Inquilab Logo

تعلیم کے ساتھ بچوں کا ہنر مند بننا بھی لازمی ہے

Updated: May 08, 2023, 3:16 PM IST | Rafiqa Pallavkar | Mumbai

ایک زمانہ تھا جب والدین، بچوں کی بے جا فرمائشیں پوری کرنے کے بجائے تعلیم کے حصول کیلئے جدوجہد کرتے تھے۔ مگر موجودہ دور کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے منہ سے نکلی ہر خواہش پوری کی جائے جس کی وجہ سے تعلیم پیچھے رہ گئی ہے۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ انہیں تعلیم کے ساتھ ہنر مند بنایا جائے

Be sure to teach children a skill along with education so that their future is bright.
بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر ضرور سکھائیں تاکہ ان کا مستقبل روشن ہو۔

برسوں پُرانی بات ہے، ہمارے پڑوس میں ایک گھر تھا جو بند ہی پڑا رہتا تھا۔ ایک دن اچانک اس گھر کی کھڑکیاں، دروازے کھلے نظر آئے۔ ہماری دادی بیحد خوش ہوئیں۔ اشتیاق کیساتھ تانک جھانک کرنے لگیں، ’’شاید پڑوس میں کوئی نیا کرائے دار آیا ہے، صاف صفائی چل رہی ہے۔ اچھا ہے ذرا پڑوس بھی آباد ہو جائیگا۔ ذرا رونق ہو جائیگی۔ ‘‘ دادی دوسرے ہی دن خیر خیریت دریافت کرنےوہاں پہنچ گئیں۔ ہم بھی پیچھے پیچھے چل دیئے۔ دادی نے رسمی سلام دُعا کے بعد گھر کے کونوں کھدروں پر نظریں دوڑائیں اور پوچھا، سامان کہاں ہے؟ ابھی آپ رہنے نہیں آئے؟‘‘ بات چیت سے پتا چلا کہ بطور ایک کرائے دار آنے والا شخص پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہے ابھی اکیلے ہی گھر کا انتظام کرنے آئے ہیں بعد میں جا کر اپنی بیوی کو لے کر آئیں گے۔ لیکن تمام تر سامان وہ لا چکے تھے جو کہ پترے کی ایک پیٹی، چٹائی، ایک کیروسین پر چلنے والا اسٹو چند ایک برتنوں، دو کھانا کھانے کی پلیٹوں اور دو پیالوں پر مشتمل تھا۔ بس یہ ہی تھا اُن کا کل اثاثہ!
 اُن کا یہ ’’حال‘‘ دیکھ کر دادی کا سینہ چھلنی چھلنی ہو گیا۔ دادی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُنہیں اپنے ہی گھر میں مہمان بنائے رکھتیں۔ ایسا سمجھیں دادی دل ہی دل میں اُنہیں اپنا بیٹا تسلیم کر چُکی تھیں۔ 
 پھر گزرتے وقت کے ساتھ وہ دونوں میاں بیوی پڑوسی کم اور گھر کے افراد کی ہی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے۔  ڈاکٹر صاحب نے ایک دن دادی کو بتایا کہ ’’وہ پانچ بھائی اور دو بہنیں کل ملا کر اپنے والدین کی سات اولادیں تھیں۔ اُن کا سانگلی میں ایک چھوٹا سا گھر ہے جو سارے کا سارا ٹین سے بنا ہوا ہے۔ اسی سے متصل اُن کے والد کاایک گیراج ہے۔ اُن کے والدین نے کڑی محنت کر کے اپنے بچّوں کواعلیٰ تعلیم دلائی۔ چار بھائی ڈاکٹر بنے۔ دونوں بہنیں ٹیچر بنیں۔ والدین نے انہیں سہولیات و آسائشیں نہیں دیں لیکن پائی پائی جوڑ کر اُنہیں زیورِ تعلیم سے آراستہ کرکے شاہراہِ حیات پر گامزن کر دیا کہ ’’جاؤ! اپنا جہاں آپ پیدا کرو!‘‘
 وقت گزرتا گیا۔ اُنہوں نے بھی اپنی محنت و لگن سے گاؤں میں اپنا ایک نام اور پہچان بنائی۔ گھر کے حالات بھی سنورتےچلے گئے۔ اُن کے گھر کا نقشہ مجھے سمجھ آنے تک اچھا خاصا بدل چکا تھا۔ اب وہ ایک آرام دہ زندگی گزارنے لگے تھے۔ اُن کے دونوں بچّے بھی بہت ذہین تھے۔ 
 ڈاکٹر صاحب اور اُن کی اہلیہ بذاتِ خود اپنے بچّوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔ ہمارا جب بھی ڈاکٹر صاحب سے سامنا ہوتا تھا وہ ہم سے ہمارے امتحانات اور پھر اُن کے نتائج کے بارے میں ضرور استفسار کیا کرتے تھے۔ اپنے مریضوں سے اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے تو باندھ لینا لیکن اپنے بچّوں کو تعلیم یا کوئی ہنر ضرور دلانا۔ بچّوں کو محنت کا عادی بنانا۔ دانہ خاک میں مل کر ہی گل گلزار ہوتا ہے۔‘‘ 
 ڈاکٹر صاحب کی ان باتوں کے برعکس آج اگر دیکھا جائے تو والدین اپنے بچّوں کی ہر خواہش پوری کرنا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں۔ اُن کے مہنگے مہنگے شوق پورے کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جیسے کہ مہنگا موبائل فون، مہنگی سے مہنگی موٹر سائیکل کی فراہمی، ہوٹلنگ وغیرہ۔ 
 بچّے کی ایسی کوئی خواہش، کوئی آرزو ادھُوری رکھتے ہی نہیں ہیں جسے وہ اپنی محنت کے بل بوتے پر حاصل کرنا چاہے! جبکہ اُنہیں اپنا شکار خود مار کر کھانے کا عادی بنانا چاہئے۔ تعلیم اور ہنر دینا لازمی ہے باقی سب آپ ہی آپ آ جائے گا۔ 
 مقابلے کے اس دور میں حصولِ معاش آسان کام نہیں ہے۔ پہلے کے زمانے میں اسکولی تعلیم پوری ہونے تک نائی کا بیٹا نائی بنتا تھا، سنار کا بیٹا سنار ہوتا تھا، جولاہے کا بیٹا جولاہا، کسان کا بیٹا کسان، تیلی کا بیٹا بھی تیلی! الغرض بیروزگاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کوئی بھی پیشہ چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔ جب تک نوکری نہیں مل جاتی تھی بچّے آبائی پیشہ اختیار کر چُکے ہوتے تھے۔ اب حالات مختلف ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی کئی بچّے نوکری حاصل کرنے کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ متوقع نوکری کے حصول یابی تک گھر کی گاڑی چلانےکے لئے اگر تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر حاصل کیا جائے تو کام آئے گا۔ ان شاء اللہ روزگار کا مسئلہ بڑی حد تک ختم ہو گا۔ اپنے بچّوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ لازماً کوئی نہ کوئی ہنر سکھانا چاہئے۔

WOMEN Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK