Inquilab Logo

دل کو چھوٗ لینے والا ایک عمدہ افسانہ

Updated: January 11, 2023, 10:45 AM IST | Hardoi

موسم سرما کے شروعاتی دن تھے۔ ٹھنڈ اس بار اپنےعروج پر تھی۔ شام ہی سے برفیلی ہوائیں چلنے لگتی اور کبھی کبھی بوندا باندی بھی ہو جاتی۔ چار سے پانچ گھنٹے کے دن اور لمبی لمبی خوشگوار راتیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

موسم سرما کے شروعاتی دن تھے۔ ٹھنڈ اس بار اپنےعروج پر تھی۔ شام ہی سے برفیلی ہوائیں چلنے لگتی اور کبھی کبھی  بوندا باندی بھی ہو جاتی۔ چار سے پانچ گھنٹے کے دن اور لمبی لمبی خوشگوار راتیں۔ سردیوں میں دیر رات تک عینی کو پڑھنا میرا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ لیکن اس بار تو لگتا تھا کہ میری ساری سردیاں ایک ہی کمرے میں گزر جائیں گی۔ آخری سمسٹر کے امتحان نزدیک تھے اور میں رات دن اس کی تیاری میں لگی ہوئی تھی۔
 اس روز بہت دنوں کے بعد سورج نکلا تھا۔ میں اپنی کتابیں لے کر باہر آنگن میں جاکر بیٹھ گئی جہاں امی اور پھوپھو پہلے سے موجود تھیں۔ میں دیکھ رہی تھی کہ جب سے نگار پھوپھو آئی تھی امی کا وقت اچھے سے گزر رہا تھا۔ اس بار نگار پھوپھو کئی برسوں کے بعد ہمارے یہاں آئی تھی۔ ویسے تو نگار پھوپھو میرے بڑے دادا جان کی بیٹی تھیں جو اب شہر میں رہتے تھے۔ لیکن انہیں آج بھی اس گھر سے بے حد لگاؤ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسی گھر میں پیدا ہوئیں، اسی آنگن میں کھیل کود کر بڑی ہوئیں اور پھر یہیں سے ان کی ڈولی بھی اٹھی۔ بیچاری نگار پھوپھو، ان کی شادی بہت کم عمر میں کر دی گئی تھی۔
 اس زمانے میں تعلیم نسواں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ بیٹیاں پڑھ لکھ کر کچھ بنے اس کے بجائے ماں باپ کو اس بات کی فکر زیادہ ہوتی تھی کہ جتنی جلدی ہوسکے بیٹیاں اپنے گھر کی ہو جائیں۔ ان کو خدشہ ہوتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی بیٹیاں بے راہ روی کا شکار ہو جائیں۔ اسی سوچ کے چلتے پھوپھو کو بھی تعلیم سے کوسوں دور رکھا گیا۔ محض ۱۴؍ برس کی عمر میں ان کی شادی کر دی گئی تھی۔ پھوپھو کو اس بات کا افسوس ہمیشہ رہتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ’’کاش میرے والدین مجھے تعلیم سے محروم نہ رکھتے۔ مَیں بھی پڑھ کر با شعور بن جاتی، مَیں بھی اپنے حق کیلئے لڑ سکتی یا کم از کم اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کیخلاف آواز ہی بلند کرسکتی۔‘‘
  میرا دھیان کتابوں سے ہٹ کر ماضی میں کھو گیا تھا۔ مَیں سوچ رہی تھی کہ اگر پھوپھو کو تعلیم سے روکا گیا تو انہوں نے احتجاج کیوں نہیں کیا اور یہ بھی کہ وہ اتنی جلد شادی پر راضی کیوں ہو گئیں، وہ اس بات کا اختلاف بھی تو کر سکتی تھیں۔ کیا ان میں اتنی جرأت نہیں تھی جتنی جرأت میں نے عینی کے کرداروں میں دیکھی تھی۔ ذہن میں بہت سے سوال آ رہے تھے اور مَیں ان میں مزید الجھتی جا رہی تھی، تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔ 
 ’’نگار آپا ذرا دیکھئے تو کون ہے....‘‘
 امی کے کہنے پر پھوپھو نے دروازہ کھولا اور دروازے کی پشت سے پوچھا ’’ کون؟‘‘
 آنے والے نے اپنا نام عثمان بتایا تھا۔ نام سنا سنا سا لگا تھا مجھے لیکن یاد نہیں آ رہا تھا کہ کہاں اور کس کے منہ سے سنا تھا؟
 ’’کس سے ملنا ہے آپ کو....؟‘‘ پھوپھو نے اگلا سوال کیا۔
 ’’نگار گھر میں ہیں کیا؟ انہیں سے ملنا ہے۔ ان سے کہئے عثمان ہے، وہ سمجھ جائیں گی۔‘‘
 ’’مجھ سے ملنا ہے....‘‘ پھوپھو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
 اور پھر کچھ یاد آتے ہی ہم تینوں ہی یک دم سے چونک پڑے اور ہمارے منہ سے ایک ساتھ نکلا.... ’’عثمان....!‘‘
 پھوپھو نے دروازہ پورا کھولا اورانہیں اندر بلاکر بیٹھک میں لے گئیں۔
 مجھے شدید حیرت ہو رہی تھی کہ آخر پھوپھو انہیں بھول کیسے سکتی ہیں اور اس پر بھی کہ ان کو پتہ کیسے چل گیا کہ پھوپھو آئی ہوئی ہیں۔
 میں نے کتابیں وہیں چھوڑیں اور فوراً بیٹھک کے دروازے کے پاس جاکر کھڑی ہو گئی۔ میں دیکھنا چاہ رہی تھی کہ آخر وہ شخص کون ہے جس کی خاطر پھوپھو نے اپنی زندگی کے سات بے حد قیمتی سال قربان کر دیئے! مگر یہ کیا وہاں تو کوئی بے حد شریف بزرگ تشریف فرما تھے۔ کرتا پاجامہ میں ملبوس، سفید بال کے علاوہ چہرے پر سفید داڑھی بھی سجی ہوئی تھی۔ دل ہی دل میں سوچا کہ یہ وہ شخص تو ہرگز نہیں ہو سکتا جس کا ذکر پھوپھو نے پچھلی رات مجھ سے کیا تھا۔ لیکن پھر فوراً ہی خیال آیا کہ اُس بات کو عرصہ گزر چکا ہے اور جب اتنے برسوں میں پھوپھو بدل گئی ہیں تو عین ممکن ہے کہ وقت کے ساتھ وہ بھی بدل گئے ہوں گے۔ اس کے باوجود مجھے بہت غصہ آ رہا تھا اس شخص پر اور جہاں تک میرا خیال تھا پھوپھو کو بھی غصہ آنا چاہئے تھا لیکن ان کا چہرا تو بالکل سپاٹ تھا۔ وہاں کوئی بھی تاثر نہیں تھا۔ 
  پھوپھو جب چائے لے کر بیٹھک میں چلی گئیں تو میں نے بھی اپنی کرسی آنگن سے اُٹھاکر وہیں بیٹھک کے دروازے کے قریب ہی ڈال لی میں اب اس انتظار میں تھی کہ دونوں میں سے کوئی بولنا شروع کرے۔
 ’’بری بات ہے بیٹا اس طرح سے چھپ کر کسی کی باتیں نہیں سنتے۔‘‘ امی پیچھے سے مجھے بچوں کی طرح سمجھا رہی تھی۔ ظاہر ہے میری وہ حرکت اخلاقیات کے خلاف تھی لیکن میں بھی اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھے ان کی سات سالہ ناکام ازدواجی زندگی کو سن کر بہت لطف آنے والا تھا۔ مجھے تو بس ان سوالوں کے جواب چاہئے تھے جو کل رات سے مجھے پریشان کئے ہوئے تھے۔
 کافی دیر ہو گئی تھی لیکن دونوں اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھے تھے۔ شاید کچھ بولنے کے لئے الفاظ تلاش کر رہے تھے اور پھر ایک رسمی سے سوال سے گفتگو کا آغاز کیا گیا۔ 
 ’’کیسی ہو نگار.....؟‘‘
 ’’اللہ کا شکر ہے مَیں ٹھیک ہوں، تم بتاؤ.... تم کیسے ہو....؟‘‘
 ’’مَیں بھی ٹھیک ہی ہوں.... جو کچھ تمہارے ساتھ کیا تھا اس کی سزا تو مجھے بہت پہلے ہی مل چکی ہے لیکن ایک بار تم سے مل کر معافی مانگنا چاہتا تھا.... ہمت تو نہیں تھی تمہارا سامنا کرنے کی مگر کل جب مجھے علم ہوا کہ تم آئی ہوئی ہو تو میں خود کو روک نہیں سکا..... نگار میں بہت شرمندہ ہوں اپنے کئے پر۔ مَیں نے کبھی تمہارے بارے میں سوچا ہی نہیں، وہ درجہ جو ایک بیوی کی حیثیت سے تمہیں دینا چاہئے تھا وہ مَیں نے کبھی نہیں دیا.... سچ کہوں تو مَیں نے تمہارے حقوق ادا ہی نہیں کئے۔‘‘ چہرے پر ندامت کا احساس اور پلکیں شرم سے جھکی ہوئیں.... ان کے اندر کی پشیمانی ان کے  لہجے سے ظاہر ہو رہی تھی۔ پہلے تو پھوپھو سب کچھ سنتی رہیں اس کے بعد بولنا شروع کیا اور اتنے برس سے جو غبار دل میں بھرا ہوا تھا اسے باہر نکال ڈالا۔
 ’’اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں عثمان! ایک ۱۴؍ سال کی لڑکی جو تعلیم سے بالکل نا آشنا ہو۔ جسے یہ بھی نہ بتایا گیا ہو کہ خدا کی ذات کیا ہوتی ہے، اس کو اپنے حقوق کا علم کیسے ہوسکتا ہے.... لڑکی جو تھی اس لئے بچپن سے بس ایک ہی سبق پڑھایا گیا کہ لڑکیوں کیلئے خدا اس کا شوہر ہوتا ہے.... کچھ بھی ہو جائے اپنے مجازی خدا کو ناراض نہیں کرنا ہے۔ شوہر اور سسرال والوں کی خدمت اس کی نظر میں عبادت ہوتی ہے۔ یہی سب کچھ تو بتایا گیا تھا مجھے سو میں بغیر سوچے سمجھے اس پر عمل کرتی رہی.... ظلم سہے،  طعنے سنے، مار بھی کھائی لیکن مجال ہے جو اُف بھی کیا ہو کیونکہ تمہیں تو حق حاصل تھا ایسا کرنے کا، سو میں چپ چاپ سب کچھ برداشت کرتی رہی اور کبھی اگر غلطی سے منہ کھولنے کا سوچتی بھی تو دروازے سے رخصت کرتے وقت باپ کے کہے ہوئے وہ جملے یاد آ جاتے تھے کہ... ’’بیٹا اب ہماری عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔ کچھ بھی ہو جائے واپسی کی راہ مت لینا۔ عزت دار گھرانوں کی بیٹیوں کی جہاں ڈولی اترتی ہے وہیں سے ان کا جنازہ بھی اٹھتا ہے۔ ‘‘ سارا دن چولہے کے سامنے گزر جاتا تھا۔ اکیلے ہی پورے گھر کا کھانا بناتی تھی لیکن اتنی جرأت نہیں تھی کہ اس کھانے کو ہاتھ بھی لگا لیتی۔ کبھی کبھی بہت بھوک لگتی تھی لیکن تمہاری امی جو ایک روٹی دیتی تھی اس کے علاوہ دوسری روٹی کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہیں تھی مجھے اور اگر کبھی غلطی سے کوئی نقصان ہو جاتا تو وہ بھی میسر نہ ہوتی۔ صرف ۱۴؍ سال ہی کی تو تھی مَیں عثمان! جب تمہارے گھر گئی تھی، اکثر کچھ نقصان ہو جاتا تھا۔ اس پر تم سب مل کر بے رحمی سے پیٹتے تھے مجھے۔ یاد ہے وہ دن جب مجھ سے غلطی سےچائے کی کیتلی ٹوٹ گئی تھی۔  بدقسمتی سے اس وقت تمہاری امی کے ہاتھ میں قینچی تھی۔ اور انہوں نے وہی پھینک کر مار دی تھی۔ میرے سر سے بے تحاشا خون بہنے لگا تھا اور میں بے ہوش ہوگئی تھی۔ لیکن عثمان تم تو ہوش میں تھے.... تم نے کیوں نہیں کچھ کہا تھا انہیں....؟ تم خاموش کھڑے تماشا کیوں دیکھ رہے تھے....؟ تم تو میرے مجازی خدا تھے نا.... تم نے میرا ساتھ کیوں نہیں دیا تھا، تم  نے یہ کیوں نہیں کہا تھا کہ ’’ایک معمولی سا برتن ٹوٹ جانے پر کسی کو اتنی بے رحمی سے مارا نہیں جاتا۔‘‘ تم یہ سب کچھ کہہ سکتے تھے لیکن تم نے کچھ بھی نہیں کہا تھا، تم اس وقت بھی تماشائیوں کی طرح خاموش کھڑے تھے عثمان! بلکہ تم نے تو پہلے دن ہی سے مجھ سے کبھی بات نہیں کی تھی۔ حسرت ہی رہ گئی تھی کہ کبھی دو گھڑی پاس بیٹھ جاؤں لیکن تم نے کبھی آنکھ اُٹھا کر دیکھا تک نہیں تھا.... ہاں تمہارے باپ اور بھائیوں کی چبھتی نگاہوں کا سامنا میں روز کرتی تھی۔ تمہیں پتہ ہے عثمان ایک عورت سب کچھ برداشت کر سکتی ہے لیکن اپنی عزت پہ آنچ آئے تو اس کے اندر شعلے بھڑکنے لگتے ہیں لیکن میں نے یہاں بھی برداشت کیا۔ مجبور تھی۔ کس سے کہتی اپنے دل کا حال؟

Story women Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK