Inquilab Logo

معاشیانہ: معیشت اور جی ڈی پی میں خواتین کا اشتراک

Updated: March 14, 2023, 11:56 AM IST | Shahebaz khan | Mumbai

معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے خواتین کو با اختیار بنانا ہوگا اور انہیں معیشت کا حصہ بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے

More or less half of the country population consists of women. Photo: INN
ملک کی کم و بیش نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ تصویر: آئی این این

دورِ حاضر میں خواتین ہر میدان میں اپنی شناخت بنارہی ہیں۔گزشتہ چند برسوں میں دنیا کی اہم کمپنیوں اور اداروں میں خاتون ملازمین کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ انہیں کلیدی عہدے بھی تفویض کئے گئے ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں ان کی تعداد اب بھی بہت کم ہے۔ دنیا کو ابھی کئی ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جہاں صنفی عدم مساوات بالکل نہ ہو۔
 گزشتہ سال ڈیلائٹ نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں اس نے دنیا کی مختلف کمپنیوں کے بورڈ روم میں خاتون ملازمین کے اعدادوشمار پیش کئے تھے۔  اس میں بتایا گیا تھا کہ ۲۰۱۰ء میں ہندوستانی کمپنیوں کے بورڈ روم میں خواتین کا فیصد ۵ء۷؍ فیصد تھا جو ۲۰۲۱ء میں۱۷ء۱؍ فیصد ہوگیا۔ اسی طرح عالمی سطح پر یہ تناسب ۲۰۱۸ء میں ۱۶ء۹؍ فیصد اور ۲۰۲۱ء میں ۱۹ء۷؍ فیصد تھا۔ ہندوستان کے پس منظر میں بتایا گیا ہے کہ ۲۰۱۸ء میں یہاں بورڈ ممبران میں خواتین کا تناسب صرف ۴ء۴؍ فیصد تھا جو ۲۰۲۱ء میں گھٹ کر ۳ء۶؍ فیصد ہوگیا۔ علاوہ ازیں، ہندوستانی کمپنیوں میں خواتین سی ای او کا تناسب ۲۰۱۸ء میں ۳ء۴؍ فیصد اور ۲۰۲۱ء میں ۴ء۷؍ فیصد تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بورڈ ممبران میں خواتین کو شامل کرنے کا رجحان سب سے زیاد ہ آسٹریلیا میں ہے۔ اس کے بعد امریکہ اور نیوزی لینڈ ہیں۔ یہ اعداد وشمار دنیا کے کارپوریٹ سیکٹر کا حال بیان کرنے کیلئے کافی ہیں۔ 
 اسی طرح ہمارے ملک میں مرد اور خواتین کی تنخواہوں میں بڑا خلاء ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ دنیا کے ۱۴۶؍ ممالک کی اس فہرست میں ہندوستان ۱۳۵؍ ویں نمبر پر ہے۔ یہاں مجموعی کمائی کا ۸۲؍ فیصد مردوں کو دیا جاتا ہے جبکہ ۱۸؍ فیصد خواتین کو۔ کارپوریٹ سیکٹر میں اگر مرد ایگزیکٹیو کی تنخواہ ۱۰۰؍ روپے ہے تو خاتون ایگزیکٹیو کی زیادہ سے زیادہ ۸۵؍ روپے۔ اس ضمن میں کی گئی آئی آئی ایم احمد آباد کی ایک رپورٹ  (جو ملک کی چنندہ کمپنیوں پر کی گئی تھی) میں انکشاف ہوا کہ گزشتہ مالی سال میں مرد ایگزیکٹیوز پر مجموعی طور پر ۲ء۲۴؍ کروڑ روپے خرچ کئے گئے جبکہ انہی عہدوں پر فائز خاتون ایگزیکٹیوز پر ۱ء۹۱؍ کروڑ روپے ۔ کمپنیوں کے سینئر عہدوں پر صرف ۷؍ فیصد خواتین ہیں جبکہ مینجمنٹ کے کلیدی عہدوں پر خواتین کا تناسب صرف ۵؍ فیصد ہے۔ ۲۰۰؍کمپنیوں میں سے ۲۱؍ کمپنیوں کے مینجمنٹ میں صرف ایک خاتون ہے جبکہ ۷۶؍ کمپنیاں ایسی ہیں جن میں کلیدی عہدوں پر ایک بھی خاتون نہیں ہے۔ 
 خیال رہے کہ دنیا کی مجموعی آبادی کا ۴۹ء۷۲؍ فیصد جبکہ ہندوستان کی مجموعی آبادی کا ۴۸ء۳۹؍ فیصد خواتین ہیں۔ ہندوستان میں لوگوں کی اکثریت صنفی مساوات پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے، خواتین کو یکساں حقوق دینے اور ان کیلئے آواز بلند کرنے کے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن اعدادوشمار کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں جاری ہونے والی مختلف تحقیقات کے نتائج ملاحظہ فرمائیں : (۱) مرد اور خواتین پر کی جانے والی ایک تحقیق میں اکثریت کا خیال ہے کہ جب ملازمتیں کم ہوں تو ملازمت کیلئے مردوں کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ (۲) ملازمت کے مواقع کی کمی کی وجہ سے ہندوستان میں ۱۵؍ تا ۲۹؍ سال کی ۴۵؍ فیصد خواتین کوئی کام نہیں کرتیں اور نہ ہی تعلیم حاصل کرتیں جبکہ ایسے مردوں کی تعداد صرف ۶ء۵؍ فیصد ہے۔(۳) ہندوستان میں آج بھی بعض کمپنیاں صنفی اور ذات پات کی بنیاد پر ملازمت دیتی ہیں، لیکن ایسی کمپنیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ (۴) ہندوستان میں صرف ۱۵؍ فیصدمسلم خواتین باضابطہ طور پر ملازمت کرتی ہیں۔ ہندو خواتین میں یہ تعداد ۲۷؍ فیصد، بدھ مت میں ۳۳؍ فیصد اور عیسائی خواتین میں ۳۱؍ فیصد ہے۔(۵) ملک کے تمام شعبوں میں خواتین کی نمائندگی کم ہے، مثلاً تیل اور گیس کے شعبے میں ۷؍ فیصد، آٹوموبائل میں ۱۰؍ فیصد، دواسازی اور صحت میں ۱۱؍ فیصد اور آئی ٹی میں ۲۸؍ فیصد۔
 ان اعدادوشمار کے پیش نظر اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایک صحت مند معاشرے کے طور پر کامیاب ہیں؟ اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ہمیں خواتین کو با اختیار بنانا ہوگا اور انہیں معیشت کا حصہ بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ ملک کی کم و بیش نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے جبکہ صرف ۱۸؍ فیصد ہی جی ڈی پی میں اشتراک کرتی ہے۔ اگر ان کا اشتراک بڑھ کر دگنا یعنی ۳۶؍ فیصد ہوجائے تو ہماری معیشت کے مستحکم ہونے کے قوی امکان ہیں۔ میکینزی گلوبل کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ اگر ہندوستان میں خواتین کو مردوں کے مقابلے تنخواہیں ملیں اور افرادی قوت میں دونوں کی تعداد یکساں ہو تو ۲۰۲۵ء تک ہماری معیشت کو ۷۷۰؍ ارب ڈالر کا فائدہ ہوگا لیکن ہم اس ہندسے کو اسی وقت عبور کرسکیں گے جب ہم زبانی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر خواتین کو اپنی جی ڈی پی اور معیشت کا حصہ بنائیں گے۔ 
 اہم بات یہ ہے کہ شہری خواتین ہوں یا دیہی، دونوں ہی آج اپنی اہمیت منوارہی ہیں۔ملازمت کا میدان ہو یا کاروبار، دونوں میں ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ملک میں خواتین کو متعدد حقوق حاصل ہیں اور انہیں ریزرویشن بھی دیئے گئے ہیں۔ لیکن خواتین کی ایک بڑی تعداد ان سے واقف نہیں ہے۔ آج ہندوستان دنیا میں اسٹارٹ اپس کے لحاظ سے تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ تاہم، ان میں سے صرف ۱۰؍ فیصد کی بانی، خواتین ہیں۔ کووڈ۱۹؍ کے بعد سے مجموعی افرادی قوت میں خواتین کی تعداد کم ہوئی ہے۔ خواتین انٹرپرینیورشپ کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے آپ کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں۔ صنفی مساوات کے ساتھ خواتین کو بااختیار بنانا وقت کا تقاضا ہے۔ یہ ایک پرامن، ترقی پسند اور پائیدار دنیا کی جانب ہمارے سفر میں کافی اہم ثابت ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK