر آتش‘‘ لکھا۔ اِس مضمون نگار نے توجہ دلاتے ہوئے اُنہیں ای میل کیا اور لکھا کہ حضور ’’اُردو کش دور میں اُردو کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے، اس میں چوکنا رہنا چاہئے، آپ کو بھی اور ہم کو بھی۔‘‘ محترم کرمفرما نے اس پر کتنی توجہ دی نہیں معلوم، صرف ’’شکریہ‘‘ لکھا ہوا جوابی میل آیا۔ ممکن ہے نذر کا نظر ہوجانا اُن کی بے اعتنائی کا نتیجہ نہ ہو بلکہ مجبوری ہو۔ آج کل مضامین، مراسلات، منظومات وغیرہ کے لکھنے والے قلم کاغذسے بے نیازہوچکے ہیں، وہ موبائل میں ٹائپ کرتے ہیں جس میں ’’آٹو کریکشن، پرامپٹر اور ورڈ ٹیوٹوریل‘‘ جیسے ’’برگزیدہ ماہر لفظیات‘‘ تشریف رکھتے ہیں جو بلا کے فعال ہیں، ذہن پڑھنا جانتے ہیں اور آپ کے دریافت کئے بغیر آپ کو سجھاتے ہیں کہ اچھا فلاں لفظ، اچھا اچھا، اس کیلئے ’’اوکے‘‘ ( ہاں) کردیجئے۔ آپ بے خیالی میں اوکے کردیتے ہیں۔معلوم ہوا کہ آپ ’’مستطیل‘‘ لکھنا چاہتے تھے برگزیدہ ماہر لفظیات نے ’’مستقیم‘‘ سجھا دیا اور آپ نے عجلت میں اوکے کردیا۔ اگر یہ نہیں تو آپ نے مستقیم لکھتے وقت ’’ق‘‘ کے بجائے غلطی سے ’’ک‘‘ٹائپ کردیا ۔ یہ مستکیم ہوگیا اور آپ اوکے کرکے آگے بڑھ گئے۔ غلطیاں ایسے بھی ہوتی ہیں اور ہوتی چلی جارہی ہیں۔ بعض اوقات لکھنے والا صحیح املا سے واقف ہوتا ہے۔ (یاد آیا کہ گزشتہ ہفتے کے کالم میں ’’اِدبار‘‘ کو ’’اَدبار‘‘ لکھا گیا تھا جس کیلئے یہ مضمون نگار معذرت خواہ ہے اور اُن صاحب کا شکریہ ادا کرچکا ہے جنہوں نے توجہ دلائی۔ البتہ یہ ٹائپنگ کی غلطی نہیں تھی،مضمون نگار کی لغزش تھی۔ قارئین سے درخواست ہے کہ اس لفظ کو اِدبار، الف بالکسر، پڑھیں جو اقبال کی ضد ہے)۔
الفاظ پر ستم کے پہاڑ توڑنے والوں میں ہمارے برادران وطن بھی شامل ہیں بالخصوص وہ جو ہندی کو سجانے سنوارنے کیلئے اُردو الفاظ کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ ان سے مجھے شکایت یہ ہے کہ جب کسی لفظ کے استعمال کی بابت سوچتے ہیں تو اس کی تحقیق کیوں نہیں کرلیتے۔ لفظ ’’حالات‘‘ حال کی جمع ہے۔ ان کرمفرماؤں نے اُسے ’’حالاتوں‘‘ کردیا بالکل اُسی طرح جیسے اس سے پہلے جذبات کو جذباتوں کردیا تھا۔ مخالفت کے معنی میں خلافت اور آگ بگولہ کی جگہ آگ ببولہ کہنا ابھی جاری ہی ہے کہ ایک لفظ کافی زوروشور سے استعمال کیا جارہا ہے اور وہ ہے ’’زوروں شوروں سے‘‘۔ آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ زوروشور اتنے زوروشور سے چل پڑے گا اور زوروں شوروں ہوجائیگا۔
ستم رانیاں یا کرمفرمائیاں یہیں تک محدود نہیں۔ یوٹیوب پر کئی ایسے صاحبان ہیں جو مرزا غالب کی شاعری کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کیلئے اُن کے اشعار کے ویڈیو بناکر پوسٹ کرتے ہیں۔ ان میں اکثر اشعار وہ ہیں جو غالب کے ہیں ہی نہیں۔ مثلاً یہ شعر دیکھئے:
نہ روٹھنے کا ڈر نہ منانے کی کوشش
دل سے اُترے ہوئے لوگوں سے شکایت کیسی
اتنا معرکۃ الآراء شعر کسی کا بھی ہوسکتا ہے سوائے غالب کے۔ اگر ایسا لگتا ہو کہ غالب ہی کا ہے اور یہ ہماری لاعلمی ہے کہ ہم اسے غالب کا ماننے کو تیار نہیں تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، دیوان دیکھ لیجئے۔ اس مضمون نگار نے سوچا کہ ہوسکتا ہے یہ کسی قالب صاحب کا ہو اور غلطی سے غالب لکھ دیا ہو، یہ سوچ کر اسپیلنگ دوبارہ اور سہ بارہ چیک کی۔ لکھا ہوا غالب ہی تھا بلکہ اس سے قبل مرزا بھی تھا جس سے توثیق مزیدہوئی۔ اب آپ کیا کہیں گے؟ اگر خداوند عالم غالبؔ کو ایک دن نہیں چند گھنٹوں کیلئے دُنیا میں دوبارہ بھیج دیں اور اُن کا کوئی حقیقی مداح اُنہیں بتائے کہ حضور ِوالا یہ شعر آپ کے نام سے شہرت پارہا ہے تو غالب طیش میں آکر اپنے مداح کو اُلٹا لٹکا دیں گے کہ ہم مر گئے تو کیا ہوا تم تو زندہ ہو، تمہاری غیرت کیسے برداشت کررہی ہے کہ ایک ادنیٰ سے شعر کو ہم سے منسوب ہوتا ہوا دیکھو اور چپ رہو، کچھ نہ کہو؟
بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ اکابرین ِ اُردو، اہل اُردو کو ڈانٹ رہے ہیں کہ آپ کی غیرت غلط اُردو کیسے برداشت کررہی ہے!n