Inquilab Logo

زندگی میں پیش آنیوالا ایک ناخوشگوار واقعہ جس سے مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ ملا

Updated: May 04, 2023, 11:16 AM IST | Saima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Sometimes an event happens in life that gives life a new direction
بعض دفعہ زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے جس سے زندگی کو ایک نئی راہ مل جاتی ہے

ناخوشگوار حادثہ جس نے زندگی بدل دی
میری زندگی کا ناخوشگوار حادثہ وہ تھا جب میں نے دوست بنانے میں کئی غلطیاں کیں اور ان غلطیوں سے میں نے کافی سبق بھی سیکھے۔ دوستی کا معاملہ میرے لئے ہمیشہ سے پیچیدہ رہا۔ اپنی زندگی کے پچھتاوؤں میں بہت سے موقعوں پر اپنی عزت نفس کے لئے کھڑا نہ ہونا بھی ہے۔ کبھی خوف میں، کبھی محبت میں اور کبھی کسی دوست کو کھودینے کے ڈر سے۔ لیکن دوستی کے جس رشتے میں آپ کو اپنی انا، وقار اور عزت نفس داؤ پہ لگانی پڑے، جس سے آپ کا آرام و سکون بے سکونی میں بدل جائے، جس کے قول و عمل سے آپ کو تکلیف پہنچے ایسی دوستی کو خیرباد کہنا ہی بہتر ہے۔ اور جب مَیں نے نمرہ احمد کا شاہکار ’’مَیں انمول‘‘ پڑھا تو مَیں نے یہ بات سیکھی کہ ’’جب ہم اپنی عزت خود کرنا سیکھ جاتے ہیں صرف تب دوسرے احتیاط کرتے ہیں، یہ غرور نہیں ہے نہ خود پسندی ہے۔ یہ خود آگاہی ہے، اپنی قدر کرنا ہے۔‘‘
 دوستی کے معاملے میں چند تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد مَیں بہت محتاط رہتی ہوں۔ تمام بہنوں کو ایسا کرنا چاہئے۔
سحر اسعد رحمانی (بنارس،یوپی)
والد صاحب کے ایک جملے نے زندگی بدل دی


انسانی زندگی اچھے برے واقعات کا مجموعہ ہے۔ ان میں کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں جو ہمارے ذہن پر گہری چھاپ چھوڑ دیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ایک ناخوشگوار واقعہ ہوا ہے جس نے میری زندگی بدل دی اور آگے بڑھنے کا حوصلہ ملا۔ مَیں چھٹی جماعت میں زیر تعلیم تھی اور پڑھائی میں کافی تیز تھی لیکن پتہ نہیں کیوں یونٹ ٹیسٹ میں حساب میں میرے بہت کم نمبر آئے۔ مَیں بہت اداس ہوگئی اور گھر پر والدین کو بتانے سے ڈر رہی تھی لیکن بہت ہمت کرکے پاپا کو بتا دیا۔ ان کے چہرے کو دیکھا تو ناراضگی کے آثار نہیں تھے۔ اتنا ہی کہا انہوں نے، ’’بیٹا مجھے آپ سے بہتر کی اُمید تھی۔‘‘ نہ کوئی غصہ کیا نہ ڈانٹا۔ بس یہ بات میرے دل کو لگی اور خوب محنت سے پڑھائی کی۔ یقین جانئے اس سال میں جماعت میں اوّل آئی۔ پاپا اور امی بے حد خوش تھے۔ اور ان کی خوشی میری زندگی کا حاصل ہے۔
ناہید رضوی (بہرام باغ، ممبئی)
اور مَیں فیل ہوگئی
کہتے ہیں کہ ’’ناکامی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔‘‘ یہ بات سچ ہے لیکن یاد رہے صرف اس شخص کیلئے جو عبرت و نصیحت کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور مثبت سوچ کا حامل ہو۔ میرے ساتھ بھی ایک واقعہ پیش آیا جو بظاہر ناخوشگوار ہے لیکن اس نے مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ ہوا  یوں کہ ہمارے کلیہ فاطمۃ الزہراء الاسلامیہ للبنات مئو میں عربی علوم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے بھی آراستہ کیا جاتا تھا۔ اس وقت ہم عالمیت کے ساتھ ساتھ ہائی اسکول بھی کر لیا کرتے تھے۔ عالمیت کے ششماہی امتحان میں دونوں علوم کا امتحان ہوتا تھا، لیکن سالانہ امتحان سے پہلے ہی چونکہ یوپی بورڈ سے ہائی اسکول کا امتحان دے چکے ہوتے تھے، اس لئے سالانہ امتحان میں عصری علوم کا ہوم اگزام نہیں ہوتا تھا۔ میں نے ششماہی میں بھی عصری علوم کی تیاری نہیں کی اور فیل ہو گئی۔ اگرچہ اس کا کوئی نقصان نہیں تھا اور نہ نقصان ہوا مگر وہ فیل ہو نا طبیعت کو انتہائی ناگوار گزرا اور کبھی بھی فیل نہ ہونے کی ٹھان لی اور پھر مَیں نے اتنی محنت کی کہ کلاس کی ممتاز طالبات میں شمار ہونے لگا۔
سحر جوکھن پوری (جوکھن پور، بریلی)

