Inquilab Logo

کہانیوں میں چھپی ہیں کتنی کہانیاں یہ کسے خبر ہے!

Updated: October 28, 2023, 1:04 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

پوری دُنیا کے ذرائع ابلاغ پر اِس وقت فلسطین اور اسرائیل جنگ کی خبروں کا غلبہ ہے مگر کم ہی لوگ ہیں جو اہل فلسطین کے درد سے واقف ہیں، اسے سمجھتے ہیں۔

A scene from the movie "Farha". Photo: INN
فلم ’’فرحہ‘‘ کا ایک منظر ۔تصویر:آئی این این

چند  برس پہلے نیٹ فلکس کے ذریعہ ایک فلم منظر عام پر آئی تھی ’’فرحہ‘‘۔ یہ ایک ایسی فلسطینی دوشیزہ کی کہانی ہے جس کا ہنستا کھیلتا بچپن ہے، جسے حصول علم سےاس حد تک رغبت ہے کہ گاؤں  کے چشمے پر پانی بھرنے کیلئے بھی جاتی ہے تو کوئی کتاب ساتھ لے جاتی ہے اور جتنا بھی وقت ملتا ہے مطالعہ کرتی ہے۔ اپنی سہیلی فریدہ سے، جو شہر سے گاؤں  آئی ہے، بات چیت کے دوران بھی اُس کا موضوع حصول علم ہی ہوتا ہے۔ وہ فریدہ کو بتاتی ہے کہ شہر کے کسی تعلیمی ادارہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا اور پھر معلمہ بننا اُس کا خواب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اُس کے والد اُس کی شادی کرنے کے اپنے ارادے کا اظہار کرتے ہیں  تو وہ والد کو اپنے خواب اور مقصد سے آگاہ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ابھی مجھے پڑھنا ہے۔
  فلم آگے بڑھتی ہے اور ایک دن اُس گاؤں  میں  برطانوی فوج داخل ہوجاتی ہے۔ فلم کے ذریعہ فرحہ کی داستان ۱۹۴۸ء کے خونیں   واقعات (نکبہ) کے پس منظر میں  سنائی گئی ہے جو ایک دوشیزہ اور اس حوالے سے اہل فلسطین کے خوابوں  کے ٹوٹنے بکھرنے ہی کی داستان نہیں  ہے، خاندانوں  کے بُری طرح ٹوٹ کر بکھر جانے حتیٰ کہ پورے پورے کنبے کے صفحۂ ہستی سے مٹا دیئے جانے کی دلخراش داستان ہے۔ برطانوی فوج ظلم ڈھاتی ہے مگر اسی دوران فرحہ کے والد کو، جو گاؤں  کے سردار ہیں ، کہیں  جانا پڑتا ہے۔ وہ اُسے مکان کے ایک کمرہ (اسٹور روم) میں  بند کرکے اس وعدے کے ساتھ رخصت ہوجاتے ہیں  کہ جلد ہی لوَٹ آؤنگا مگر اُس کے والد کبھی نہیں  لوَٹتے۔ فرحہ گودام میں  ایک دن، دو دن، تین دن، بھوکی پیاسی رہنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اس کیلئے بیرونی دُنیا مقفل ہے جس کی محض چند جھلکیاں  وہ اُن جھروکوں  سے دیکھ پاتی ہے جو بظاہر بے وقعت مگر اُس کیلئے بیرونی دُنیا تک رسائی کا واحد ذریعہ ہیں ۔ وہ اُنہی جھروکوں  سے قتل و غارتگری، لوگوں  کے بے گھر ہونے کی حقیقت اور ایسے ہی دیگر روح فرسا مناظر دیکھتی ہے اور صدموں  کے پہاڑ تلے شب و روز گزارتی ہے۔ جو دوشیزہ پڑھ لکھ کر معلمہ بننا چاہتی تھی، وہ اُن مناظر کی گواہ بن جاتی ہے جو چودہ پندرہ سال کی کسی دوشیزہ کیلئے بالکل ایسے ہیں  جیسے ایک طائر خوش نما و خوش نوا یکلخت کسی توپ کے سامنے آجائے۔ ’’فرحہ‘‘ نمائش کیلئے پیش ہوئی تھی تب اسرائیلی حکام نے اس کے خلاف کافی شور مچایا تھا مگر فلم ریلیز ہوئی اور دُنیا، جو اپنے مشاغل سے شاید ہی کبھی باہر نکلتی ہے، معمولی حد تک ہی سہی، یہ جان پائی کہ ۱۹۴۸ء میں  کس طرح فلسطین کو اُجاڑنے کی ابتداء ہوئی تھی۔
 اہل فلسطین کا ہمدرد ہونا اور اُن کے درد کو سمجھنا دو الگ باتیں  ہیں ۔ آئے دن کے مظالم اور جنگ ہوجائے تو جنگ کے دوران کیا کیا ہوا، کتنی شہادتیں  ہوئیں ، کتنے لوگ زخمی ہوئے اور کتنے بے گھر، اس کی خبروں  کے ذریعہ ملنے والی تفصیل اہل فلسطین کے درد کو پوری جزئیات کے ساتھ سمجھنے کیلئے کافی نہیں ۔ خبریں  واقعات کا آئینہ ہوتی ہیں  انسانی جذبات و احساسات کا نہیں ۔ اسی پس منظر میں  اس کالم کے قارئین کو گزشتہ ہفتے یہ مخلصانہ مشورہ دیا گیا تھا کہ کسی خطے کے باشندوں  کی زندگی کو سمجھنے کی کوشش ادب کے مطالعے کے ذریعہ ہونی چاہئے کیونکہ ادب جو سیاسی مکر و فریب کو بھی اُجاگر کرتا ہے اور اس کے جبر کو بھی، حالات و واقعات کا انسانی نقطۂ نظر سے جائزہ لیتا ہے۔ 
 یہاں  ایک اور مشکل ہے۔ اہل اُردو نے فلسطین کے غم کو اپنا غم تو سمجھا مگر فلسطینی ادب کو عربی سے اُردو کے قالب میں  ڈھالنے کی جیسی اور جتنی کوشش ہونی چاہئے تھی، نہیں  کی۔ ممبئی سے شائع ہونے والا سہ ماہی رسالہ ’’اُردو چینل‘‘ ہر شمارے میں  اپنی سی کوشش کرتا ہے کہ جس قدر ممکن ہوسکے، غیر ملکی ادب کو منظر عام پر لائے۔ اسی کوشش کا نتیجہ تھا کہ اس نے خصوصی گوشوں  کے ذریعہ بہت سا غیر ملکی ادب اہل اُردو تک پہنچانے کی سعی ٔ مشکور کی۔ اس نے فلسطینی کہانیوں  کا بھی ایک گوشہ شائع کیا تھا جس میں  آٹھ کہانیاں  شامل کی گئی تھیں ۔ ان کے مترجم شمس الرب خان مہاراشٹر کالج ، ممبئی کے شعبۂ عربی سے وابستہ ہیں ۔ بعد میں  مزید سات کہانیوں  کا اضافہ کرکے مجموعی طور پر پندرہ کہانیوں  کو ’’فلسطینی افسانے‘‘ کے نام سے کتابی شکل دی گئی جس کے بارے میں  صاحب تصنیف کا کہنا ہے کہ ’’میں  نے ان افسانوں  کی رفاقت میں  فلسطین اور فلسطینیوں  کے ہر رنگ کو جیا ہے، مایوسیوں  کا سمندر ہو یا آخری دم تک لڑتے رہنے کا جذبہ، دشمن کی آنکھوں  میں  آنکھیں  ڈال کر مقابلہ کرنے والے جیالوں  کی داستان ہو یا موت کو سامنے دیکھ کر بھی مسکرانے والے سرفروشوں  کی کہانی، مَیں  نے ان افسانوں  کے کرداروں  کے ساتھ آنسو بہائے ہیں  اور اُن کو غمزہ پاکر میرا دل بیقرار ہوا ہے۔‘‘ اِس مضمون نگار نے شمس الرب خان سے اُن کی تصنیف کی بابت گفتگو کی اور یہ جاننے کی خواہش کی کہ پندرہ افسانوں  کے لب لباب کو آپ چند جملوں  میں  کس طرح بیان کرسکتے ہیں  تو اُن کا جواب تھا کہ ’’مسئلۂ فلسطین کو عموماً سیاسی مسئلہ سمجھا جاتا ہے مگر ان افسانوں  کے آئینے میں  ہماری نگاہ کے سامنے ایسا فلسطین اُجاگر ہوتا ہے جس کے ذریعہ عوام کی روزمرہ زندگی کے بہت سے گوشوں  کو سمجھنے میں  مدد ملتی ہے۔ ان میں  کئی ایسے گوشے ہیں  جو بصورت دیگر سامنے نہیں  آتے مثلاً کہانی ’گمشدہ شے‘ کے اُس فلسطینی کا کرب جس کی مردانگی تلف کردی جاتی ہےاو رجو اِس ظلم کو برداشت کرپانے کے قابل نہیں  رہ جاتا۔ یہیں  اُس کی بیوی کا کردار عورت کے جذبہ ٔ قربانی کے غیر معمولی ہونے کی حقیقت بیان کرتا ہے جو کہتی ہے کہ’آپ اس گمشدہ شے کے بغیر بھی مرد ہیں !‘‘ اِس جملے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ فلسطینی مزاحمت میں  جتنا حصہ فلسطینی مردوں  کا ہے، اُتنا ہی بلکہ شاید اُس سے زیادہ فلسطینی خواتین کا ہے۔ اُن کی قربانیاں عام طور پر نگاہوں سے اوجھل رہ جاتی ہیں  مگر اس کو سمجھے کون؟ کتنے اہل اُردو جانتے ہیں  کہ آٹھ فلسطینی افسانے ’’اُردو چینل‘‘ میں اور پندرہ افسانے کتابی شکل میں چھپ چکے ہیں ؟ 
  جس نے اہل فلسطین کے دکھ کو اُس کی گہرائی میں  جاکر سمجھا ہے وہ خطرات مول لے کربھی یعنی ڈنکے کی چوٹ پر اپنی فلسطین نوازی کا ثبوت دیتاہے۔ اس کی ایک مثال فٹ بال کی دُنیا کی افسانوی شخصیت، ارجنٹائنا کے کھلاڑی ڈیگو میراڈونا ہیں  جنہوں  نے ۲۰۱۲ء میں  ورلڈ کپ کے موقع پر کہا تھا کہ ’’مَیں  دل سے فلسطینی ہوں  اور ہمیشہ سے فلسطین کے دعوے کے حق میں  رہا ہوں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK