۱۸؍ویں لوک سبھا کیلئے انتخابی بگل بج گیا ہے۔ ۷؍ مرحلوں میں ہونے والے اس الیکشن کا نتیجہ۴؍ جون کو آئے گا۔ آئین کو تبدیل کرنے کےاعلان کے درمیان بی جے پی کے ساتھ ہی اس کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس بھی موضوع بحث ہے۔
EPAPER
Updated: April 15, 2024, 1:20 PM IST | Dr. Ravi Kant | Mumbai
۱۸؍ویں لوک سبھا کیلئے انتخابی بگل بج گیا ہے۔ ۷؍ مرحلوں میں ہونے والے اس الیکشن کا نتیجہ۴؍ جون کو آئے گا۔ آئین کو تبدیل کرنے کےاعلان کے درمیان بی جے پی کے ساتھ ہی اس کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس بھی موضوع بحث ہے۔
۱۸؍ویں لوک سبھا کیلئے انتخابی بگل بج گیا ہے۔ ۷؍ مرحلوں میں ہونے والے اس الیکشن کا نتیجہ۴؍ جون کو آئے گا۔ آئین کو تبدیل کرنے کے اعلان کے درمیان بی جے پی کے ساتھ ہی اس کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس بھی موضوع بحث ہے۔ گاندھی جی کے قتل کے وقت آر ایس ایس پر سے پابندی وزیر داخلہ سردار پٹیل نے اس شرط کے ساتھ ہٹا دی تھی کہ یہ کبھی سیاست میں حصہ نہیں لے گی لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بی جے پی کی آڑ میں آر ایس ایس ہی اقتدار میں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوتواوادی سوچ رکھنے والی یہ تنظیم ہندوستان کی جمہوری سیکولر سیاست کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اتنی طاقتور کیسے ہو گئی؟ آر ایس ایس نے۹۰؍ سال کی تحریک آزادی سے پیدا ہونے والے ’آئیڈیا آف انڈیا‘ کو سر کے بل کیسے کھڑا کردیا؟
آر ایس ایس ایک خالصتاً ذات پات پر مبنی تنظیم ہے جو مذہب کی سیاست کرتی ہے۔ برہمنیت اس کے ڈی این اے میں ہے۔ دلتوں اور محروموں نے جمہوریت اور آئینی حقوق کے ذریعے جو آزادی حاصل کی، وہ آج اس کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ ہندو قوم بننے یا آئین بدلنے کا فائدہ کس کو ہوگا؟ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے فرانسیسی مصنف میلراکس سے کہا تھا کہ آزادی کے بعد ان کا سب سے بڑا مسئلہ `منصفانہ طریقے سے’ایک مساوی سماج کی تعمیر‘ تھا۔ نہرو کے دور میں جو شروع ہوا تھا آج اس پر تالا لگا دیا گیا ہے۔ اس الیکشن کے درمیان آر ایس ایس کی سیاست کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
ذات پات کے نظام متاثرجیوتی با پھلے سے لے کر ڈاکٹر امبیڈکر تک تمام دانشوروں نے اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور مساوات پر مبنی سماج کی تعمیر کیلئے کافی جدوجہد کی ہے۔ چھترپتی شاہوجی مہاراج کی ریزرویشن پالیسی کے ذریعے سماجی انصاف قائم کرنے کیلئے ڈاکٹر امبیڈکر نے ریزرویشن کو آئینی حق کا درجہ دیا۔ نظریاتی طور پر، مساوات، انصاف اور بھائی چارے کو آئین میں اچھوت جیسے ذات پات پر مبنی کلنک کو ختم کرکے قائم کیا گیا۔ سب کو ووٹ کا مساوی حق دیا گیا۔ دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ لوگوں اور اقلیتوں کو خصوصی حقوق دیئے گئے۔ یعنی کمزور طبقات کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا۔ سب کو ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کا موقع ملا۔ اسی لئے آر ایس ایس نے آئین کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ آر ایس ایس نے۳۰؍ نومبر۱۹۴۹ء کو اپنے ترجمان اخبار ’آرگنائزر‘ کے اداریے میں لکھا تھا کہ `ہندوستان کاآئین غیر ملکی ہے، اس میں کچھ بھی ہندوستانی نہیں ہے کیونکہ اس میں ’منو‘ کے ضابطے نہیں ہیں، اسلئے ہم ہندوستان کے آئین کو نہیں مانتے۔ ‘‘دراصل آر ایس ایس ایک خالص منوادی تنظیم ہے۔ ہندوتوا کے نام پر سنگھ ایک بار پھر دلتوں، پسماندہ طبقات اور خواتین پر برہمنیت مسلط کرنا چاہتا ہے۔
گاندھی جی کے قتل کے بعد سنگھ پریوار الگ تھلگ پڑگیا تھا۔ پھر اس نے جمہوریت کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے اور ہندوتوا کو شکل دینے کی منصوبہ بندی کی اور ۱۹۵۲ء میں اس نے جن سنگھ کے نام سے سیاسی پارٹی بنائی۔ جن سنگھ اور آر ایس ایس کو طویل عرصے تک کوئی کامیابی نہیں ملی کیونکہ اُس وقت لوگ اسے پہنچانتے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: کانگریس کو مالی وسائل سے محروم کرنے کی کوشش وزیراعظم مودی کے خوف کا مظہر ہے
عوامی تحریکیں جمہوریت کو متحرک کرتی ہیں۔ ہندوستان کا آئین حکمران جماعت کے ساتھ اپوزیشن کو بھی بڑا کردار دیتا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ مضبوط اپوزیشن کے بغیر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ نہرو جانتے تھے کہ `ہندو فرقہ پرستی کی مخالفت کرنا خاص طور پر اہم ہے کیونکہ یہ ہندوستان میں واحد منظم رجحان ہے جو مستقبل میں فاشزم کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اندرا گاندھی کے زمانے میں اُبھرنے والی جے پی تحریک میں آر ایس ایس کا بڑا کردار تھا۔ جن سنگھ اور آر ایس ایس کے ساتھ مل کر جے پی کے ساتھ، مرارجی دیسائی اور دیگر لیڈران دائیں بازو کے خیال پر کام کر رہے تھے۔ یہی وہ صورتحال تھی جس کی وجہ سے آر ایس ایس کو تقویت ملی اور پھر بعد میں بی جے پی وجود میں آئی اور آج اقتدار پر قابض ہے۔
۲۰۱۴ء اور۲۰۱۹ءکے لوک سبھا انتخابات میں، بی جے پی نے بالترتیب۲۸۲؍ اور۳۰۳؍ نشستیں حاصل کیں اور مودی کی قیادت میں مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی۔
مودی کے اقتدار میں آتے ہی ہندوتوا پالیسیوں کو کھلے عام نافذ کیا جانے لگا۔ آرٹیکل۳۷۰؍ کو ختم کرکے کشمیر کی خود مختاری چھین لی گئی۔ تین طلاق کو مجرمانہ عمل قرار دیا گیا۔ سی اے اے جیسے قوانین کو نافذ کردیا گیا۔ لو جہاد، لنچنگ اور بلڈوزر جسٹس جیسےاصطلاحات سے مسلمانوں کو خوفزدہ کیا جانے لگا۔ شمشان، قبرستان، جھٹکا، حلال اور مندر، مسجد جیسے مسائل ہوا میں تیرنے لگے۔ مساجد اور گرجا گھروں پر کھلے عام حملے ہونے لگے۔ ان حملہ آوروں کو آزادانہ لگام مل گئی۔ قانون ان کے سامنے اندھا اور بے بس نظر آنے لگا۔ سرکاری ملازمتوں کو ختم کر کے دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کیلئے ریزرویشن کو بے معنی کر دیا گیا۔ بائیں بازو اور امبیڈکروادی دانشوروں پر دن دہاڑے حملے کئے گئے۔
آر ایس ایس کے قیام کے ۱۰۰؍ سال پورے ہونے جارہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۰۰؍ویں سال میں آر ایس ایس ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کااعلان کرسکتی ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ کیا ملک کے دلت، قبائلی، پسماندہ لوگ اور اقلیتیں یعنی ملک کی اکثریتی آبادی ذات پات کے نظام اور فاشزم پر مبنی ہندوتواوادی قوم کے قیام کے آر ایس ایس کے ایجنڈے کو کامیاب ہونے دے گی؟ میرے خیال سے یہ آر ایس ایس کی ایک خامی خیالی ہی ہوسکتی ہے جو ۴؍ جون کے بعد ظاہر ہوجائے گا۔