تنہائی نے زندگی میں آگے بڑھنا سکھایا


جب مَیں اپنے جذبات کا اظہار دوسروں کے سامنے نہیں کر پاتی تھی تب ایک ڈائری میں انہیں لکھ دیا کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ میری عادت بن گئی اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے احساسات کو بھی الفاظ میں پرونے لگی۔ جب سوشل میڈیا سے جڑی، کچھ لوگوں نے میری تحریر کو پسند کیا تو کچھ نے مذاق بھی بنایا مگر مَیں نے مذاق بنانے والوں کو نظر انداز کر دیا۔ جب میری کتاب چھپی اور لکھنے کی دنیا میں مجھے ’بیسٹ رائٹر کے ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا تو مذاق بنانے والوں کے منہ پر خود بخود تعریفوں کے قصیدے چڑھ گئے۔ میری اب تک تقریباً ۱۰؍ کتابیں چھپ چکی ہیں اور مَیں اپنی اس ہنر کی دنیا میں ایک ایک قدم آگے بڑھ رہی ہوں، الحمدللہ!
ہما انصاری (مولوی گنج لکھنؤ)
پیارے نانا چھوڑ کر چلے گئے مگر
چونکہ مَیں ایک مدرسہ میں معلمہ تھی اس وجہ سے اسکول روزانہ جانا پڑتا تھا اس لئے اپنوں کے ساتھ وقت گزارنا کا زیادہ موقع نہیں ملتا تھا۔ مجھے ۲؍ ستمبر ۲۰۱۳ء کا وہ لمحہ آج بھی یاد آتا ہے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ اتوار کا دن تھا سارے بھائی بہن گھر پر ہی تھے اور میں اسکول میں تھی۔ اسکول میں اچانک مجھے اطلاع ملی کہ نانا کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ میں فوراً گھر گئی مگر جب تک میں گھر پہنچی تب تک نانا مالک حقیقی سے جا ملے تھے۔ اس وقت مجھے ایسا لگا جیسے میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ہے۔ اس سانحہ کے بعد ہم سبھی ٹوٹ گئے تھے۔ خیر جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ یہی زندگی کی حقیقت ہے کہ ہر کسی کو یہ دنیا چھوڑ کر جانا ہے مگر اس حادثے کے بعد مَیں اپنوں سے قریب تر رہنے کی پوری کوشش کرنے لگی ساتھ ہی ہمت کے ساتھ اپنی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئی۔
حافظہ سنجیدہ فاطمہ (اعظم گڑھ، یوپی)
میری سہیلی کے رویے نے سب کچھ بدل دیا


میری ایک بہت اچھی سہیلی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے ایک بات کہتے تھے لیکن ایک دن اسکول میں ٹیچر نے ایک پروجیکٹ دیا تھا۔ میری ایک ہم جماعت نے پہلے پروجیکٹ تیار کر لیا، میں نے اس سے مانگا تو اس نے دے دیا اور ہم اس کا دیکھ کر اپنا پروجیکٹ تیار کر رہے تھے تبھی میری سہیلی آگئی اور غصے سے کہنے لگی، ’’اس کو پروجیکٹ کیوں دکھایا؟‘‘ ماں بہت پریشان اور دکھی ہوئی۔ میری سہیلی کے رویے کی وجہ سے ہم سبھی سمجھ نہیں پائے کہ آخر اس نے ایسا کیوں کیا؟ البتہ اس رات مَیں نے اپنے سے دوسرا پروجیکٹ بنایا جو کلاس کا بہترین پروجیکٹ ثابت ہوا۔ اس کے بعد سے مَیں نے اپنا کام خود کرنا سیکھا۔
رحمت نسا عین (جونپور، یوپی)
سبق رٹنا میری غلطی ثابت ہوا
زندگی کی کتاب میں صرف خوشیاں ہی درج نہیں ہوتیں بلکہ اس کتاب کے کئی ابواب ایسے ہوتے ہیں جو سیاہی کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بھی تلخ حقائق کو پوشیدہ کئے ہوئے ہوتے ہیں جو ہمیں سبق سکھا جاتے ہیں۔ مَیں اوّل جماعت ہی سے اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہوتے ہوئے آئی تھی اور آگے بھی اسی کی اُمید تھی۔ دہم جماعت میں خوب پڑھائی مگر پورا دن سبق رٹا کرتی تھی۔ یہ سبھی جانتے ہیں سبق رٹنے والوں کیلئے پہلا لفظ یاد ہونا ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ پورا بھول جاتے ہیں لیکن یہ محض خوش قسمتی ثابت ہوئی کہ ایسا میرے ساتھ نہیں ہوا۔ البتہ مجھے ۸۰؍ فیصد نتیجے کی امید تھی مگر اس سے کم فیصد حاصل ہوا۔ یہ میرے لئے ایک ایسا واقعہ ہے جو میں زندگی بھر نہیں بھول سکتی۔ اس کے بعد مجھے شدت سے احساس ہوا کہ پڑھائی کیلئے سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے بعد اچھے نمبرات سے کامیابی ملی۔
خان شبنم محمد فاروق (گوونڈی، ممبئی)
میری کہانی میری زبانی
یہ واقعہ میرے کالج کے دنوں کا ہے جب میں بی اے کے آخری سال میں تھی۔ جب کورونا بحران تھا۔ ہمارے کالج میں یومِ جمہوریہ کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ میں نے بھی اسی دور کے حساب سے اپنا ایک ڈرامہ لکھا تھا اور اپنی سہیلیوں کی مدد سے اس کو تیار بھی کیا تھا۔ بہت زیادہ محنت کی تھی میں نے اس کے لئے۔ کچھ حقیقتیں تھیں جو میں پیش کرنا چاہتی تھی۔ ہمارا گرلز کالج تھا تو کوئی دقت بھی نہیں تھی لیکن حفاظتی انتظامات کے پیشِ نظر یہ ڈراما روک دیا گیا۔ مجھے بہت زیادہ افسوس ہوا کیونکہ میں نے اور میری تمام ساتھیوں نے کافی محنت کی تھی۔ اس کے بعد وہاں کی ٹیچرز نے مجھے بہت ہمت اور حوصلہ دیا کہ آپ ہار نہیں مانیں اور لکھتے رہیں ان شاءاللہ ایک روز بہت آگے جاؤں گی۔ اور وہاں کی ٹیچر مسز تشفی رحمان جنہوں نے مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دلایا وہ آج بھی میری آئیڈیل ہیں۔
سارہ فیصل (مئو، یوپی)
انگریزی میری جھجک بن گئی تھی مگر


مَیں اردو میڈیم اسکول سے تھی اور میرے گھر والوں نے گیارہویں کے لئے میرا داخلہ صوفیہ کالج ( پیڈر روڈ) میں کروا دیا، جہاں کی طالبات اور اساتذہ صرف انگریزی زبان بولتی تھیں۔ کالج کا ماحول بے حد ماڈرن تھا۔ جب میں نے وہاں دوستی کرنے کی کوشش کی تو مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے انگریزی نہیں آتی تھی لیکن میرے اندر اعتماد کی کمی تھی۔ لیکن مَیں نے حوصلہ نہیں چھوڑا اور خود کو وہاں ایڈجسٹ کیا۔ مَیں جو انگریزی زبان سے اتنا ڈرنے لگی تھی، پھر اسی زبان میں اپنا گریجویشن مکمل کیا۔ بس ہمیں ہمت نہیں ہاری چاہئے اور اپنی کمیوں اور کمزوریوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے۔
صدف الیاس شیخ (تلوجہ، نوی ممبئی)

شادی کیلئے ’’ہاں‘‘ کرنا میرے لئے بہتر ثابت ہوا
زندگی بھی ایک عجیب معمہ ہے۔ کبھی کبھی زندگی ایسے موڑ پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مَیں نے ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ میری شادی کی بات ایسے شخص سے چلنے لگی کہ جس کی بیوی کا انتقال تھوڑے دن پہلے ہی ہوا تھا۔ وہ اور ان کے شوہر کی محبت کے چرچے ہر خاص و عام کی زبان پر تھے۔ یہ جوڑا مجھے بھی بہت عزیز اور پسند تھا اور ہمارے شہر میں بہت مقبول تھا۔ شادی کے پانچ سال بعد ہی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے شوہر عمر میں مجھ سے بڑے تھے۔ ددھیال والے اس شادی کے حق میں نہیں تھے جبکہ میرے ماموں نے اس شخص کی تعریف کے پل باندھ رکھے تھے۔ فیصلہ کرنا بڑا ہی مشکل تھا۔ میرے دادا نے استخارہ کیا اور یہ اس شادی کے حق میں نکلا۔
 یہ ایک ایسا مرحلہ اور واقعہ تھا جس کی بابت یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا کہ یہ فیصلہ اچھا ہے یا برا ہے۔ مگر پھر بھی میں نے اس کو اللہ کا حکم مان لیا اور ہاں کر دی۔ان کی چھوٹی چھوٹی دو بیٹیاں تھیں۔ ان کو میں نے سگی ماں سے زیادہ پیار دیا۔ میں نے بڑی ہمت اور ایثار سے کام لیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے مجھے شادی کے بعد کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور زندگی کا ہر سکھ مجھے نصیب ہے۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
مراٹھی کا پرچہ چھوٹ گیا اور


بات میرے اسکول کے زمانے کی ہے جب میں ۱۰؍ ویں امتحان کی تیاری میں مصروف تھی۔ امتحان کا ٹائم ٹیبل مل چکا تھا۔ میرا سینٹر انگلش میڈیم اسکول میں لگا تھا۔ پیپر طے شدہ وقت پر مکمل ہو رہے تھے۔ آخر میں مراٹھی کا پیپر تھا وقت دوپہر ۲؍ بجے کا تھا۔ امتحان دینے کے لئے ہم بھی وقت پر پہنچ گئے تھے۔ سینٹر پر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ مراٹھی کا پیپر صبح ۹؍ بجے کا تھا۔ یہ سنتے ہی میرے پیروں سے زمین کھسک گئی۔ میں بے تحاشا رونے لگی۔ میرے ساتھ کم از کم ۳۰؍ بچّے اور بھی تھے جو امتحان نہیں دے پائے تھے۔ اس اسکول کی پرنسپل میڈم نے ہمیں ہمارے اسکول کے پرنسپل سے ملنے کا مشورہ دیا۔ جب ہم نے پرنسپل سے پیپر چھوٹنے کی بات بتائی تو وہ دنگ رہ گئے پھر کسی اسکول سے معلومات حاصل کی اور بتایا کہ اگر آپ نے ہندی کے پرچے پورے مارکس کے دیئے ہیں تو مراٹھی کے پرچے میں بھی پاس ہو جاؤ گے، فکر نہ کریں۔ ڈھائی مہینے بعد رزلٹ آیا اور مَیں پاس ہوگئی تھی۔ اللہ کا کرم ہوا مجھ پر، پرچہ نہ دے پانے کے نا خوشگوار واقعہ نے مجھے توڑ دیا تھا۔ پاس ہونے کی خبر سے مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ ملا۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
اُن کی باتوں سے مجھے ’مثبت سوچ‘ کی اہمیت معلوم ہوئی
ایک بار کالج میں وقفے کے دوران میں میدان کی طرف بڑھ رہی تھی کہ اسٹاف روم سے آواز آئی، ’’یہاں آئیے۔‘‘ مَیں پہنچی تو ایک استاد نے کہا کہ آپ ایسے کیوں چلتی ہیں؟ سیدھی چلا کریں۔‘‘ مَیں شرمندہ تھی کیونکہ اس سے پہلے بھی کئی بار گھر والے ٹوک چکے تھے۔ آج استاد نے بھی ٹوک دیا اور یہ کشمکش بھی تھی کہ کیا کہوں کہ اتنے میں ایک میم بولیں، (جو شاید میرے گھر کے ماحول سے واقف تھیں) کہ ’’یہ اس لئے اتنا جھک کر چلتی ہے کہ ان کے گھر میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ عاجزی و انکساری سے چلنا چاہئے۔ لڑکیوں کو سینہ تان کر نہیں چلنا چاہئے۔ ان کے مدرسے میں یہی تربیت دی جاتی ہے۔‘‘
 مَیں محو حیرت تھی اور دیکھتی رہ گئی کہ وہ ٹیچر اتنا اچھا سوچ رہی ہیں اور شاید ہی کوئی کسی کی ایک معمولی سی چال سے بھی اتنا اچھا پہلو نکال سکتا ہے۔ اتنی مثبت سوچ، مجھے حیرت تھی کہ وہ کچھ بھی کہہ سکتی تھیں مثلاً میرے ساتھ کوئی مسئله ہے! یا کوئی اور بات کہہ سکتی تھیں مگر کیسے کوئی کسی کے چلنے کے انداز سے بھی تربیت تک پہنچ سکتا ہے؟ البتہ ہم اکثر کسی کی اچھی عادت پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد مَیں نے عہد کر لیا کہ آئندہ کسی بھی شخص کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اچھا پہلو تلاش کرنے کی کوشش کروں گی۔
خولہ صدیقی محمدی (لکھیم پور کھیری، یوپی)
ان تکالیف کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا


میری امی نہایت شریف اور سیدھی سادی تھیں۔ اکثر لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتی تھیں۔ میری عمر تیرہ سال تھی اور میں گرما کی تعطیلات میں رامپور سے اپنے وطن آئی تھی۔ چند رشتہ داروں نے میری امی کو ورغلایا اور اس بات پر مجبور کیا کہ وہ مجھے لیکر ان دونوں کے یہاں جائیں۔ بڑے ماموں کو اس بابت خبر نہیں تھی۔ ہم وہاں پہنچ گئے۔ ہم وہاں ۲۲؍ دن تک رہے، لیکن یہ ۲۲؍ دن کسی قید کی طرح تھے۔ انہوں نے ہمیں خوب پریشان کیا۔ ان لوگوں نے اس سے قبل نہ کبھی ہمیں اپنے یہاں بلایا تھا اور نہ کبھی اس واقعے کے بعد بلایا۔ میری یتیمی کے پچاس سال سے زائد کی طویل مدت میں کسی رشته دار نے کبھی مجھے ایک ٹافی بھی نہیں دی، سوائے منجھلے ماموں اور منجھلی ممانی کے جنہوں نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ بڑے ماموں کو میرے والد مرحوم نے میرا ولی اور مربی مقرر کیا تھا، اور انہوں نے مجھے اپنی بیٹی کی طرح پالا۔ انہوں نے میری شادی اپنے بڑے بیٹے سے کرکے مجھے اپنی بہو بنالیا۔ ان ۲۲؍ دنوں اور بدمعاشوں کی حرکات کو مَیں جب یاد کرتی ہوں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ ان تکالیف کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
ناز یاسمین سمن (پٹنه، بہار)

women Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK