Inquilab Logo

چینی جارحیت سے نظریں چرانے کی وجہ کیا ہے؟

Updated: October 14, 2020, 11:27 AM IST | Parvez Hafiz

ہندوستان جنگ سے بچنا چاہتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چین کے ذریعہ حال میں ایل اے سی کی تبدیل کی گئی ہئیت کو قبول کرلے گا۔

India VS China - Pic : INN
انڈیا اور چین ۔ تصویر : آئی این این

  لداخ میں ایل اے سی پرجاری کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے ہندوستان اور چین کے ملٹری کمانڈروں کے درمیان پیر کو گیارہ گھنٹوں تک چلے مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے۔ دراصل بیجنگ قضیہ کو حل کرنے کی نیت سے ان میں حصہ نہیں لے رہا ہے۔ اس کے لئے ان مذاکرات کی نہ کوئی خاص اہمیت اور نہ ہی ضرورت ہے کیونکہ اس کی پیپلز لبریشن آرمی نے توناجائز گھس پیٹھ کرکے ہندوستان کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ پچھلے ساڑھے پانچ ماہ میں سرحدی تنازع کو ختم کرنے کی خاطر ہندوستان چین کے ساتھ سات بار ملٹری کمانڈر سطح کے مذاکرات کر چکا ہے۔ ستمبر کے اوائل میں ماسکو میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع کے مابین بھی مذاکرات ہوچکے ہیں اور ایک پانچ نکاتی معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔  
  ہندوستان مکالمے اور مذاکرات کے ذریعہ ایل اے سی پر جاری کشیدگی ختم کرنے کی پرزور کوشش کررہا ہے۔ لیکن ان سفارتی کاوشوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اب تو امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن نے بھی کہہ  دیا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ ہندوستان اس حقیقت کو تسلیم کرلے کہ مذاکرات اور معاہدات کے ذریعہ چین کی علاقائی جارحیت اور توسیع پسندی پر لگام نہیں لگائی جاسکتی ہے۔ ان کی یہ رائے’’ چین کی جارحیت سے نظریں چرانے یا دوسرا گال پیش کردینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا‘‘ نریندرمودی سرکار کیلئے ایک تازیانہ ہے۔امریکی اہلکار یہ بتانا چاہتے ہیں کہ چین اگر طاقت کی زبان سمجھتا ہے تو اسے طاقت کی زبان میں ہی سمجھانے کی ضرورت ہے۔ مودی جی نے خود منموہن سنگھ کو ۲۰۱۳ء  میں چین کو اس کی  حرکتوں سے باز رکھنے کیلئے’’لا ل آنکھیں دکھانے‘‘ کی ضرورت سمجھائی تھی۔ آج وہ خود اس قیمتی مشورہ پر عمل کرنے سے کیوں کترا رہے  ہیں؟
 امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے بھی اپنے اس بیان کے ذریعہ کہ چین نے ایل اے سی پر ۶۰۰۰۰؍  فوجی تعینات کردیئے ہیں ہمیں جگانے کی کوشش کی ہے۔ان کا یہ اعلان بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس لڑائی میں  ہندوستان کو امریکہ جیسے اتحادی کی ضرورت پڑے گی۔ نہ صرف امریکہ بلکہ جاپان اور آسٹریلیا جیسے ممالک بھی تعاون کے لئے تیار ہیں۔ پچھلے ہفتے ٹوکیو میں ان چار ممالک کے اشتراک پر مشتمل تنظیم Quad کے اجلاس سے جو پیغام ابھرا وہ صاف ہے: امریکہ،  ہندوستان، آسٹریلیا اور جاپان متحد ہوکر چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کو روک سکتے ہیں۔ پومپیو نے تو ایل اے سی پر چین کی’’ننگی جارحیت‘‘ کی مذمت بھی کی۔چین اپنی جارحانہ رویہ کے سبب اس وقت متعدد ممالک کی نظروں میں معتوب ہے۔ چین مخالف بڑھتے بین الاقوامی رجحان کے باوجود وزیر خارجہ جے شنکر نے چین کے خلاف زبان کھولنے کی ہمت نہیں کی۔ شاید وہ بیجنگ کو ناراض کرنا نہیں چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایل اے سی پر  ہندوستانی فوج نے روایتی بہادری کا مظاہرہ کیا ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت پھو نک پھونک پرقدم اٹھارہی ہے۔ وزیرخارجہ جے شنکر سفارتی زبان کا استعمال کررہے ہیں تو مشیر برائے قومی سلامتی اجیت ڈوول نے زبان ہی نہیں کھولی ہے۔راج ناتھ سنگھ صرف کھوکھلے دعوے کرتے جبکہ چین روزنامہ ہندو کی رپورٹ کے مطابق ایک ہزار کلو میٹر ہڑپ کر کے بیٹھ چکا ہے۔ رہی بات وزیر اعظم مودی کی جنہوں نے پانچ برسوںمیں شی جن پنگ کے ساتھ اٹھارہ ملاقاتیں کیں اور متعدد بار چین کا دورہ کیا، وہ اب اچانک چین کا نام تک لینے سے انکار کررہے ہیں۔ چین دوستی کے ان کے بے پناہ جذبے کا جواب اگر جن پنگ کی  ہندوستان  دشمنی ہے تو یہ مودی جی کی خارجہ پالیسی اور ذاتی سفارتی کارکردگی دونوں کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ چین کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کا اعتراف وہ کر بھی کیسے سکتے ہیں؟ انہوں نے انیس جون کی شام میں کل جماعتی کانفرنس کے بعد پوری قوم کے سامنے یہ اعلان کیا تھا:’’نہ وہاں کوئی ہماری سیما میں گھس آیا ہے نہ ہی کوئی گھسا ہوا ہے اور نہ ہی ہماری کوئی پوسٹ کسی دوسرے کے قبضے میں ہے۔ آج ہمارے پاس وہ صلاحیت ہے کہ کوئی بھی ہماری ایک انچ زمین کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا ہے۔ ‘‘اس واضح اعلان کے بعد اب وہ چین کے ناجائز تسلط کی بات بھلا کیسے مانیں؟ انہیں شاید یہ خدشہ بھی ہے کہ چین مخالف بیانات سے بیجنگ اور زیادہ مشتعل ہوجائے گا۔ انہیں یہ علم نہیں ہے کہ ظلم پر خاموش رہنے سے ظالموں اور جارحیت پسندوں کے حوصلے بھی بڑھتے ہیں اور مظالم بھی۔ پندرہ جون کو گلوان میں چینی آرمی نے ہمارے بیس جانباز شہید نہ کردیئے ہوتے تو شاید ملک کے عوام چین کے ناپاک عزائم سے ناواقف ہی رہتے۔ ایک ہم سایہ ملک کو’’ گھر میں گھس کر مارنے‘‘کی دھمکی دینے والے دوسرے پڑوسی کے ہمارے گھر میں گھس آنے پر بھی خاموش کیوں ہیں؟ کیا مودی جی کو ابھی بھی امید ہے کہ جن پنگ ان کی دوستی کا پاس رکھتے ہوئے قبضہ کئے ہوئے ہمارے علاقوں سے چینی فوج واپس بلالیں گے؟
 مجھے نہیں پتہ کہ راہل گاندھی کے اس الزام میں صداقت ہے یا نہیں کہ صرف اپنا امیج بچانے کیلئے مودی جی نے خاموشی سے ۱۲۰۰؍  کلو میٹر زمین چین کے حوالے کر دی ہے۔ ہاں یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایل اے سی پر جاری چینی بحران نے مودی جی کو ایک سخت سیاسی، سفارتی اور معاشی امتحان میں ڈال دیا ہے۔ چین نے جارحیت ایسے وقت میں کی ہے جب دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان بھی کورونا وائرس کی تباہی سے نبرد آزما ہے، معیشت کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے اور کروڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ اسلئے مودی  جی کیلئے چین سے جنگ کوئی آسان آپشن نہیں ہے۔ معتبر بین الاقوامی  جریدہ Foreign Affairs نے تازہ شمارے  میں ’’مودی کی ہمالیائی کشمکش‘‘کے عنوان سے  ہندوستان  اور چین کے سرحدی جھگڑے  پر ایک بہترین تجزیہ شائع کیا ہے۔ اس کے مطابق مودی خود کو عوام کے سامنے ہندو قوم پرست اورمضبوط لیڈر کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن انہیں ادراک ہے کہ ہندوستان کی پوزیشن ایسی نہیں ہے کہ وہ چین کے خلاف فوجی کارروائی کا رسک لے سکیں۔ اسی لئے مودی سرکار نے بالواسطہ طور پر تسلیم کرلیا ہے کہ وہ چینی فوج پر حال میں قبضہ کئے گئے  ہندو ستانی علاقوں کو خالی کرنےکیلئے  زور نہیں دے گی اور نہ ہی پیپلز لبریشن آرمی کو سرحد پر واچ ٹاور اور دیگر چوکیاں تعمیر کرنے سے منع کرے گی۔ ہندوستان جنگ سے بچنا چاہتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چین کے ذریعہ حال میں ایل اے سی کی تبدیل کی گئی ہئیت کو قبول کرلے گا۔مودی جی کھوئی ہوئی زمین واپس حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے کیونکہ وہ چین سے ایسی جنگ کا رسک نہیں لینا چاہیں گے جس کو جیتنا ان کیلئے ممکن نہیں ہے۔

china ladakh Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK