امتحانی نتائج کا تجزیہ بتاتا ہے کہ سول سروسیز کے امتحانات میں مسلم طلبہ کی کارکردگی دیگر اقوام کے طلبہ کی کارکردگی کے مساوی ہے، اُن سے کم نہیں ہے
EPAPER
Updated: May 04, 2025, 12:47 PM IST | Mumbai
امتحانی نتائج کا تجزیہ بتاتا ہے کہ سول سروسیز کے امتحانات میں مسلم طلبہ کی کارکردگی دیگر اقوام کے طلبہ کی کارکردگی کے مساوی ہے، اُن سے کم نہیں ہے
سول سروسیز کے امتحانات کے نتائج چند روز قبل ظاہر کئے گئے ہیں۔ ان میں جن طلبہ کو سول سروسیز کیلئے منتخب کرلیا گیا ہے بلاشبہ وہ، اُن کے والدین اور اساتذہ قابل مبارکباد ہیں۔ اپنی محنت اور لگن کے ذریعہ اُنہوں نے ایک مشکل معرکہ کو سر کیا، ملت کا نام روشن کیا ہے اور بعد میں آنے والے طلبہ کیلئے مثال بنے ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ وہ سول سروسیز کے جس کسی شعبے سے وابستہ ہوں گے، اپنی مثالی خدمات کا نقش قائم کریں گے، ملک و قوم کی خدمت کریں گے اور اپنے فیصلوں کے ذریعہ انڈین سول سروسیز کا معیار بلند کریں گے۔
جو طلبہ ٹھان لیتے ہیں وہ نامساعد حالات کے باوجود کر گزرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ امتحانی نتائج کا تجزیہ بتاتا ہے کہ سول سروسیز کے امتحانات میں مسلم طلبہ کی کارکردگی دیگر اقوام کے طلبہ کی کارکردگی کے مساوی ہے، اُن سے کم نہیں ہے بلکہ بعض اوقات دیگر اقوام کے طلبہ سے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ مسلم طلبہ کرتے ہیں۔ مگر سروسیز میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی تعداد بہرحال کم بلکہ بہت کم ہے اور یہی بات تشویش کا باعث ہے۔ اگر گزشتہ دس سال کے اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ۲۰۱۵ء میں منتخب ہونے والے ۱۰۷۸؍ طلبہ میں سے صرف ۳۷؍ مسلم طلبہ تھے۔ ۲۰۱۶ء میں ۱۰۹۹؍ طلبہ میں صرف ۵۲؍ طلبہ مسلم تھے۔ ۲۰۱۷ء میں ۹۸۰؍ طلبہ میں سے صرف ۵۰؍ مسلم تھے۔ ۲۰۱۸ء میں ۷۶۹؍ طلبہ منتخب کئے گئے تھے جن میں صرف ۲۷؍ مسلم طلبہ تھے۔ اسی طرح ۲۰۱۹ء میں ۴۲، ۲۰۲۰ء میں ۳۱، ۲۰۲۱ء میں ۲۵، ۲۰۲۲ء میں ۲۹، ۲۰۲۳ء میں ۵۱؍ اور ۲۰۲۴ء میں (حالیہ رزلٹ) ۲۶؍ طلبہ مسلم ہیں۔
دس سال کے نتائج کا اوسط ۳ء۷۰؍ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ ان میں سے ۲۰۱۶ء، ۲۰۱۷ء اور ۲۰۲۳ء کے نتائج (علی الترتیب ۵۲، ۵۰؍ اور ۵۱؍ طلبہ) کو منہا کرکے ۷؍ سال کے نتائج کا اوسط نکالا جائے تو وہ ۳ء۱؍ فیصد ہے۔ اس میں اعشاریہ ایک دو کا فرق ہوسکتا ہے اور کامیاب ہونے والے مسلم طلبہ کی تعداد میں بھی دو تین کا فرق ہوسکتا ہے مگر موٹے طور پر یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کامیاب ہونے والے تمام طلبہ میں مسلم طلبہ کا فیصد ۲ء۵؍ یا ۳؍ فیصد ہی ہوتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ یہ فیصد آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مسلم معاشرہ میں سول سروسیز یعنی آئی اے ایس، آئی پی ایس اور آئی ایف ایس وغیرہ کے تعلق سے بیداری بڑھی ہے، کامیاب ہونے والے طلبہ کی کامیابی کا جشن منانے کیلئے منعقد ہ تقاریب کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر بیداری اور پزیرائی سے امتحان کا فارم بھرنے والوں کی تعداد نہیں بڑھ رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کامیاب ہونے والوں کو تہنیت پیش کرنے میں تو پیش پیش ہیں، اس امتحان کیلئے زیادہ سے زیادہ طلبہ کو رغبت دلانے میں کامیاب نہیں ہیں۔ مسلم طلبہ کا فیصد تبھی بڑھے گا جب شریک ِ امتحان طلبہ کی تعداد بڑھے گی۔ یہ بات پہلی مرتبہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہی گئی تھی اس کے بعد سے تسلسل کے ساتھ اس کی توثیق ہوتی رہی ہے بالخصوص اُن اداروں کے ذریعہ جو سول سروسیز امتحان کی تیاری کرواتے ہیں۔ بالفاظ دیگر مرض کی تشخیص ہوچکی ہے اور علاج تجویز کردیا گیا ہے۔ اسکے بعد بھی مرض برقرار رہے تو کون ذمہ دار ہے؟