Inquilab Logo Happiest Places to Work

یورپی یونین اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار, ہندوستان چوتھے مقام پر: رپورٹ

Updated: July 18, 2025, 5:06 PM IST | Telaviv

یورپی یونین اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اس نے امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑا چین تیسرےاور ہندوستان چوتھے نمبر پرہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ایک نئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ یورپی یونین( ای یو)اسرائیل کی نسل کشی کی معیشت کا بنیادی انجن بن گیا ہے، جو فلسطینی عوام پر غیرقانونی قبضے اور جارحیت کو جاری رکھنے کے لیے اہم آمدنی اور وسائل فراہم کرتا ہے۔ اس فہرست میں امریکہ دوسرے، جبکہ چین اور ہندوستان بالترتیب اسرائیل کے تیسرے اور چوتھے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ ملٹی نیشنل کارپوریشن پر تحقیق کے مرکز سوومو  کی رپورٹ، جس کا عنوان ہے ’’معاشی پابندیاں اب عائد کریں، ای یو اسرائیل کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے‘‘ کے مطابق ۲۰۲۴ء میں اسرائیل کی کل اشیائی تجارت کا ایک تہائی یورپی یونین کے ساتھ تھا جو ۴۲؍ اعشاریہ ۶؍ بلین یورو تک پہنچ گیا۔ یہ امریکہ کے ساتھ۳۱؍ اعشاریہ ۶؍ بلین یورو کی تجارت سے کہیں زیادہ ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے: ہولوکاسٹ اسکالر عمر بارتوف کی تصدیق

ای یو اور امریکہ کے بعد اسرائیل میں سب سے بڑے غیر ملکی سرمایہ کار چین، کنیڈا اور سوئٹزرلینڈ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل کی اپنی رپورٹس کے مطابق جزائر کیمین بھی ایک اہم سرمایہ کار ہے جس نے۲۰۲۳ء میں۲۳؍ بلین ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی۔ تاہم، اعدادوشمار میں بڑے تضادات کی وجہ سے، رپورٹ بنیادی طور پر سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کے فراہم کردہ ڈیٹا پر انحصار کرتی ہے۔ سوومو کے مطابق،ای یو کی اسرائیل میں کل سرمایہ کاری کا دو تہائی حصہ نیدرلینڈز کا ہے، جو اسے امریکہ سے بھی آگے سب سے بڑا انفرادی سرمایہ کار بناتا ہے۔ اس کا حجم جرمنی کی سرمایہ کاری سے دس گنا زیادہ ہے۔ سرمایہ کاری کی یہ غیر معمولی سطح جزوی طور پر نیدرلینڈز کے ’’ٹیکس ہیون‘‘ اور "کنڈوئٹ ملک" (سرمایہ کاری گزارنے والے ملک) کے کردار کی وجہ سے ہے۔ 
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ ای یو اسرائیل کی نسل کشی میں معاونت کر رہا ہے، کیونکہ نسل کشی کے آغاز ۲۰۲۳ءسے ۲۰۲۴ء کے درمیان ای یو اور اسرائیل کے درمیان اشیائی تجارت میں ایک بلین یورو کا اضافہ ہوا۔ اس اضافے کی وجہ ای یو کی برآمدات میں اضافہ تھا، جس کا مطلب ہے کہ نسل کشی کے بعد سےای یو نے’’عملاً اسرائیل کی معیشت کو وسائل کی فراہمی بڑھا دی‘‘، اس طرح ’’نسل کشی اور قبضے کی معیشت کو جاری رکھنے کے لیے اہم وسائل فراہم کیے۔‘‘ رپورٹ میں کہا گیاای یو نے اسرائیل سے ۱۵؍ اعشاریہ ۹؍ بلین یورو مالیت کی مشینری، ٹرانسپورٹ سازوسامان اور کیمیکلز درآمد کیے۔ جبکہ ای یو نے اسرائیل کو۲۶؍ اعشاریہ ۷؍ بلین یورو مالیت کی اشیاء (زیادہ تر مشینری و ٹرانسپورٹ سامان) برآمد کیا۔‘‘  

یہ بھی پڑھئے: ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے اسرائیل نے ہر دن ’’بچوں سے بھرے ایک کلاس روم‘‘ کا قتل کیا ہے: یو این

سوومو نے یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ وہ نسل کشی کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت اپنی قانونی ذمہ داریوں کے مطابق عمل کرے، جس کا تقاضا ہے کہ ممالک نسل کشی روکنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کریں۔ رپورٹ کے مطابق ای یو کے پاس ای یو اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدہ معطل کرنے اور پابندیاں عائد کرنے کی طاقت اور فرض دونوں ہیں۔ ایسا کرنا اسرائیل کی معیشت کا ’’اہم انجن بند‘‘کر دے گا، جس سے فوجی قبضہ اور نسل کشی جاری رکھنے کی اس کی صلاحیت سخت متاثر ہوگی۔ رپورٹ میں زور دیا گیا کہ’’ ای یو کو انسانی حقوق اور فلسطینی جانوں پر اپنے معاشی مفادات کو ترجیح نہیں دینی چاہیے۔‘‘ سومو نے چند فوری اقدامات تجویز کئے ہیں جن میں جامع اسلحہ پابندی ،ڈوئل استعمال ٹیکنالوجی، ہائی ٹیک سامان، تیل و گیس جیسے خام مال، اور دیگر اشیاء پر پابندی جو اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں معاون ہیں، کارپوریٹ احتساب کا تقاضا شامل ہیں، کیونکہ اسرائیل میں کام کرنے والی بہت سی کمپنیاں براہ راست نسل کشی میں ملوث ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق ’’نسل کشی کو۲۱؍ ماہ گزر چکے ہیں۔ای یو حکومتوں کو طویل عرصے سے التوا کا شکار سرخ لکیر کھینچنی چاہیے اور اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ اس کا آغاز مکمل اسلحہ پابندی، معاشی پابندیوں اور کارپوریٹ احتساب سے ہونا چاہیے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK