Inquilab Logo Happiest Places to Work

کئی ناکامیوں کے بعد بالآخر اس شخص نے سرکاری ملازمت حاصل کرلی

Updated: October 04, 2023, 12:10 PM IST | Agency | Mumbai

راجستھان کے رہنے والے بھنورلال نے اپنے تعلیمی و مقابلہ جاتی امتحانات کےسفرمیں ۲۴؍سال میں ۱۶؍ بار ناکامیوں کا سامنا کیا، ہر بار کچھ نمبرات سے ان کا انتخاب رہ جاتا، اس کے باوجود بھنور لال نے امیدو کوشش کا دامن نہیں چھوڑا، اپنی دُھن کے پکے بھنور لال کو بالآخر سرکاری ٹیچرکی ملازمت مل گئی۔

Bhanurlal Mandh. Photo. INN
بھنور لال منڈھ۔ تصویر:آئی این این

ہدف کو پانے کی دھن ہواور جہد مسلسل ہو تو پھر پے درپے ناکامیاں بھی  انسان کے حوصلے پست نہیں کرتیں۔ راجستھان کے رہنے والے بھنور لال نامی شخص اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔۱۹۹۹ء میں بارہویں  کامیاب کرنے کے بعد معاشی پریشانیوں کے سبب  انہیں کچھ سال تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا لیکن بھنور لال نے ہمت نہیں ہاری۔ کچھ سال کے بعدانہوں نے ایڈمیشن لیا اور کام کرتے ہوئے اپنا کورس مکمل کیا۔ اس کے بعد  لگاتار سرکاری نوکری کے لئے کوششیں کیں، لیکن ہر بار انہیں ناکامی ہی ہاتھ لگی۔ 
’لوک مت ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق باڑمیر کے سنا واڑا کے  رہنے والے بھنور لال کے تعلیمی و مقابلہ جاتی امتحان کے ۲۴؍سالہ سفر میں میں ایسا ایک بار نہیں بلکہ مسلسل ۱۶؍ بار ہوا ہے۔ لیکن اپنی دھن کے پکے بھنور لال منڈھ نے ہار نہیں مانی  اور آخر کار ۴۱؍ سال کی عمر میں انہوں نےسرکاری نوکری کا خواب پورا کرلیا ہے۔ 
 مغربی راجستھان کے باڑمیر ضلع ہیڈکوارٹر سے ۳۰؍ کلومیٹر دور واقع سناوڑا کے بھنور لال کی حال ہی میں سوم درجہ کے ٹیچر (سوشل سائنس)کے طور پر تقرری عمل میں آئی ہے۔ انہوں نے کئی بھرتی امتحان میں بہت کم نمبرات سے پیچھے رہنے کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ اتنا ہی نہیں معاشی حالات خستہ ہونے کے سبب ۲۰۱۰ء میں انہوں نے بی ایڈ کرتے ہوئے گجرات کے اونجھا میں بطور مزدور کام بھی کیا۔ قابل ذکر ہے کہ بھنور لال نے مزدوری کے ساتھ ساتھ پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ جبکہ ایک بار ناکام ہونے کے بعد بھی انہوں نے اپنا حوصلہ پست نہیں ہونے دیا۔یہی وجہ ہے کہ ۲۴؍ سال کی کڑی محنت کے بعد انہیں سرکاری نوکری مل گئی ۔ اس سے نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ دوست احباب بھی خوش ہیں۔
بھنور لال نے بتایا کہ  میں نے ۱۹۹۹ء  میں  بارہویں کا امتحان پاس کرلیا تھا۔ اس کے بعد گھر کے معاشی حالات ٹھیک نہیں تھے ، انہی پریشانیوں کے سبب مجھے تعلیمی سلسلہ روکنا پڑا اور تقریباً ۱۰؍  سال  محنت مزدوری کے کام کئے ۔ پھر ۲۰۱۰ء میں بی ایڈ کیا۔  ۱۲۔۲۰۱۱ء میں سیکنڈ گریڈ میں کچھ نمبرات کی کمی سے ٹیچر بھرتی کی فائنل لسٹ میں جگہ بنانے میں ناکام رہا۔ ۲۰۱۲ء میں گریڈ تھری کی پرویژنل لسٹ میں انتخاب ہوا، لیکن فائنل میں ایک مارکس کی کمی سے انتخاب عمل میں نہیں آیا۔ 
ایک دیگر سوال کے جواب میں بھنور لال نے کہا کہ’’ ۲۰۱۳ء میں ’جیل پرہری‘ میں تحریری اور دوڑامتحان پاس کرلیا تھا، لیکن میڈیکل میں باہر ہوگیا۔ ۲۰۱۳ء میں روڈ ویز کنڈکٹر بھرتی میں بھی ناکامی ہاتھ لگی ۔ اسی سال گریڈ تھری (ٹیچر بھرتی) میں فائنل سلیکشن ہوگیا، لیکن اہلیت کا معاملہ کورٹ میں ہونے کے سبب جوائننگ پر روک لگ گئی۔ حالانکہ اہلیت  کا معاملہ دو سال بعد سپریم کورٹ سے جیت گیا، لیکن تب تک رزلٹ ریوائز ہوگیا اور فائنل میرٹ لسٹ سے باہر ہوگیا۔ یعنی ایک بار پھر نوکری کی امید ٹوٹ گئی ۔ اس کے بعد ریلوے میں تین بار فزیکل اور ریٹن امتحان پاس کیا، لیکن ہر بار فائنل میرٹ میں ناکامی ہی ہاتھ لگی۔ ۱۷۔۲۰۱۶ء میں گرام سیوک اور پٹواری امتحان میں محض کچھ نمبرات سے فائنل لسٹ میں جگہ نہیں بناسکا۔ ۲۰۱۸ء میں گریڈ ٹو زمرہ میں ۲؍ مارکس سے ناکام رہا۔ ۲۰۱۸ء میں ہی آر ای ای ٹی میں ۰ء۲۵؍ سے ناکامی ہاتھ آئی۔ اس کے علاوہ ۲۰۲۱ء آر ای ای ٹی میں ۱۲۷؍ مارکس آئے، لیکن بھرتی منسوخ ہوگئی۔ اب ۲۰۲۳ء میں جنرل کٹیگری میں سوشل سائنس مضمون میں حتمی طور پر میرا انتخاب عمل میں آیا ہے۔‘‘ فی الحال بھنور لال کی جدوجہد اورانتھک محنت کی یہ کہانی موضوع بحث ہے اور ہر کوئی ان کی تعریف کررہا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK