Inquilab Logo

جب بنو ہاشم اور بنو مطلب سے تمام سماجی، معاشرتی اور اقتصادی تعلقات منقطع کرنے کا معاہدہ کیا گیا

Updated: July 03, 2020, 9:36 AM IST | Maolana Nadeemul Wajidi

خیف بنو کنانہ میں یہ معاہدہ اس وقت طے کیا گیا جب حبشہ سے قریش کا وفد خالی ہاتھ لوٹا ، دشمنان اسلام آپ ؐ کو ہر طرح کی ایذا پہنچانے کے باوجود ناکام رہے اور مسلمانوں کو اسلام سے باز نہیں رکھ سکے۔ خیف بنو کنانہ کے اس معاہدے کی رو سے بنوہاشم اور بنومطلب کا بائیکاٹ کیا گیا تھا… سیرت رسولؐ کی آج کی قسط میں حضرت عمرؓکے قبول اسلام کے بعد مسلمانوں کی حالت کے ساتھ اس معاہدہ کا مضمون اور معاہدہ لکھنے والے کا حشر ملاحظہ کیجئے

Khaif Mosque
خیف بنو کنانہ اس پہاڑی پر واقع ہے جس کے دامن میں مسجد خیف بنی ہوئی ہے

حضرت عمرؓ بن الخطاب اسلام لے آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوگئی اور دُعا اسی چیز کی کی جاتی ہے جس کی آرزو ہو، جس کی چاہت ہو۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم دل سے چاہتے تھے کہ عمرؓ اسلام قبول کرلیں، تاکہ اسلام کو سربلندی حاصل ہو،مسلمان کھل کر سامنے آئیں، اب تک چھپے بیٹھے تھے، ان کے آنے سے حوصلہ بڑھے گا، طاقت بڑھے گی۔ یہی ہوا بھی۔ ان کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے اسلام قبول کرنے کے بعد ساتھیوں سے پوچھا کہ قریش میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو باتوں کو تیزی کے ساتھ پھیلانے کا ہنر رکھتا ہو؟ اب تک تو لوگ اسلام کو چھپاتے آئے تھے، اب یہ نئی صورت حال پیدا ہوئی ہے، اس کو ظاہر کرنے اور پھیلانے کے لئے لوگوں کی تلاش ہورہی ہے۔ کسی نے بتلایا کہ جمیل بن مَعْمَرْ جَمْحی نامی شخص یہ کام اچھی طرح کرتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ صبح کو میرے والد اس کے گھر گئے میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چلا، اگرچہ میں اس وقت چھوٹا تھا، مگر اتنا چھوٹا بھی نہیں تھا کہ کچھ سمجھ نہ سکوں، میرے والد جمیل کے گھر تشریف لے گئے اور اس سے کہا: جمیل! کیا تمہیں پتہ ہے میں مسلمان ہوگیا ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہوگیا ہوں؟ یہ بات سنتے ہی جمیل اچھل کر کھڑا ہوا اور اپنے کپڑے درست کرتا ہوا بیت اللہ کی طرف دوڑا، میرے والد اس کے پیچھے اور میں والد کے پیچھے تھا، حرم شریف کے دروازے پر پہنچ کر جمیل نے چیخ چیخ کر پکارا، اے لوگو! اے اہل قریش! اس وقت وہ لوگ کعبے کے چاروں طرف اپنی محفلوں میں بیٹھے ہوئے تھے، جمیل کے پکارنے پر وہ سب نکل نکل باہر کر آئے، جمیل نے اسی پرجوش انداز میں چیختے ہوئے کہا کہ عمرؓ بن الخطاب بد دین ہوگیا ہے۔ میرے والد نے پیچھے سے کہا کہ یہ جھوٹ کہتا ہے، میں بد دین نہیں ہوا بلکہ مسلمان ہوگیا ہوں، اور میں نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ اللہ ہی معبود حقیقی ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔ قریش کے لوگ یہ سن کر غصے سے آگ بگولا ہوگئے، بات اتنی بڑھی کہ تلواریں نکل آئیں، لوگ عمرؓ پر ٹوٹ پڑے اور عمرؓ بھی ان کا مقابلہ کرنے لگے۔ اسی میں دوپہر ہوگئی، عمرؓ تھک کر بیٹھ گئے، وہ سب تلواریں سونتے اُن کے سر پر کھڑے تھے، انہوں نے بے خوف ہوکر کہا: تمہیں جو کرنا ہے کرلو۔ اتنے میں قریش کے ایک صاحب وہاں آگئے، یہ منظر دیکھ کر رُکے اور پوچھنے لگے کیا قصہ ہے، لوگوں نے کہا: عمرؓ بد دین ہوگیا ہے۔ آنے والے شخص نے ڈانٹ کر کہا، عمرؓ نے جو کیا ہے اسے کرنے دو، تم کون ہوتے ہو اسے روکنے والے، تم کیا چاہتے ہو؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ بنی عدی بن کعب عمرؓکو تمہارے حوالے کردیں، چھوڑو انہیں۔ وہ ڈانٹ کھاکر اس طرح چھٹ گئے جس طرح بادل چھٹ جاتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ پہنچ کر ایک دن میں نے اپنے والد سے پوچھا وہ شخص کون تھا جو وہاں آیا تھا اور اس نے لوگوں کو ڈانٹ کر بھگایا تھا، والد محترم نے جواب دیا، بیٹے! وہ عاص بن وائل سہمی تھا۔ (سیرت ابن ہشام: ۱/۲۴۲، البدایہ والنہایہ: ۳/۸۲)
اسلام لانے کے بعد حضرت عمرؓ کا جوش و خروش اور ولولہ قابل دید تھا، خود فرماتے ہیں کہ جس رات میں مشرف بہ اسلام ہوا، میں نے اپنے گھر والوں سے دریافت کیاکہ مکہ مکرمہ میں اسلام کا سب سے بڑا مخالف اور رسولؐ اللہ کا کٹر دشمن کون ہے، میں اس کے گھر جاکر اسے بتلانا چاہتا ہوں کہ  میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ حضرت عمرؓ کے کسی صاحب زادے نے کہا کہ ابوجہل سب سے بڑا دشمن اور مخالف ہے۔ حضرت عمرؓ، ابوجہل کے بھانجے بھی تھے، فرماتے ہیں کہ میں صبح سویرے ابوجہل کے گھر پہنچا، دروازہ کھٹکھٹایا، اُس نے خود ہی دروازہ کھولا اور مجھ سے بولا: آؤ بھانجے آؤ، کیسے آنا ہوا، میں نے کہا: میں صرف یہ بتلانے کے لئے آیا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسولؐ پر اور جو کچھ وہ لائے ہیں اس پر ایمان لے آیا ہوں۔ یہ سن کر اس نے غصے سے دروازہ بند کرلیا اور یہ کہہ کر اندر چلا گیا تیرا برا ہو، تو نے کیا بری چیز اختیار کی ہے۔ (سیرت ابن ہشام: ۱/۲۴۳)
حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطابؓ کے قبول اسلام کے بعد حضرت جبریل امین تشریف لائے اور فرمایا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تمام فرشتے حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے خوش ہیں۔ (سنن ابن ماجہ: ۱/۳۸، رقم الحدیث:۱۰۳،  المستدرک للحاکم: ۳/۹۰، رقم الحدیث:۴۴۹۱)۔
 حضرت عمر اسلام لے آئے تو مسلمانوں کو دار ارقم سے نکلنے کا حوصلہ ملا، وہ لوگ اجتماعی صورت میں علی الاعلان حرم شریف میں نماز پڑھنے لگے، اسی دن سے حق اور باطل کا فرق واضح اور ظاہر ہونے لگا، رسولؐ اللہ نے آپ کو فاروق لقب عطا فرمایا جس کے معنی ہیں حق کو باطل سے جدا کرنے والا۔ (طبقات ابن سعد: ۳/۱۹۴)
حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ عمرؓ کے اسلام لانے کے بعد ہم مکہ مکرمہ میں عزت کے ساتھ رہنے لگے۔ (صحیح البخاری ۵/۴۸، رقم الحدیث:۳۸۶۳)۔ مزید فرماتے ہیں کہ عمرؓ کا اسلام فتح، ان کی ہجرت نصرت اور ان کی امارت رحمت تھی، ان کے اسلام لانے سے پہلے ہم کعبے میں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، جب وہ اسلام لے آئے تو انہوں نے قریش سے قتال کیا، پھر کعبے میں نماز پڑھی، ہم نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی۔ (المستدرک للحاکم: ۳/۸۳، ۸۴، مجمع الزوائد: ۹/۶۲، طبقات ابن سعد: ۱/۲۷۰)
مسلمانوں کا سماجی واقتصادی بائیکاٹ:
حبشہ سے دو نفری وفد ناکام واپس آگیا، یہاں مکہ مکرمہ میں بھی تمام تدبیریں اختیار کرلی گئیں، مسلمانوں پر کوئی فرق نہیں پڑا، تبلیغِ دین اور  دعوتِ اسلام کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، لوگ برابر مسلمان ہوتے جارہے تھے، پہلے غریب، کمزور  اور دبے کچلے لوگ اسلام قبول کررہے تھے، اب حمزہؓ بھی مسلمان ہوگئے اور عمر ابن الخطابؓ جیسا بہادر اور تعلیم یافتہ شخص بھی اسلام میں داخل ہوگیا، محمدؐ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، تمام مشرکین پریشان تھے، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کریں، اسلام کو پھیلنے سے کیسے روکیں، تمام سازشیں ناکام ہوگئیں، تمام منصوبے فیل ہوگئے، مسلمانوںکو ستانے میں انہوں نے رات دن ایک کردیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس قدر بدسلوکی وہ کرسکتے تھے اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، دھمکیاں بھی دیں، لالچ بھی دیا، مگر نہ تو آپؐنے  اپنی دعوت کو ترک کیا اور نہ مسلمان ہی رکے، ایسی صورت میں کیا کریں، کس طرح اس معاملے سے نمٹیں، اعیان قریش پھر سر جوڑ کر بیٹھے، اور یہ طے کرکے بیٹھے کہ اب جو بات طے ہوگی وہ فیصلہ کن ہوگی۔ کافی غور وخوض کے بعد طے پایا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کا مکمل بائیکاٹ کردیا جائے۔ ان دونوں کا بائیکاٹ اس لئے ضروری ہے کہ وہ محمدؐ  کو ہمارے سپرد نہیں کررہے ہیں، بلکہ ایک طرح سے ان کی ہمنوائی اور پشت پناہی کررہے ہیں، تمام اعیان قریش اس تجویز پر متفق نظر آئے، سب لوگوں کی رائے ہوئی کہ اس معاہدے کو تحریری شکل دے دی جائے اور اس پر تمام حاضرین مجلس کے دستخط لئے جائیں، بلکہ جو لوگ کسی وجہ سے یہاں نہیں آسکے ان سے بھی دستخط کرالئے جائیں۔ اسی وقت ایک معاہدہ لکھا گیا جس کا مضمون یہ تھا کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب سے تمام سماجی، معاشرتی اور اقتصادی تعلقات منقطع کرلئے جائیں، کیونکہ وہ محمد ؐ کو ہمارے سپرد نہیں کررہے ہیں، آج کے بعد سے کوئی شخص ان سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں رکھے گا، نہ ان کو کوئی اپنی بیٹی دے گا اور نہ کوئی شخص ان کی بیٹیوں سے نکاح کرے گا، ان کو کوئی چیز فروخت نہیں کی جائے گی اور نہ ان سے کوئی چیز خریدی جائے گی۔
یہ معاہدہ ایک روایت کے مطابق منصور بن عکرمہ بن عامر بن ہاشم بن عبد مناف نے لکھا، اور اس پر قریش کے تقریباً چالیس ذمہ دار افراد نے دستخط کئے۔ اسی وقت یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے خانۂ کعبہ کے اندر آویزاں کردیا جائے، تاکہ اللہ کا مقدس گھر بھی اس عہدومیثاق کا گواہ بن جائے،  سب لوگ اس پر مطلع ہوجائیں، اور خانۂ کعبہ کا احترام کرتے ہوئے تمام قبائل قریش اس کے پابند رہیں۔ (سیرت ابن ہشام: ۱/۲۴۴) 
معاہدے کے کچھ اور حقائق:
یہ معاہدہ ماہ محرم  ۷ ؍ نبوی مطابق ۶۱۵ء کو لکھا گیا اور اسی وقت سے اس پر عمل بھی شروع ہوگیا۔ اعیان قریش کا یہ مشاورتی اجتماع جس میں معاہدہ  کو حتمی شکل دی گئی وادئ محصب میں منعقد ہوا تھا۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں اپنی جائے قیام کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا: ’’کل ہم خیف بن کنانہ میں قیام کریں گے جہاں قریش نے کفر پر عہدوپیمان کیا تھا۔‘‘ (صحیح البخاری: ۲/۱۴۸، رقم الحدیث: ۱۵۹۰، صحیح مسلم: ۲/۹۵۲،  رقم الحدیث: ۱۳۱۴)  یہ عہدوپیمان جس کا ذکر اس حدیث میں ہے قریش کا وہ معاہدہ تھا جس میں بنو ہاشم اور بنو مطلب سے مقاطعے کا فیصلہ کیا گیاتھا۔ معاہدے کے نکات پر غور وخوض کرنے کے لئے وادئ محصب میں خیف بن کنانہ کا انتخاب کیاگیا تھا تاکہ مکہ مکرمہ کی بھیڑ بھاڑ سے بچ کر اس پر سکون جگہ پر غور وخوض کیا جائے۔ حضرت اُسامہ بن زیدؓ کی روایت میں ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم کل کہاں قیام کریں گے، عقیل ابن ابی طالب نے تو مکان چھوڑا نہیں؟ مطلب یہ کہ چچا ابو طالب کا مکان ان کے بیٹے عقیل نے فروخت کردیا ہے، اب ہمارے قیام کی مناسب جگہ کون سی ہوگی، اس کے جواب میں رسولؐ اللہ  نے ارشاد فرمایا ہم کل کو خیف بنی کنانہ محصب میں قیام کرینگے جہاں قریش نے کفر کا معاہدہ کیا تھا۔ (سنن أبی داؤد:۲/۲۱۰، ۲۰۱۰، سنن ابن ماجہ: ۲/۹۸۱، رقم الحدیث: ۲۹۴۲)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں موجود کرب اور تلخی کو اچھی طرح محسوس کیا جاسکتا ہے، واقعہ سترہ سال پہلے کا ہے، حالات بدل چکے ہیں، مکہ فتح ہوچکا ہے، اسلام ہر جگہ چھایا ہوا ہے، لیکن اس معاہدے کی وہ تلخ یاد آج بھی دلوں میں موجود ہے  اور جس کی رو سے مسلمانوں کو تین سال تک تکلیف جھیلنی پڑی تھی، آپؐ یہ بھی فرماسکتے تھے کہ ہم کل وادئ محصب میں بنو کنانہ کے خیف میں قیام کریں گے، مگر اس کے ساتھ معاہدے کا تذکرہ در اصل اس کرب کا اظہار ہے جو سترہ سال کے بعد بھی اس طرح تازہ تھا جیسے کل کی بات ہو، خیف بنو کنانہ اس پہاڑی پر واقع ہے جس کے دامن میں مسجد خیف بنی ہوئی ہے، امام نوویؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ قیام کا فیصلہ اس لئے کیا تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر شکر ادا کیا جاسکے کہ آج اس نے اپنے فضل وکرم سے پورے مکّے کو ان کیلئے جائے امن بنا دیا ہے، سترہ سال پہلے وہ اپنے افراد خاندان کے ساتھ ایک گھاٹی میں محصور ہوگئے تھے، جو لوگ اس قید وبند کے ذمہ دار تھے اب ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں اور جہاں انہوں نے قید وبند کے منصوبے بنائے تھے اس جگہ سمیت تمام مکانات، گھاٹیاں، پہاڑ اور وادیاں سب ان کے دست تصرف میں ہیں۔ (شرح النووی علی الصحیح المسلم: ۹/۶۱،۶۲) اس سلسلے کی ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ منصور بن عکرمہ نامی جس شخص نے یہ معاہدہ اپنے ہاتھ اور اپنے قلم سے تحریر کیا تھا اس کی انگلیاں شل ہوگئی تھیں اور وہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں کبھی اس قابل نہ ہوسکا کہ کچھ لکھ سکے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK