Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’کبھی ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو!‘‘

Updated: August 19, 2023, 1:07 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

ہندو مسلم اتحاد لازمی ہے مگر اس مقصد کو پانے کی کوشش کے نام پر کہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اب ایک مہم شروع ہوئی ہے جس کی کافی پزیرائی ہورہی ہے۔ کاش یہ جاری و ساری رہے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

’’میرے گھر آکر تو دیکھو‘‘ کی مہم جاری ہوئے ابھی چند ہی روز ہوئے ہیں مگر اسے پسند کیا جارہا ہے اور اطلاعات کے مطابق مسلمان، ہندوؤں کو اور ہندو، مسلمانوں کو اپنے گھر بلانے اور اُن کی میزبانی کرنے کیلئے بیقرار ہیں ۔ ایک اچھی مہم کو اچھے تجربے سے گزرنے کا موقع ملے تو ایسی مزید مہمیں چلانے کا حوصلہ ملتا ہے۔ مگر، بات صرف ایک بار کسی کو اپنےگھر بلا لینے کی نہیں ہے۔ یہ مہم ایک طرح کی ترغیب ہے کہ اگر مخالف پروپیگنڈہ دونوں فرقوں کے درمیان ہزار دیواریں کھڑی کرنے کیلئے جاری کیا گیا ہے تو اس کا تریاق نہایت ضروری ہے۔ تریاق کی ایک صورت جو بہت آسانی سے نکالی جاسکتی ہے، یہی ہے کہ لوگ باگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہیں ۔ اس سے غلط فہمیاں دور ہوں گی اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔ اس طرح مخالف پروپیگنڈہ کو بے اثر اور ناکام کیا جاسکتا ہے۔چونکہ یہ مہم ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اس لئے جوش و خروش بھی دیدنی ہے مگر جیسے جیسے وقت گزرے گا، یہ جوش و خروش کم ہوتا جائیگا کیونکہ فطرت ِ انسانی یہی ہے۔ 
 کسی کام میں یکسانیت پیدا ہوجائے تو لوگوں کی دلچسپی کم ہونے لگتی ہے۔ایسا نہ ہو اس لئے شعوری طور پر اِس نیت اور ارادہ کے ساتھ اس تحریک سے وابستہ ہونا چاہئے کہ اسے اپنے معمولات میں شامل کریں گے اور محض میزبانی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ روزمرہ کی زندگی میں اس حکمت اور تدبیر کو برتیں گے۔ہندو دُکاندار اپنے مسلم گاہکوں سے اور مسلم دکاندار اپنے ہندو گاہکوں سے، ہندو پڑوسی مسلم پڑوسی سے، مسلم استاذ اپنے ہندو اور دیگر غیر مسلم اساتذہ سے اس طرح پیش آئے جیسے اُس کی اپنی گرمجوشی ہی سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کی دراڑوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ہر چراغ یہ سمجھے کہ تاریکی دور کرنا اُسی کا فرض ہے، کوئی دوسرا چراغ روشن ہونے والا نہیں ہے۔ جب ہر شخص اپنا فرض محسوس کرے گا تو اتنا اُجالا ہوگا کہ تاریکی کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو، اسے ہار ماننی پڑے گی۔چونکہ تاریکی بڑھ رہی ہے اس لئے ہر ایک کو میدان عمل میں آنا پڑے گا۔
 ایسی مہم یا تحریک کو بہت پہلے شروع ہونا چاہئے تھا۔ وقت کے ساتھ دو فرقوں میں دوری اتنی بڑھ گئی ہے اور کمال ہوشیاری سے اسے اتنا بڑھایا گیا ہے کہ اگر بعض سرویز کو درست مانیں تو عقل ٹھکانے پر نہیں رہتی۔ اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) نے ’’سوسائٹی اینڈ پالیٹکس بٹوین الیکشنز‘‘ کے عنوان سے ایک سروے میں پایا تھا کہ ہندو، ہندوؤں کو دوست بناتے ہیں اور مسلم، مسلمانوں کو۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ غیر مسلم مسلمان کا دوست بن جائے اور مسلمان غیر مسلم کا رفیق و رازدار۔ یہ سروے گجرات، ہریانہ، کرناٹک اور اُدیشہ میں کرایا گیا تھا۔ سروے میں جن لوگوں سے سوالات کئے گئے، اُن سے جب دریافت کیا گیا کہ آپ کا دوست آپ کی کمیو نٹی کا ہے یا کسی دوسری کمیونٹی کا تو ۹۱؍ فیصد ہندوؤں کا کہنا تھا کہ اُن کا دوست اُن کی اپنی کمیونٹی کا ہے۔یہی سوال جب مسلمانوں سے کیا گیا تو اُن کے جواب سے علم ہواکہ ۹۵؍ فیصد مسلمانوں کے دوست مسلمان ہی ہیں ۔ 
 معلوم ہوا کہ جان کر یا انجانے میں ہندو بھی اور مسلمان بھی اپنے اپنے خول میں سمٹ گئے ہیں ۔ اس کا مشاہدہ کالجوں اور دفتروں میں بھی کیا جاسکتا ہے اور عوامی مقامات پر بھی۔مسلمان کو کسی دوسرے مسلمان کے ساتھ زیادہ آسانی اور سہولت محسوس ہوتی ہے اور غیر مسلم کو دوسرے غیر مسلم کے ساتھ۔ یہ اِس ملک کا مزاج نہیں تھا۔ اگر کسی حد تک تھا بھی تو تقسیم پسند سیاست نے اپنائیت کے ماحول میں پائی جانے والے غیریت کے اسی جذبے کو اپنے لئے سودمند جانا اور اس پر محنت شروع کی۔ آج یہ فرقے ایک دوسرے سے بیگانہ ہیں اورجانتے بھی نہیں کہ کیوں بیگانہ ہیں ۔ 
 ایسا نہیں کہ غیریت کا یہ احساس صرف بڑوں میں ہے۔ بچوں میں بھی یہ احساس پایا جاتا ہے۔ ممبئی کے ایک ادارہ نے ۹۲ء کے فسادات کے بعد مسلم طلبہ اور غیر مسلم طلبہ کو یکجا کیا تھا اور اُن سے ایک دوسرے کے بارے میں پوچھا تھا کہ وہ اُن کے بارے میں کیا جانتے ہیں ۔ یہ مضمون نگار اُس تقریب میں شریک تھا۔ ابتداء میں وہ ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے سے تھے۔ سوالات کے جوابات میں اُنہوں نے ایک دوسرے کے بارے میں وہی باتیں بتائیں جو اُنہوں نے ماحول سے سنی اور سیکھی تھیں مثلاً ہندو طلبہ نے کہا کہ مسلمان ایسے ہوتے ہیں ، مسلمان طلبہ نے بتایا کہ ہندو ایسے ہوتے ہیں ۔ ان تاثرات کو سمجھ لینے کے بعد تقریب کے منتظمین نے اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ مختلف کھیلوں میں مصروف کردیا۔ اب وہ مل جل کر کھیلنے لگے تھے۔ پھر ایک وقفہ کے دوران اُنہیں کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی گئیں ۔ تھوڑی دیر تک وہ ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے رہے۔ اس طرح کم و بیش چھ گھنٹے جاری رہنے والی مختلف النوع سرگرمیوں کے بعد جب طلبہ سے ایک دوسرے کے بارے میں پوچھاگیا تو اُن کی رائے بڑی حد تک بدل چکی تھی۔
 ملنے جلنے میں برکت ہے مگر ہم لوگ ایک دوسرے سے کٹ کر سیاست کو ایندھن فراہم کرتے ہیں ۔دونوں فرقوں کے دو بڑے تہوار عید اور دیوالی ہیں ۔ عید پر ہندو مسلمانوں کے گھروں پر مدعو کئے جاسکتے ہیں اور دیوالی پر مسلمان ہندوؤں کے گھروں پر۔ یہ گنگا جمنی تہذیب کی بہت مضبوط روایت تھی۔ جب اس روایت میں رخنہ پڑنے لگا او ریہ کمزور ہونے لگی تب کسی کو فکر نہیں ہوئی کہ اگر ان فرقوں کے درمیان خلیج حائل ہوگئی تو سماج پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔حد تو یہ ہے کہ آج بھی دونوں فرقوں کے مل بیٹھنے اور کسی نہ کسی بہانے سے انہیں ایکد وسرے کے قریب لانے کی باقاعدہ کوشش کے نام پر کچھ نہیں ہوتا جبکہ یہ دونوں فرقوں کی ضرورت ہے۔
 اس مضمون نگار کا مشاہدہ ہے کہ جب کبھی اتفاقاً ایسا کوئی موقع آجاتا ہے تو دونوں فرقوں کے لوگ شیروشکر دکھائی دیتے ہیں ۔ ایسا اسلئے ہوتا ہے کہ یہ اتحاد اور یگانگت اس ملک کے خمیر میں ہے۔ یہ فرقے اُس ندی کی طرح ہیں جس کے پانی پر لاٹھی مارنے سے پانی دو حصوں میں تقسیم نہیں ہوتا۔ وہ پھر مل جاتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK