بیٹیوں کو کم عمر ہی سے یہ سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایک دن انہیں سسرال جانا ہے۔ اسلئے سارے ہنر سیکھ لینے چاہئیں۔ رشتے بھی نبھانے ہوں گے، یہ بھی بتا دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ کیا یکطرفہ رشتہ نبھایا جاسکتا ہے؟ مضمون نگار نے اسی پر روشنی ڈالی ہے۔
ہمارے گھروں میں بہوؤں سے بہت زیادہ توقعات کی جاتی ہیں۔ توقع وابستہ کرنا بُرا نہیں مگر اس میں اعتدال ہونا چاہئے۔ تصویر: آئی این این
ہم لڑکیوں کو بچپن سے ہی سسرال نامی وبا سے ڈرایا جاتا ہے۔ ہماری تعلیم و تربیت، پہننا اوڑھنا، اٹھنا بیٹھنا سب اسی اعتبار سے ہوتا ہے کہ اگلے گھر جا کر شرمندگی نہ ہو۔ فلاں کام تمہیں نہیں آتے اگلے گھر جا کر ہماری ناک کٹواؤ گی۔ یہ کہنے والی ہماری ماں ہی ہوتی ہے۔ ذرا سی بیماری میں بستر پکڑ لیتی ہو، اگلے گھر میں کوئی برداشت نہیں کرے گا۔ ایسے نہ جانے کتنے ہی فقرے ہمارے کانوں میں روزانہ سنائی دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اگر سسرال میں یہ سننے کو ملے کہ تمہیں آتا ہی کیا ہے یا تمہاری ماں نے تو تمہیں کچھ سکھایا ہی نہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے میکے کی زندگی بیکار ہی گزری۔ پھر وہاں نہ تو ماں کی تربیت کام آتی ہے نہ اپنی عقل۔ ہم نے بہوؤں کو تو بہت سی نصیحتیں کی ہیں کہ ساس سسر کو ماں باپ سمجھنا ان کی خدمت کو اپنا فرض جاننا وغیرہ۔ لیکن کیا کبھی کسی نے سسرالیوں کو یہ نصیحت کی ہے کہ اپنی بہو سے انسانیت سے پیش آنا، نرمی والا برتاؤ کرنا؟ کیا کبھی کسی نے نند اور دیوروں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بھابھی کو بھی انسان سمجھو؟ یہ شاید ہی کہیں ہوتا ہوگا۔ اور جب ساری امیدیں دوسروں سے باندھ لی جائیں تو اختلافات یہیں سے جنم لیتے ہیں۔ جہاں سسرال والوں کو یہ امید ہوتی ہے کہ آنے والی بہو آتے ہی ساری ذمہ داری اٹھا لے سب کی خدمتوں میں جٹ جائے؟ نہ جانے کیا کیا اور تو اور کئی لوگ تو یہ بھی امید کرتے ہیں کہ بہو ساس سسر کو ماں باپ سمجھ کر سگے ماں باپ کو یکسر فراموش کر دے۔ جو کہ نہایت ہی احمقانہ اور جاہلانہ سوچ ہے۔
اکثر گھروں میں جب بھی لڑکی کو میکے جانے کی خواہش ہوتی ہے تو پہلے وہ اپنی ماں سے ساس کو فون کرواتی ہے پھر وہاں حکم آتا ہے کہ گھر پر سب سے مشورہ کرکے جواب دیں گے پھر نہ جانے کب تک مشورے ہوتے رہتے ہیں جیسے میکے نہ جانا ہو سرحد پر لڑائی کرنے جانا ہے۔ ایک عام سی چیز کو ہم اتنا بڑا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ صرف اور صرف اپنی انا کی خاطر اور شوہر حضرات ان سارے معاملات میں ایک خاموش تماشائی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔ اور اگر بہو کچھ باتوں سے اختلاف کر دے تو ہماری وہی گھسی پٹی بات کہ تمہاری بھی اولاد ہوگی تم بھی ساس بنو گی یہ سلوک تمہارے بھی آگے آئے گا وغیرہ۔ اب ان لوگوں سے میرا یہ سوال ہے کہ جو لڑکی ابھی بہو بن کے آئی ہے اسے ساس بننے میں بہت وقت ہے لیکن یہ رشتہ آپ بہت پہلے نبھا چکی ہیں تب ہی ساس بنی ہیں۔ جب آپ بہو کا رشتہ گزار کر اس کے جذبات نہیں سمجھ سکتیں تو اس سے یہ امید کیسے کرسکتی ہیں کہ وہ موجودہ وقت سے کئی سال آگے جا کر آپ کی بات کو سمجھ سکے۔ یہ ایک بہت بڑا نکتہ ہے جسے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے بعد دوسری سب سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ ہمارا چاہے جو بھی سلوک ہو بہو ہماری خدمت کرتی رہے گی۔ جسے ہم بڑے ہی نفاست سے بہوؤں کا اخلاقی فریضہ قرار دیتے ہیں۔ چاہے بدلے میں ہم اسے کوستے ہی رہیں۔
ہمیں ایک بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے وہ یہ کہ عورت پر شوہرکے گھر والوں کی خدمت کرنا واجب نہیں لیکن ہمارے یہاں یہ دستور چل پڑا ہے کہ جب بیٹے کی شادی ہوتی ہے تو ماں باپ سمجھتے ہیں کہ بہو پر بیٹے کا حق بعد میں اور ہمارا حق پہلے ہے۔ ہمیں اس بات کو قطعی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ماں باپ کی خدمت کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے۔ بہو کی نہیں۔ اگر آپ کی بہو آپ کی خدمت کر رہی ہے تو اس کا احسان مانیں بجائے اس کے کہ اس کے کاموں میں عیب نکالیں یا ذرا ذرا سی بات پہ اسے ذلیل کریں۔ والدین کے لئے یہ بالکل بھی جائز نہیں کہ وہ اپنی بہو کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ ہماری خدمت کریں لیکن اگر بہو خوشدلی سے اپنی سعادت سمجھ کر یا شوہر کی محبت میں سسرال والوں کی خدمت کر دیتی ہے تو اس کے اپنے اجر میں اضافہ ہوگا۔ اور بہو کو ایسا کرنا بھی چاہئے کہ گھر کی فضا خوشگوار ہو۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ دوسری جانب ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہماری خدمت اس کا فرض نہیں بلکہ اس کا احسان ہے اور احسان کا بدلہ احسان سے دیا جانا چاہئے۔ بجائے اس کے کہ وہ کام بھی اس کے ذمہ لگا دیں جو اسے کرنے نہیں آتے یا وہ کرنا نہیں چاہتی۔ سسرالی رشتے کوئی خون کے رشتے نہیں ہوتے جو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ یہ جس طرح دو بول سے بنتے ہیں اسی طرح دو بول سے ختم بھی ہوجاتے ہیں۔ اور اسے باہمی تعاون سے ہی نبھایا جاسکتا ہے۔ اگر ہم ایکدوسرے پر اس کے برداشت سے زیادہ بوجھ ڈالیں گے تو یا تو رشتے ٹوٹ جائینگے یا پھر ہم سے ہمارے پیارے چھوٹ جائینگے۔