اگر انسان وقت کی نزاکت کو سمجھ کر بروقت محنت کرے تو وہ ناکامی کے اندھیروں سے بچ سکتا ہے، کیونکہ وقت پر کی گئی کوشش نہ صرف نتیجہ خیز ہوتی ہے بلکہ ضمیر کو بھی مطمئن رکھتی ہے۔
EPAPER
Updated: May 16, 2025, 2:41 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
اگر انسان وقت کی نزاکت کو سمجھ کر بروقت محنت کرے تو وہ ناکامی کے اندھیروں سے بچ سکتا ہے، کیونکہ وقت پر کی گئی کوشش نہ صرف نتیجہ خیز ہوتی ہے بلکہ ضمیر کو بھی مطمئن رکھتی ہے۔
اگر انسان وقت کی نزاکت کو سمجھ کر بروقت محنت کرے تو وہ ناکامی کے اندھیروں سے بچ سکتا ہے، کیونکہ وقت پر کی گئی کوشش نہ صرف نتیجہ خیز ہوتی ہے بلکہ ضمیر کو بھی مطمئن رکھتی ہے۔ بعد میں کی جانے والی پشیمانی اور افسوس، انسان کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں، جو نہ وقت کو واپس لا سکتے ہیں اور نہ ہی مواقع کو۔ فلسفہ ٔ حیات ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ ’’وقت وہ خزانہ ہے جو اگر ضائع ہو جائے تو پھر ہاتھ نہیں آتا۔ ‘‘ یہی بات اسلامی تعلیمات میں بھی ملتی ہے، جہاں وقت کی گواہی خود سورۃ العصر میں دی گئی ہے اور محنت کو ایمان و عمل صالح کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ پس کامیاب وہی ہے جو وقت کے ساتھ چلنا سیکھ لے اور محنت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لے۔
وقت پر محنت کی ضرورت پر زور دینے کا مقصد صرف نظریاتی گفتگو نہیں، بلکہ ایک نہایت اہم اور عملی مسئلے کی طرف توجہ دلانا ہے، اور وہ یہ کہ ہمارے طلبہ عموماً وقت پر امتحانات کی تیاری نہیں کرتے، سستی، غفلت اور عارضی مشاغل میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں جس کا انجام اکثر ناکامی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ ناکامی صرف ان کی ذاتی زندگی کو متاثر نہیں کرتی بلکہ ان کے والدین اور رشتے دار، جو ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے خواب آنکھوں میں سجاتے ہیں، وہ بھی شدید ذہنی اذیت اور افسوس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انسانی زندگی کا فلسفہ یہ کہتا ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، اور وقت کا ضیاع درحقیقت ایک ایسا عمل ہے جس کا ردعمل صرف خالی نمبر نہیں بلکہ جذباتی اور معاشرتی نقصان کی شکل میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس لئے وقت پر محنت کرنا نہ صرف ایک عقلی ضرورت ہے بلکہ اخلاقی اور دینی فریضہ بھی۔
طلبہ کو سنجیدگی سے قرآن و حدیث سے وقت سے پہلے تیاری کے بہترین نتائج کو سمجھ کر اسی پر عمل پیرا بھی ہونا چاہئے کیونکہ قرآن و حدیث میں وقت پر محنت کی اہمیت کو نہ صرف نظری سطح پر بیان کیا گیا ہے بلکہ اس کی کئی روشن عملی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔ ایک نمایاں مثال قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے کہ جب وہ مصر کے خزانے کے نگراں بنے تو قحط کے آنے سے کئی سال قبل ہی انہوں نے منصوبہ بندی، محنت اور نظم و ضبط کے ذریعے اناج ذخیرہ کرنا شروع کیا۔ قرآن کریم میں سورہ یوسف میں ان کی تدبیر کا تفصیلی ذکر ہے، جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ صحیح وقت پر کی گئی محنت نہ صرف ذاتی نجات کا ذریعہ بنتی ہے بلکہ پوری قوم کی بھلائی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:تعطیلات میں بچوں کی خصوصی تربیت پر توجہ دیں
یہ ایک نہایت اہم اور منطقی سوال ہے کہ جب طلبہ کو والدین، اساتذہ اور دیگر بڑوں کی جانب سے بار بار نصیحت کی جاتی ہے کہ وقت کی قدر کریں اور بروقت محنت کریں، تو پھر بھی وہ اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ اس سوال کا جواب محض جذباتی نہیں بلکہ نفسیاتی، تعلیمی اور معاشرتی پہلوؤں سے جڑا ہوا ہے:
پہلی وجہ: وقتی سوچ اور دور اندیشی کی کمی۔ زیادہ تر طلبہ مستقبل کے نتائج کے بجائے حال کی آسائشوں اور تفریح کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے اندر دور اندیشی کا شعور کمزور ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ محنت کے طویل المدتی فائدے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
دوسری وجہ: خود اعتمادی کی کمی یا ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی۔ بعض طلبہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ امتحان سے چند دن پہلے بھی سب کچھ یاد کر لیں گے۔ یہ غیر حقیقی خود اعتمادی کی علامت ہے۔ کچھ طلبہ اپنی صلاحیتوں پر ہی اعتماد نہیں رکھتے اور اسی مایوسی میں کوشش چھوڑ دیتے ہیں۔
تیسری وجہ: ماحول اور سوشل میڈیا کا منفی اثر۔ موجودہ دور میں طلبہ کا زیادہ وقت غیر ضروری تفریح، موبائل، ویڈیو گیمز یا سوشل میڈیا میں گزرتا ہے، جس سے ان کی توجہ بٹ جاتی ہے اور محنت کرنے کا جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے۔
چوتھی وجہ: تربیت کا فقدان۔ اکثر اوقات گھروں اور اداروں میں محض نصیحت کی جاتی ہے، لیکن عملی تربیت، وقت کی منصوبہ بندی، مطالعے کی تکنیک اور حوصلہ افزائی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے طلبہ نصیحت کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
پانچویں وجہ: فوری نتائج کی توقع۔ طلبہ آج کے دور میں ہر چیز کا فوری نتیجہ چاہتے ہیں، اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ محنت کا نتیجہ فوراً نہیں ملتا تو وہ دل برداشتہ ہو کر کوشش چھوڑ دیتے ہیں۔
طلبہ کی سستی اور وقت پر محنت نہ کرنے کی جن اہم وجوہات کا ذکر ہوا، ان کا اسلامی اور عقلی دونوں لحاظ سے واضح اور مؤثر حل موجود ہے۔ درج ذیل نکات ان مسائل کا مربوط اور مدلل حل پیش کرتے ہیں :
(۱) وقتی سوچ اور دوراندیشی کی کمی… حل: تربیت ِ آخرت کی فکر اور مستقبل بینی کی تعلیم۔ اسلام انسان کو صرف دنیا کا نہیں، آخرت کا بھی مسافر قرار دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:’’ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل (آخرت) کیلئے کیا بھیجا ہے۔ ‘‘ (سورۃ الحشر: ۱۸) یہ آیت مستقبل بینی (فیوچر پلاننگ) کی اسلامی بنیاد ہے۔ عقلی طور پر بھی کامیاب انسان وہی ہوتا ہے جو آج کی محنت سے کل کی بہتری کا سامان کرے۔ طلبہ کو تعلیم دی جائے کہ ہر لمحہ ان کے ’’کل‘‘ کی تعمیر کر رہا ہے، چاہے وہ دنیا ہو یا آخرت۔
(۲)خوداعتمادی کی کمی یا غیر حقیقی خوداعتمادی … حل: نفس کا تزکیہ اور توازن پیدا کرنا۔ اسلام خوداعتمادی کو پسند کرتا ہے، مگر غرور اور مایوسی دونوں سے روکتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’کمزور نہ پڑو، غم نہ کرو، اگر تم مؤمن ہو تو تم ہی غالب ہو گے۔ ‘‘ (سورۃ آل عمران:۱۳۹) یہ آیت طلبہ کو امید، کوشش اور ایمان کے ساتھ متوازن خوداعتمادی کا درس دیتی ہے۔ عقلی طور پر بھی متوازن خوداعتمادی ہی حقیقی کارکردگی کو ابھارتی ہے۔
(۳) ماحول اور سوشل میڈیا کا منفی اثر… حل: صالح صحبت اور وقت کا نظم۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس ہر شخص دیکھے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ ‘‘ (ابن ماجہ)یہ حدیث بتاتی ہے کہ ماحول اور دوستی انسان کی راہ متعین کرتے ہیں۔ طلبہ کو صالح صحبت، مطالعہ کا ماحول اور سوشل میڈیا کے محدود اور مفید استعمال کا شعور دینا ضروری ہے۔ عقلی اعتبار سے بھی انسان وہی بنتا ہے جیسا ماحول اسے گھیرے ہوتا ہے۔
(۴) تربیت کا فقدان … حل: عملی رہنمائی اور رول ماڈلز۔ اسلامی تربیت صرف زبانی نصیحت نہیں، بلکہ عملی رہنمائی اور سیرت سے سیکھنے کا نام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو صرف نصیحت نہیں کی، بلکہ اپنے عمل سے سکھایا۔ طلبہ کو بھی ایسی شخصیات سے روشناس کرایا جائے جو وقت کی پابندی اور محنت کی عملی مثال ہوں۔ عقلی طور پر بھی مشاہدہ اور عملی مشق نصیحت سے کہیں زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔
(۵) فوری نتائج کی توقع …حل: صبر اور تدریج کا شعور۔ قرآن بار بار صبر کا درس دیتا ہے، اور عمل کے تدریجی اثرات کو اہمیت دیتا ہے:’’صبر کرو، اور تمہارا صبر صرف اللہ کیلئے ہونا چاہئے۔ ‘‘ (سورۃ النحل:۱۲۷)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بھی یہی تھا کہ ہر کام کو تدریج سے سکھایا اور اس کے نتائج کا انتظار کیا۔ طلبہ کو یہ سکھانا کہ ’’کامیابی ایک دن میں نہیں، مگر ایک دن ضرور ملتی ہے۔‘‘ ایک اسلامی اور عقلی سبق ہے۔
اگر طلبہ کی تربیت مذکورہ نکات کی بنیاد پرقرآن و سنت کی روشنی میں کی جائے، ان کے ماحول کو مثبت بنایا جائے، ان کی نفسیات کو سمجھا جائے اور ان پر اعتماد کے ساتھ رہنمائی کی جائے تو وہ وقت پر محنت کرنے والے سنجیدہ، باوقار اور کامیاب انسان بن سکتے ہیں۔